صبح ہی چرچا ہو رہا تھا کہ آج سے قانون نافذ کر دیا
گیا ہے جس کے مطابق کوئی بھی شخص کسی غریب کا استحصال نہیں کر سکتا ،کسی کے
ساتھ نا انصافی نہیں ہو گی سعادت حسن منٹو کے مشہور زمانہ ناول ’’نیا دستور‘‘
جو آج بھی بی اے کے نصاب میں شامل ہے میں انہوں نے منگو تانگے والے کی
زندگی کے اس پہلو کو قرطاس پر رقم کیا ہے جو کوئی بھی ایک غریب لیکن زندہ
ضمیر شخص کسی بھی اچھی حکومت سے رکھتا ہے ۔ منگو تانگے والے نے یہ اعلان
سنا تو خوشی سے باغ باغ ہو گیا اور خواب سجانے لگا کہ شکر ہے اب کوئی غریب
بھوکا نہیں سوئے گا اور انہیں محنت کا پورا پھل ملے گا، کسی کے ساتھ زیادتی
نہیں ہو گی، انصاف ہو گا قانون سب کیلئے برابر ہو گا ،معاشرے میں امن اور
خوشیاں آئیں گی اور لااعتدالی جس کی وجہ سے ریاست کا بیڑہ غرق ہوا ہے ،
سارے ادارے مفلو ج ہو کر رہ گئے ہیں ، وی آئی پی پروٹو کول اور جاگیردارانہ
، اشراف نظام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ منگو تانگے والے کی سوچیں بہت اونچی
اڑان کر رہی تھیں کہ ایک گورے کی آواز کانوں میں پڑی جو اس کے تانگے میں
سواری کرنا چاہتا تھا، منگو خوش تھا اس نے اس گورے سے مطلوبہ کرایہ طلب کیا
تو اس نے بحث شروع کر دی کہ یہ کرایہ بہت زیادہ ہے ، لیکن منگو کے ذہن میں
وہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ قانون پاس ہو گیا اب کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو
گی ، لا اعتدالی کا خاتمہ ہو گیا ہے تو منگو نے بھی اس کے ساتھ بحث شروع کر
دی اور جوش میں آ کر اس گورے سے جھڑپ شروع کر دی ۔ اسی اثناء میں پولیس
پہنچ گئی اورمنگو کو پکڑ لیا، لیکن منگو کے ذہن میں ابھی تک وہی بات بڑی
تھی کہ حق کا بول بالا ہو گا ۔ جب تھانے میں تھانے دار نے اس سے پوچھا اور
اس نے ساری روئیدار سنائی تو تھانے دار اس پر ہنس پڑا اور کہنے لگا ایسا
کوئی قانون پاس نہیں ہوا ہے ، آج یکم اپریل ہے اور سب ایک دوسرے کا اپریل
فول بنا رہے تھے ، تم بھی اس اپریل فول کی زد میں آ گئے ہو۔ عمران خان پر
لوگوں نے اعتماد کیا کیونکہ اس نے تبدیلی کا نعرہ لگایا ،عام آدمی کرپٹ
بیورو کریسی اور بدعنوان سیاست دانوں سے تنگ آ کر عمران خان پر اعتماد کیا
کہ تبدیلی آ رہی ہے ۔لیکن اب تک کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آئی اس کی ایک
وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ابھی عمران خان کو حکومت میں آئے چنددن ہوئے ہیں ۔جس
طرح تبدیلی کا شوروغل مچا ہوا تھا اس سے عمران خان کی حکومت آتے ہیں کرپٹ
لوگوں کو اپنا قبلہ درست کر لینا چاہئے تھا ، تمام کرپٹ عناصر عمران خان کے
تبدیلی کے نعرے کو اپریل فول ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔جس کی ایک چھوٹی سی مثال
چناب کالج جھنگ کی بھی ہے ۔ جو لوگ یہ تبدیلی چاہتے ہیں ان میں میر اایک
قلمی دوست ملک شفقت اﷲ نے چناب کالج جھنگ کے متعلق کچھ حقائق سے پردہ
اٹھایا جس کی پاداش میں اس کے بھائی جو چناب کالج جھنگ میں کمپیوٹر آپریٹر
کے فرائض منصبی بخوبی انجام دے رہا ہے سے بھائی کے لکھے کالم کی وضاحت
مانگی گئی ہے اور وارننگ نوٹس جاری کرنے کا اس کے پیچھے صرف یہ مقصد نظر
آتا ہے کہ عزیزوں اور رشتہ داروں کو تنگ کر کے معاملے کو دبایا جائے اور ہر
سوال کرنے والی زبان کو قفل لگا دیا جائے ۔چناب کالج جھنگ ایک ٹرسٹ کے زیر
انتظام چلنے والا ادارہ ہے جس کی زمین ڈپٹی کمشنر جھنگ نے دی اور اس میں
عمارتوں کی تعمیر میں بھی کافی حد تک جھنگ ایجو کیشن ٹرسٹ نے خرچ کیا ۔
شروع میں جب اس کی تعمیر جاری تھی تو لوگ جو زمین و کی خریدو فروخت کرتے
تھے ان کی فی رجسٹری میں سے خاص شرح ٹیکس چناب کالج جھنگ کی مد میں اضافی
وصول کیا جاتا تھا جو جانے ہے یا ختم کر دیا گیا ہے! اور پھر پولیس ملازمین
کے بچوں کی اس میں تعلیم کو فری کیا گیا لیکن جھنگ میں جتنے بھی پولیس
اہلکار ملازمت کرتے تھے ان کی تنخواہوں سے ماہوار کچھ پیسوں کی کٹوتی کی
جاتی تھی جو بعد میں پولیس اہلکاروں جن کے بچے وہاں نہیں پڑھتے تھے کے
احتجاج پر ختم کر دیا گیا تھا ۔ چناب کالج جھنگ کی تعمیر و ترقی کیلئے جھنگ
کی عوام نے بہت امداد کی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ جھنگ کا غریب طبقہ جو
دوسرے شہروں میں اخراجات برداشت نہیں کر سکتا اپنے ہی شہر میں اچھی اور
معیاری تعلیم حاصل کرے ۔جھنگ ایجوکیشن ٹرسٹ کا چئیر مین ڈپٹی کمشنر جھنگ ہے
۔ یہ ادارہ غریب بچوں کو معیاری تعلیم باہم پہنچانے کیلئے بنایا گیا تھا
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی غریب کا بچہ یا کوئی غریب اس ادارے
میں اپنے بچے کو تعلیم دلوانے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا ۔ عرصہ دراز سے
پرنسپل کی سیٹ پر براجمان ایک شخص اس ادارے کو اپنی سلطنت بنائے ہوئے ہے اس
کا حکم حرفِ آخر نہ سمجھنے والا اس ادارے میں نہیں رہ سکتا ۔ایک ٹرسٹی
ادارے میں سوئمنگ پول کا کیا کام ہے اور وہ بھی چار کروڑ میں یہ کونسا
سوئمنگ پول تعمیر کیا گیا ہے؟ بسیں خریدنے کیلئے فیسیں بڑھا دی جاتیں ہیں
اور آڈیٹوریم جو زیر تعمیر ہے اس پر کروڑوں روپے خرچ کرنا میری سمجھ سے
بالا تر ہے ۔ |