امام الانبیا جناب محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کی
اپنی اولاد میں صرف بیٹیاں ہی زندہ رہیں بیٹے حضرت ابراہیم ؓکا بچپنے میں
ہی انتقال ہوگیا۔بیٹیوں میں سب سے پیاری سیدۃالنساء حضرت فاطمۃالزھرارضی اﷲ
عنہا تھیں ۔ان کا نکاح آپﷺ نے حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ سے کیا۔ان کی
اولاد میں حضرت حسن وحضرت حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سب سے زیادہ مشہورہوگئے
۔پیغمبر اسلامﷺ سے ذاتی و خصوصی تعلق اور اسلام کے لئے اپنی بے انتہا قر
بانیوں کی وجہ سے اہل اسلام میں انھیں جو قدر ومنزلت حاصل ہے وہ کسی بیان
کی محتاج نہیں ۔پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات حضرات حسنین رضی
اﷲ عنہما اور ان کے والدین کے ساتھ اس تعلق ِخصوصی اور نسبت کو خود ہی بیان
فرماتے ہیں ۔ آ پ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے جس نے علی ؓکو برا کہا اس نے در
حقیقت مجھے برا کہا (احمدؒ)حضرت اُم سلمہ ؓکہتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا
علیؓ سے منافق محبت نہیں رکھتا اورمومن علیؓسے بغض اور دشمنی نہیں رکھتا
(ترمذیؒ و احمدؒ)حضرت زر بن حبیشؒ(تابعی) بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی ؓ نے
فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ پھاڑ ا اور ذی روح کو پیدا کیا در
حقیقت نبی اُمی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ کو یقین دلایا تھا کہ کہ جو کامل
مومن ہوگا وہ مجھ سے محبت رکھے گا اور جو منافق ہوگا وہ مجھ سے عداوت رکھے
گا (مسلمؒ)اسی طرح آپ ؐ حضرت فاطمہ کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں فاطمہؓ
میرے گوشت کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہؓ کو خفا کیا اس نے مجھے ناراض کیا (بخاری
ؒومسلمؒ)ایک اور رویت میں ہے جو چیز فاطمہ ؓکو بُری معلوم ہوتی ہے وہ چیز
مجھے بھی بُری معلوم ہوتی ہے اور جو چیز فاطمہؓ کو دکھ دیتی ہے وہ مجھے بھی
دُکھ دیتی ہے (متفق علیہ) حضڑت ابن عمیر ؒ(تابعی)کہتے ہیں کہ ایک روز میں
اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے پوچھا
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبت کس سے تھی ؟حضرت عائشہ ؓ
نے جواب دیا فاطمہؓ سے پھر میں نے پوچھا اور مردوں میں سب سے زیادہ محبت کس
سے تھی تو آپ ؓ نے فرمایا ان کے شوہر کے ساتھ ’’یعنی حضرت علی ؓکے
ساتھ‘‘(ترمذیؒ)اسی طرح آپ ؐ کے کئی ارشادات حضرات حسنین ؓ کے مرتبے اور
مقام اور آپ سے گہرے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں آپؐ کا ارشاد ہے حضرت براءؓ
کہتے ہیں کہ میں نے (ایک دن )نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس حال میں
دیکھا کہ حسنؓ ابن علیؓآپ کے کاندھے پر سوار تھے اور آپ فرما رہے تھے اے اﷲ
میں اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ (بخاریؒو مسلمؒ)حضرت عبداﷲ
ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا یہ دونوں (حسن ؓو حسین ؓ
) میری دنیا کے دو پھول ہیں ۔(بخاری)حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ
رسول اﷲ ﷺ نے حضرت علی ؓ،فاطمہؓ،حسنؓاور حسینؓکے حق میں فرمایا ’’جو کوئی
ان سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا اور جو کوئی ان سے مصالحت رکھے میں اس سے
مصالحت رکھوں گا (ترمذیؒ)۔
حضرت امام حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کے بچپن میں ان کی تربیت خود رسول اﷲ ﷺ نے
فرمائی اس سے بڑھکر خوش قسمتی اور خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے ۔ ایام
طفولیت میں ان کی پرورش رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دختر محترمہ حضرت
فاطمہ ؓ کرتی تھی اور جب یہ لڑکپن کی عمر کو پہنچے تو دین کی تعلیم اپنی
والدہ محترمہ اور بحرالعلوم حضرت علی ؓ سے حاصل کی اسلام کا سورج اسی گھر
سے طلوع ہوا تھا ۔آخری بنی ؐ نے اپنی نبوت کا اعلان مکہ میں کیا مگر مدینہ
طیبہ میں اس کی تکمیل کا اعلان فرمایا ان مقدس نبوی تعلیمات کے شاہد اول
جناب علی المرتضی رضی اﷲ عنہ ہر مرحلے اور ہر مقام پر آپ کے ساتھ تھے گو
اسلام کا علم آپ کو بچپن میں ہی ملا ۔سخاوت وشجاعت میں آپ دونوں اسد اﷲ
الجبار سے کچھ بھی مختلف نہیں تھے ۔اخلاق و کردار میں آپ دونوں رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم کا پرتو معلوم ہوتے تھے ۔آپؐ کے انتقال کے وقت آپ ؓبچے ہی تھے
اس کے بعد دور صدیقؓشروع ہوا اسی میں آپ کا لڑکپن ختم ہوا دورِ عمرؓ میں آپ
دونوں جوان ہوئے اور دورِ عثمانؓ میں آپ کا زیادہ تر وقت تعلیم وتعلم اور
جہاد فی سبیل اﷲ میں گذراحتیٰ کہ خلافت کی باگ حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے
سنبھالی ۔اپنے والد محترم کی خلافت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالنے سے قبل آپ
دونوں کے علمی اور جہادی معمولات میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان میں اضافہ
ہوتاگیا۔حضرت ؓکا زمانہ چونکہ آپسی جنگ و جدل کے نذر ہو گیا اور جو اسلامی
مملکت کی سلطنت میں اضافے اور وسعت کا اندازہ تھا آپسی لڑائیوں کی وجہ سے
وہ ممکن ہی نہ ہو سکا ۔باوجود اس کے انھوں نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر
اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت اور وسعت میں کوئی کمی باقی نہیں چھوڑی
۔ان مشکل ترین ایام میں حضرات حسنینؓ اپنے والد کے ساتھ ہر ہر مقام پر ساتھ
رہتے تھے ۔حتیٰ کہ ایک بد بخت نے انھیں زہر میں بجھے تیز دھار ہتھیار سے
زخمی کردیا اور وہ جاں بر نہ ہو سکے اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے بعد خلافت کی ذمہ داری ان کے بڑے بیٹے حضرت حسن ؓکے
سپرد کردی گئی مگر حالات کی خرابی اور آپسی انتشار سے بچنے کے خاطر وہ اپنے
منصب سے سبکدوش ہوگئے، امیر معاویہؓاب کئی سال تک حکمران رہے مگر اندرونی
طور پر حالات بدستور کشیدہ ہی تھے باوجود یہ کہ میدان جنگ کافی حد تک سرد
پڑ چکا تھا اور مسلمانوں کی ساری توجہ اندرونی مسائل سے ہٹ کر بیرونی مہمات
کی جانب مبذول ہو چکی تھی کہ یزیدابن معاویہ کی خلافت کے لئے میدان ہموار
کیا جانے لگا اور بعض صحابہؓ نے اس سے نا پسند کیا اس لئے کہ جس وقت یزید
کی حکمرانی کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں اس وقت اہل بیت اور دوسرے کئی
نامی گرامی صحابہؓکی اولاد جو علم و عمل اور دیانت تقویٰ میں یزید سے بہت
آگے اور فائق تھے کو نظر انداز کر کے ایک ایسے شخص کو خلافت کی نازک ذمہ
داریاں سپرد کرنا جو اپنے معاصرین کے مقابلے میں کمتر تھا ہر طرح سے نقصان
دہ ثابت ہوا ۔اُمت کی اکثریت اس سے خوش نہیں تھی اور اندر ہی اندر یزید کی
حکمرانی کے خلاف ایک لاوا پک رہا تھا اور نفرت بڑھتی جارہی تھی۔اہل عراق نے
اسی دور میں امام حسین ؓسے درخواست کی کہ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی
تشریف آوری کے لئے بہت بے تاب۔اس وقت جو صحابہؓ زندہ تھے اُنھوں نے امام
عالی مقام کو عراقیوں کی غداریوں کی پوری تاریخ یاددلائی اور عراق جانے سے
سختی کے ساتھ منع کر دیا ۔مگر اﷲ تعالیٰ کا ارادہ ہی کچھ اور تھا اور وہی
ہو کر رہا جو مولائے کائنات کی مرضی تھی ۔اس حادثے نے جہاں اُمت کو بہت ہی
رنجیدہ کردیا وہی اس نے خلافت کی حقیقی صورت کو ظاہر کر دیا ۔ائمہ اسلام
،مفسرین ،محدثین اور فقہا نے اس پر اسلامی اصولوں کی روشنی میں بلا جھجک
اور بے لاگ انداز میں بات کی کہ آیا امام عالی مقام کا اقدام درست تھا کہ
یزید کی حکومت جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق خلافت کے
برعکس ملوکیت کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ حضرت حسن ؒکے زمانہ خلافت کے ساتھ
ہی اسلامی خلافت کا خاتمہ ہو چکا تھا ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی نظام یک دم سے ختم نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی
کسی نظام میں بہ یک جنبش خرابیاں پیدا ہوتی ہیں صحابہ کبارؓ کی لاکھ کوششوں
کے باوجود بھی ملوکیت نے اپنا سر اُبھارا اور قائم ہو گئی یہ در حقیقت
مسلمانوں کے لئے ایک آزمائیش تھی اور ایک امتحان تھا ۔مسلمان آج تک اس
امتحان میں مبتلا ہیں آج بھی مسلمانوں کی درجنوں حکومتیں تو ہیں مگر اسلامی
حکومت ایک بھی جگہ قائم نہیں ہے۔اﷲ تعالی نے امت مسلمہ کو زمین کی خلافت کا
تاج عطا کیا تھا اب یہ اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس خلافت کے نظریہ کو
کتابوں کے بجائے زمین پر نافذ کر کے دنیا کے سامنے اس کی حقیقی تصویر پیش
کر تے مگر مسلمانوں سے ایسا نہیں ہو سکا ۔انھوں نے اس کے اسباب پر غور و
فکر کے بعد خرابیوں کی اصلاح کے بجائے ’’تقدیر الٰہی‘‘ کو اس کی وجہ ر قرار
دیکر اپنے کرنے کے کام سے اپنے دامن کو ہی چھڑا لیا ۔صحابہ کرام ؓنے اپنے
جان و مال کی بے مثال قربانی سے اسلام کے مقدس نظام کو قائم کردیا اب یہ
بعد والوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس نظام کی حفاطت کرتے ہم نے حفاظت تو در
کنار اسلام کی ایسی صورت پیش کی ہے جو بہت کچھ تو ہو سکتا ہے مگر اسلام
نہیں!!!
معرکہ کر بلا میں دونوں طرف لڑنے والے مسلمان تھے یزیدی فوج کو اپنی
مسلمانی پر تو ناز تھا البتہ یہ انتہائی حیرت انگیز بات تھی کہ جس گھرانے
نے سارے عالم کو اسلام کے نور سے منور کردیا تھا انھیں نعوذباﷲ باغی اور
طاغی قرار دیا گیا ۔کربلا کے ریگستانوں میں امام حسین ؓکے ساتھ جو لوگ ہم
رکاب تھے انھیں دنیا کی کسی بھی زبان میں فوج نہیں کہا جا سکتا ہے وہ بے
سروسامان لوگ حضرت امام کا اہل وعیال تھا
بے سروسامان نبیؐ کا یہ خانوادہ قوم مسلم کی تباہی اور گمراہی کو کس طرح
برداشت کر سکتا تھا یہ خاندان سر کی آنکھوں سے اُمت کی خلافت پر نا اہل
لوگوں کے تسلط سے پھیل رہی گمراہی پر بے تاب ہو رہا تھا اور ان کے لئے اب
سر کی بازی لگا ئے بغیر کوئی چارہ ہی نہ تھا۔مسلمانوں ہی کے کہنے پر وہ لوگ
انھیں ایک ظالم اور عیاش حکمران سے نجات دلانے کی نیت سے عراق کی جانب
روانہ ہوئے تھے کہ ابن زیاد نے انھیں کربلا کے ریگ زاروں میں ہزاروں فوجوں
کی جمعیت لیکر روک دیا اور ان کے سامنے واحد شرط یہ رکھی کہ آپ لوگ ابن
زیاد کے ہاتھ پر بیعت ہو جایئں حالانکہ اس سے قبل امام مسلم کو بھی انہی
لوگوں نے بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا تھا ۔حضرت امام ؓ نے تین شرطیں
رکھیں ایک یہ کہ مجھے کسی کافر قوم کی سرحد کی جانب نکل جانے دیجئے جہاں
میں جہاد کرتے ہوئے فتح حاصل کرسکوں یا شہید ہو جاؤں نمبر دو مجھے مدینہ
واپس جانے دیا جائے نمبر تین یا مجھے یزید کے پاس لئے چلو ۔ابن زیاد نے ان
میں سے کوئی بھی بات نہیں مانی اور امام ؓکے سامنے ایک ہی شرط رکھی کہ ہر
صورت میں ابن زیاد کے ہا تھ پر بیعت کیجئے یا جنگ کے لئے تیار ہو جائے
۔امام عالی مقام ؓ نے جنگ قبول کرتے ہوئے ’’قتل حسینؓ اصل میں مرگ ِیزید ہے
‘‘کی ناقابل فراموش تاریخ رقم فرمائی اس لئے کہ انھیں معلوم تھا کہ اگر
مصلحتاََ ہی ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی تو مسلمان قیامت تک اس کو
بنیاد بنا کر فاسق و فاجر حکمرانوں کے ذریعے ’’کفرِ بواح‘‘کے باوجود خروج
کو ناجائز تصور کرنے لگیں گے اور نتیجہ یہ نکلے گا اسلامی خلافت قیصریت کا
روپ دھار لے گی جس کی جڑ اکھاڑنے کے لئے صحابہؓ نے اپنی تمام تر قربانیاں
پیش کر کے خلافت قائم کی تھی ۔
آج کل بعض لوگوں نے حادثہ کربلا کے حوالے سے ایک نئی بحث یہ چھیڑ رکھی ہے
کہ آیا امام حسین ؓ کا اقدام شرعی نقط نگا ہ سے درست تھا کہ غلط ؟یزید
’’نیک شخص تھا اور اس نے جنگ قسطنطنیہ میں شرکت کی تھی اور اس کی ملوکیت
خلافت تھی اور اس کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں تھا؟گذشتہ کئی سال سے اس پر
بڑی زور دار لمبی بحثیں جاری ہیں۔مجھے ذاتی طور پر ان بحثوں سے زیادہ
دلچسپی نہیں ہے مجھے اس بات سے دلچسپی ہے کہ نبی علیہ السلام کے خانوادے کے
چشم وچراغ اور نبی ؐکے سب سے پیاری فاطمہ ؓبنت محمد ؐکے لال اور علی
المرتضیٰؓکے لخت جگر جنا ب امام عالی مقام ؓکیا اسلام کی ان باریکیوں سے بے
خبر ہو سکتے تھے جن میں پڑ کر ہمارے بعض علما ء اور دانشور حضرات یہ نازک
فیصلہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ امامؓکا اقدام شرعی تھا کہ غیر شرعی ؟وہ واقف
تھے اور کامل طور پر واقف تھے کہ اگر میں نے ’’معروف ‘‘پر دعوت کو رد
کیااور ’’فسق و فجوربشکل خاتمہ خلافت‘‘کے منکر پر روک کے لئے کوفیوں کی
دعوت پر نہیں گیا تو اسے امت کو نقصان یہ پہنچے گا کہ خلافت علی منہاج
النبوۃ کی صورت ہی بگڑ جائے گی جو یزید کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوئی اور
آج بھی ہم یہ محسوس کر سکتے ہیں جو سیاہ کارنامے اس کے احکام سے انجام دئے
گئے وہ کتنے بھیانک قسم کے تھے ۔ آج تک تمام تر باشاہت کے لئے بعض سرکاری
وظیفہ خوار اسی سے دلیل لیکر مخالفین اور ناقدین کا منہ بند کر دیتے ہیں ۔
پوچھا جا سکتا ہے کہ خیرالقرون کے ان عظیم بزرگوں کے اقدامات پر ہم جو بحث
چھیڑنے جاتے ہیں کیا اس سے ا سلام کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے کہ نہیں ؟یا
یہ کہ اس سے ہمارے ان بزرگوں کی ساکھ متاثر ہو جاتی ہے اور دین سے ناواقف
مسلمانوں میں بد ظنی پیدا ہو جاتی ہے ۔ ہماری یہ عادت بنی ہے کہ ہم بسا
اوقات ایک غیر ضروری بحث شروع کر کے اس سے اس انداز سے شروع کرتے ہیں کہ
پھر ہماری واپسی ناممکن ہو جاتی ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ اس مسئلے پر
مؤرخین اور فقہا کے بیچ سخت اختلاف رہا ہے مگر جناب امام عالی مقام ؓکے
زمانے میں جو صحابہ ؓزندہ تھے ان میں سے کسی بھی صحابی نے امام کے اس اقدام
کو غیر شرعی قرار نہیں دیا تھا اور نہ ہی تابعین عظام میں کسی کا ایک بھی
قول ان کے اس اقدام کے خلاف ہی ملتا ہے ۔سوائے اس کے کہ دورِ حاضر میں بعض
پیٹ پرست عرب حکمرانوں کے وظیفہ خوروں نے جمہور کے برعکس اقلیتی علماء کے
تفردات سے بعض حوالے لیکر اسلاف کے خلاف محاذ جنگ کھول رکھا ہے اور یزید
اور یزیدیت کے یہ مدافعین اس کانام ’’تحفظ ناموس اسلاف ‘‘رکھ کر عوام الناس
کو بیوقوف بناتے ہیں ۔آخر کیا وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ اور عقائدسے ناواقف
حضرات جان بوجھ کر ایک نئی بحث شرو ع کر تے ہیں !کیا یہ دیدہ دانستہ امت کے
شیرازے کو بکھیرنے کی کوشش نہیں ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اُمت کو
اسی پرانے ڈگر پر چلانے کی احمقانہ کوششیں ہیں جن پر چل کر آج تک نہ سُنی
شیعہ بنے اور نہ ہی شیعہ سُنی ہوئے ؟؟؟البتہ یہ تو ہوا کہ ہماری بیوقوفیوں
کے نتیجے میں غیر ہم پر مسلط ہوگئے جن کے نزدیک شیعہ سُنی کوئی فرق نہیں ہے
انھیں خون مسلم کی پیاس ہے اور ہم سب ان کے نزدیک فلسطین سے لیکر کشمیر تک
مسلمان ہیں اور ان کی مغربی لغت میں ہر کلمہ گو مسلمان واجب القتل ہے چاہئے
وہ شیعہ ہو کہ سُنی ۔ہاں اتحاد کے نام پر دینی،شرعی اور مسلمہ تاریخی
واقعات سے بھی روگردانی جائز نہیں ہے اور نا ہی اسلام کے نام پر بادشاہت کو
خلافت کا روپ بخشنے کی بے جا جسارت کرنے کی کوشش کی جانے چاہیے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ارض الانبیاء فلسطین اور بیت المقدس ،برما،عراق،شام
،یمن ،افغانستان ،چیچنیا ،فلپائین اور کشمیر کی سرزمینوں پر قبضہ کرنے
والوں نے ان علاقوں میں قبضہ کرتے وقت جس جبروتشدد اور حیوانیت کا مظاہراہ
کیا اُس میں انھوں نے شیعہ سُنی کی تفریق روا رکھی ؟کیا کبھی اُنھوں نے کسی
کو اس لئے قتل کردیا کہ وہ سُنی تھا ؟اور کسی کو اسلئے چھوڑدیا کہ وہ شیعہ
ہے ؟کشمیر میں ہمارا تجربہ ہے کہ یہاں ہر ایک کو’’یہ دیکھے بغیر کہ اس کا
مسلک کیا ہے اور اس کی تنظیم کیا ہے ‘‘ایک ہی چھڑی سے ہانکا جا تا ہے؟اور
گولی کو یہ تمیز نہیں ہوتی ہے کہ کون کیا ہے ۔ہاں گولی چلانے والے کو یہ
بات اچھی طرح معلوم ہوتی ہے کہ اپنا کون ہے اور غیر کون ۔کشمیریوں کے قتل
عام میں توحیرت انگیز طور پرغیر مسلموں تک کو قتل کردیا گیا جن کا جرم صرف
یہ تھا کہ وہ کشمیری تھے اور کشمیر میں ہی ٹکے ہوئے تھے۔ جن ظالموں نے
فلسطین سے لیکر کشمیر تک ظلم و جبر کی تمام حدیں توڑ دیں ہیں ان کے نزدیک
ہم سب مسلمان ہیں اور ہمارا یہ جرم ان کے نزدیک ناقابل برداشت اور ناقابل
معافی ہے ۔لہذاہمیں ایک نئی بحث شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ اس
سے اہل اسلام کو کیا فائدہ اور شروع نہ کرنے سے کون سا نقصان ہے ؟یا یہ کہ
اس سے فائدہ تو دور کی بات نقصان ہی نقصان ہے ۔جو مسائل نہ کل ہمارے اسلاف
سے حل ہو سکے اور نہ ہی ہم سے حل ہونے کا کوئی امکان موجود ہے تو ان مسائل
کو نئے سرے سے جنم دیکر ہم کیا کرنا چاہتے ہیں سوائے اسکے کہ ہم اپنی قوت
غلط راستوں میں کھپا کر اس سے ضائع کردیں ۔
|