تحریر: محمد عرفان جتوئی، ملتان
نسلی تعصب کی بات کی جائے تو یورپ جیسے جدید ترین ممالک سے لے کر ایشیا
جیسے غریب ترین ممالک تک سب جگہوں پر یکساں پایا جاتا ہے۔ وہاں کالے گورے،
مسلم عیسائی کا تعصب عروج پر ہے تو یہاں ذاتوں میں تعصب پایا جاتا ہے۔
لسانیت اور براداری ازم نے ایسے پنجے گاڑے ہیں کہ جس کی مثالیں شاید ہی
کبھی تاریخ میں ملیں۔ براعظم ایشیا میں ماضی کے کچھ صفحات پلٹ کر دیکھیں تو
یہ تعصب اور براداری ازم ہمیں قدیم سندھ کی تہذیب میں نظر آئے گا۔ 2500سال
قبل مسیح دراوڑ قبیلے کے کچھ لوگ وسط ایشیائی ریاستوں سے سندھ پہنچے تھے۔
انہیں آسٹرولینڈ بھی کہا جاتا ہے جس کے معانی ہیں آسٹریلیا سے ہجرت کر کے
آنے والے ان کے یہاں پہنچنے کے بعد تقریبا 2000سے 2500سال قبل مسیح کے
درمیان آریاء قبیلہ بھی یہاں پہنچ گیا۔
آریاء ایک جنگجو قوم تھی، ان کی زبان سنسکرت تھی۔ یہاں آکر انہوں نے مقامی
علاقائی لوگوں پر اپنا تسلط قائم کیا۔ یہیں وہ وقت تھا کہ جب نسلی تعصب نے
جنم لیا۔ امیرغریب کا فرق بھی وہیں سے شروع ہوا۔ مذہب اور قوم میں اونچ نیچ
کی بنیادیں رکھیں اور مقامی لوگوں کو اپنی تہذیب اور ثقافت سے اس قدر دور
کیا ۔ صورتحال یہ تھی کہ اگر کوئی مقامی شخص ان کی زبان سن لیتا تو اسے سزا
دی جاتی تھی۔ مقامی عورت عورتوں کو نتھلی کا پابند کیا گیا تھا کہ تاکہ فرق
واضح ہوسکے۔ یہ فرق اور تعصب نہ صرف انہوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ روا رکھا
بلکہ خود اپنی قوم کو بھی اسی تعصب کے دلدل میں پھنسادیا تھا۔ یہیں وہ قوم
تھی جو ہندوازم کی پیروکار تھی۔ انہوں نے ہندو مذہب میں چار ذاتوں برہمن،
کھتری، شودر اور ویش بھی متعارف کرائیں جو اب تک موجود ہیں۔
برہم مذہبی طبقہ کے کرتا دھرتا لوگ سب سے معزز مہذبی پیشوا پنڈت وغیرہ تھے۔
کھتری تجارت سے وابستہ لوگ تھے یہ صرف تجارتی معاملات دیکھتے تھے، برہمنوں
کے بعد ان کو سب سے زیادہ معزز سمجھا جاتا تھا۔ ویش کھیتی باڑی سارا نظام
سنبھالتے تھے۔ یہ کھتریوں کے بعد معزز تھے۔ شودروں کے پاس شہر کی صفائی کا
نظام تھا۔ سب سے کم عزت ان کو ملتی تھی۔ ہندو ازم کی اس تقسیم کے مطابق
کوئی ذات اپنے سے معزز ذات سے تعلقات وغیر خواہ وہ معاشی ہو یا معاشرتی
استوار نہیں رکھ سکتی کیوں کہ اگر ایسا ہوا تو معزز ذات کی توہین ہوجائے
گی۔ ہندو کی اس تقسیم سے سب سے زیادہ عزت نفس شودر قوم کی مجروح ہوتی تھی۔
تاریخ کے جھروکوں سے نکل کر جب ہم حال میں قدم رکھتے ہیں تو نسلی تعصب اور
برادری ازم ہمیں پر پھیلائے کھڑے ملتے ہیں۔ وہیں سب کچھ ہے جو اس وقت بھی
تھا اور اب بھی ہے۔ اس میں فرق صرف اتنا آیا ہے کہ تب شاید غیر مسلم تھے
اور اب مسلمان بھی اس میں شامل ہوچکے ہیں۔ یا پھر یہ فرق آیا کہ تب دور
جاہلیت تھا اب کا دور دور جدید ہے۔ انداز بدل گئے ہیں ، الفاظ بدل گئے ہیں،
طریقے بدل گئے مگر حقیقت وہیں اور ویسی کی ویسی ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد
تک تو شاید سب ایک مسلم اور پاکستانی تھے مگر پھر آہستہ آہستہ یہاں بھی
اونچ نیچ، وڈیرہ شاہی، چودھراہٹ نے اپنے قدم جمانے شروع کردیے۔ پاکستان کے
ازدواجی نظام سمیت کئی معاشرتی معاملات میں عصبیت کی بو محسوس ہوتی ہے۔
پاکستانی سے سندھی، بلوچی، پٹھان اور پنجابی ہوئے پھر ہر زبان اور صوبے میں
قبائل جن میں جٹ، آرائیں، راؤ، رانا، انصاری، اعوان گجر جیسے الفاظ کی عملی
گونج سنائی دینے لگی ہے۔
مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ رشتہ داری میں قومیت کو لانے کی کیا
تک بنتی ہے۔ ایک ذات دوسری ذات میں رشتہ کرنا جیسے گناہ کبیرہ سمجھا جانے
لگا ہے۔ اسلام نے مسلمان کو بھائی بھائی قرار دیا اور اس کی فضیلت اور
فوقیت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ پر رکھا گیا ہے۔ مگر یہاں اسلام کو چھوڑ
کو اپنی جھوٹی انا کو سب کچھ مان لیا جاتا ہے۔ اگر ہم پاک پیغمبر ﷺکی حیات
مبارکہ پر نظر ڈالیں تو آپ نے اور آپ کے صحابہ کرام نے کبھی بھی شادی کے اس
عظیم منصب کو اپنی ذات اپنی قوم یا اپنی برادری تک محدود نہیں رکھا کیوں کہ
ان کے سامنے رب تعالیٰ کا مساوات والا دیا گیا حکم ہی ان کی زندگیوں کا سنگ
میل تھا۔
مجھے حیرت اس بات کی ہوتی ہے کہ پتا نہیں ایسی کون سی چیز لوگوں کے دماغ
میں ہوتی ہے کہ اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے بہتر سے بہترین مستقبل اور ان کے
جیون ساتھی کو اس بات پر نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ وہ ان کی ذات اور قوم
کا نہیں ہوتا۔ جس کا نقصان نہ صرف اس خاندان کو ہوتا ہے بلکہ معاشرتی طور
پر بھی نقصان ہوتا ہے لیکن افسوس کہ لوگ یہ نقصان مول لیتے ہیں لیکن اپنی
جاہلانہ روش نہیں بدلتے۔ سورت حجرات میں باری تعالیٰ نے قومیت اور ذات کا
ایک مقصد بیان کیا وہ یہ ہے کہ ’’ہم نے تو قبائل اور قومیں اس وجہ سے
بنائیں ہیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو‘‘۔ مگر ہم نے قومیت کے اس تصور
کو انا پرستی اور تعصب میں بدل رکھا ہے۔
اسلام نے ہمارا معیار نسلوں اور براداریوں نہیں بلکہ تقویٰ کی بنیاد پر
رکھا ہے۔ ایک مسلم کی عزت اور اکرام اس قدر بلند کردیا کہ پوری دنیا کی عزت
ایک طرف مگر ایک مسلم کی عزت ایک طرف ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ مقام و عزت
انسانیت کے ناتے ملے۔ پھر ہمیں مسلمان ہونے کے ناتے یہ مقام اور عزت ملے۔
کئی مقامات پر اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اس کے مقام اور حیثیت کا بتلایا ہے
تاکہ انسان اپنی اصلیت کو جان کر نہ تو فخر کرے اور نہ ہی اکڑے۔
ایک بات سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ ہماری ابتداء سے انتہا تک سب ہی کا ایک
ہی مقصد وہ چاہیے ذاتوں کی صورت میں ہو یا پھر برادریوں کی صورت میں امیر
ہو یا پھر غریب تمام صورتوں میں انسان کی پیدائش کا ایک مقصد تھا وہ تھا اﷲ
کی عبادت کرنا۔ اس لیے اس دنیا میں عزت و اکرام اور مقام والا صرف وہیں جو
اﷲ کے ہاں معزز اور مقام والا ہے۔ وہ صرف اور صرف ایک متقی اور پرہیز گار
شخص ہوسکتا ہے۔اور ایک پرہیز گار جاہل مغرور نہیں بلکہ شائستہ اور نرم ہوتا
ہے۔ اس لیے اپنی اصلیت کو پہچانتے ہوئے اپنا قد اگر اونچا کرنا ہے تو اپنے
رب کے دیے گئے احکامات پر عمل پیرا ہوں۔ اسی میں ہی خیر اور برکت ہے۔
|