معاشرے کی اصلاح کیسے ممکن

تحریر: عائشہ صدیقہ
کسی دانا کا قول ہے،’’معاشرے پر تمہارا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ تم خود سنور جاؤ‘‘۔ کسی علاقے کے لوگوں کا کچھ نظریات، عقائد یا روایات پر اجماع ایک معاشرے کو تشکیل دیتا ہے۔ معاشرے کے تمام لوگ اپنے رسم و رواج پر سختی سے کاربَند ہوتے ہیں اور یہ رواج نسل در نسل بطور وراثت منتقل ہوتے ہیں۔ ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اتنے شدید ردِ عمل کا سامنا ہوتا ہے کہ خود کو تسلیم کروانے کے لیے سقراط کو زہر پینا پڑا۔یہاں تنہا نظریاتی فرد کی مثال یوں ہے کہ
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے اندرون دریا بیرون دریا کچھ نہیں

معاشرے کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ ان عوامل کا پتا لگایا جائے جو معاشرتی مسائل کا سبب ہیں۔ چوں کہ معاشرہ انسانوں سے مِل کر بنتا ہے لہٰذا عام خیال ہے کہ معاشرے میں پیدا ہونے والی برائیاں بھی صرف افراد کی انفرادی کاوشوں سے دور ہوسکتی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انفرادی کوششیں مجموعی طور پر کوئی بھی انقلاب یا تغیر برپا کرسکتی ہیں مگر عام طور پر معاشرے کے تمام افراد اتنے با شعور نہیں ہوتے کہ انفرادی طور پر اپنی اصلاح بھی خود کرلیں اور دوسروں کی اصلاح کا بیڑا بھی اٹھا سکیں۔ اصلاح کرنے والے تعداد میں ہمیشہ کم ہوتے ہیں۔ اگر سبھی اتنے باشعور ہوں تو معاشرے میں کوئی برائی اتنی مضبوطی سے اپنے پنجے نا گاڑ سکے۔ کسی بھی صحت مند معاشرے میں برائی اس وقت پروان چڑھتی ہے جب رواج اس برائی کو اپنے اندر جذب کر لیں، قانون اس سے غافل رہے یا پھر لوگوں میں برائی کو شناخت کرنے اور روکنے کا فہم ہی باقی نہ رہے۔

کسی بھی نئے رواج یا نظریے کو معاشرہ آسانی سے قبول بھی نہیں کرتا سو انفرادی طور پر اصلاحی اقدامات کرنا بظاہر نا ممکن سا ہے۔ رسم و رواج معاشرے کی وہ بیڑیاں ہیں جن کی کڑیاں تمام لوگوں کو معاشرے کی زنجیر میں پروتی ہیں۔ معاشرتی برائیاں ہمیشہ سنگین ہوتی ہیں ان کا تدارک اگر آغاز میں نا کیا جائے تو سرطان کی آخری اَسٹیج کی طرح ان کا علاج بھی نامْمکن نظر آتا ہے۔ عام لوگ معاشرے کے ساتھ اتنے مخلص یا حساس نہیں ہوتے کہ ظلم کی چھوٹی ابتدا کے وقت ان کے نتائج کا ادراک کر سکیں۔ سو اگر ہم اس امید پر بیٹھے رہیں کہ معاشرے کا ہر شخص انفرادی کوشش کرے تو عملی طور پر معاشرے کی اصلاح ایک خواب نظر آئے گا۔ معاشرے میں با شعور اور راہبرانہ صلاحیتوں سے مزین لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔

بنیادی طور پر کسی بھی معاشرے میں برائیوں کے سر اٹھانے کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو عدلیہ ، قانون اور نظامِ تعلیم جیسے حساس اداروں کے سرپرست ہیں۔ یہ تین ادارے کسی بھی معاشرے کے امن اور بقاء کے اہم ستون ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں اگر فوری اور سستا انصاف دینے والی آزاد عدلیہ ہو، قانون کے رکھوالے نوٹوں کے ترازو کے متوازی اپنا ضمیر تولنے والے نا ہوں اور نظامِ تعلیم عصری تقاضوں اور دین سے ہَم آہنگ ہو تو صاحِبو! یہ نا ممکن ہے کہ معاشرے کے لوگ باآسانی برائی پر آمادہ ہو جائیں یا غلط اور درست میں امتیاز نہ کر سکیں۔ یاد رہے تعلیمی نظام دین سے الگ ہوجائے تو معاشرے میں اخلاقیات و رواداری کی جگہ مادیت اور نفسا نفسی لے لیتی ہے۔
اپنی اصلیت پر قائم تھا تو جمعیت بھی تھی
چھوڑ کر گل کو پریشان کارواں تو ہوا

کسی بھی معاشرے میں انصاف اور قانون کے ہوتے ہوئے برائی افزائش نہیں پا سکتی۔ بگاڑ تب آتا ہے جب قانون اندھا ہو۔ انصاف مہنگا اور نایاب ہو جائے۔ آپﷺ نے قبیلہ بنو مخذوم سے فرمایا تھا، ’’تم سے پہلے بھی قومیں طاقتور کو چھوڑ دیتیں اور کمزوروں کو سزا دیتی تھیں‘‘۔ بد قسمتی سے آج آپ ﷺکی امت بھی اسی روش پر گامزن ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اچھی تعلیم، قانون کی پاسداری اور فوری انصاف کے ہوتے ہوئے برائیاں تناور نہیں ہوسکتیں۔ پھر وہ جہیز کی لعنت ہو یا شادیوں پر دولت کی نمائش، گھریلو تشدد ہو یا درندوں کی ہوس کا شکار بنتی زینب جیسی بیٹیاں، بد دیانت حکمران ہوں یا بھتہ خور مافیا، رشوت کا لین دین ہو یا عہدوں میں اقرباء پروری کے باعث بننے والی نا اَہَل قیادت، دہشت گردی کے اندرونی و بیرونی عناصر ہوں یا اسمگلنگ۔ ناموس رسالت کے گستاخ ہوں یا ملکی غدار، بلیک مارکیٹنگ ہو یا عصمت فروشی، بکاؤ میڈیا ہو یا نقلی ادویات و اشیائے خورد و نوش بنانے والی فیکٹریاں، فتوے بیچنے والے عالم یا قتل و غارت کرنے والے مجرم اگر قانون انہیں سنگین سزائیں دے کر عبرت کا نشان بنادے تو کوئی شخص جرم، بد دیانتی یا استحصال کا خیال بھی دل میں نا لائے البتہ اخلاقی برائیوں کی اصلاح انفرادی سطح پر شعور اور آگہی پیدا کرنے سے ممکن ہے اور یہ کام تعلیم و تربیت ہی کرسکتے ہیں۔

نظامِ تعلیم قابل اور باشعور لوگوں کو پیدا کرے تو معاشرے میں بے روزگار ، افلاس زدہ اور بے حس لوگ پیدا نہیں ہوں گے جو مایوسی میں جرائم کی جانب بڑھنے پ مجبور ہوجاتے ہیں۔ برا نظامِ تعلیم ایک فرد نہیں بلکہ پورے معاشرے کے قتل کے مترادف ہے جو اسے شعور ، فہم، مقصدیت اور احساس عطا کرنے سے محروم رہتا ہے۔ معاشرے کی اصلاح و ترقی کے لیے افراد اکائی ہیں، اگر انہیں بنیادی حقوق کی فراہمی اورتخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے سازگار ماحول دیا جائے تو معاشرے کے اندھیرے اور مایوسیاں روشنی میں بدل جائیں گے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر شخص ہے ملت کے مقدر کا ستارا

معاشرے کی اِصلاح کے ذمہ دار وہ باشعور لوگ بھی ہیں جو خاموش تماشائی ہیں۔ جو بْرائی کو دیکھتے ہیں مگر چپ رہتے ہیں۔ ظلم کو روکتے نہیں۔ لوگوں کو گمراہی کے اندھیروں میں ڈوبنے سے بچاتے نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر عذاب ظالموں سے پہلے آتا ہے۔معاشرے کے صاحبِ علم لوگوں کا فرض ہے کہ اصلاحِ معاشرہ کے لیے جس کے پاس قلم ہے وہ تحریر سے شعور بانٹے، جس کے لفظوں میں تاثیر ہے وہ تقریر سے تزکِیہ کرے۔ جس کے پاس طاقت ہے وہ مظلوم کا بازو بنے، جس کے پاس علم ہے وہ چراغ سے چراغ جلائے۔ جس کے پاس دولت ہے وہ ناداروں کا سائبان بن جائے، جس کے پاس جرات ہے وہ زورِ بازو سے برائی کو روکے۔

الغرض یہ کہ معاشرے کی اصلاح کی بنیادی اساس ریاست کی عدلیہ، قانون، نظام تعلیم اور صاحب شعور لوگوں پر منحصر ہے۔ ان کے باہمی تعاون سے معاشرے کے امن و سلامتی کا قیام، اصلاح اور ہر طرح کے معاشرتی اَمراض کا تدارک ممکن ہے تاکہ ہر فرد کو وہ سازگار ماحول مل سکے جہاں وہ آزادی اور دلجمعی سے ملکی سلامتی اور معاشرے کی بہتری کے لیے کام کر سکے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1009941 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.