ریسکیو ۱۱۲۲ایک ایسا ادارہ ہے جو حقیقی معنوں میں عوام کی
خدمت کر رہا ہے جس کے بارے میں عوام بھی یہ کہتی ہےکے عوامی لیول پے بلکل
کرپشن فری ہے اور خالصتا عوامی محکمہ ہے جو کے عوام کو میڈیکل آگ اور
ریسکیو کی خدمات فرہم کرتا ہے لیکن اس خالصتا عوامی ادارے کے آپر لیول پے
جو کرپشن اور نااانصافیاں ہو رہی ہیں آج راقم ان کے بارے میں عوام اور ان
کے نمائندگان کو بتانا چاہتا ہے وہ کون لوگ اور وہ کون سے عوامل ہیں جو اس
عوامی سروس کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں ریسکیو۱۱۲۲ کے آفیسران کے
لئیے سونے کی چڑیا سے کم نہیں ہے یہ ہی وجہ کے ریسکیو کے آفیسرآن نہایت
ہی قلیل وقت میں کروڑ پتی بن چکے ہیں ریسکیو۱۱۲۲ کے اندر ایک شعبہ آر اینڈ
آیم ہے جسکا کا مطلب ہے ریپئر اینڈ مینٹنس یہ شعبہ ماہانہ لاکھوں روپے کی
خردبرد کرتا یہ گاڑیوں کی مرمت کا کام کرواتا ہے آج حآلات ایسے آ چکے
ہیں کے یہ شعبہ غیر معیاری اور غیر رجسٹرڈ لوگوں سے سستے داموں کام کرواتا
ہے اور ٹرانسپورٹ مینٹینس انچارجز نے اپنے رشتے داروں کے نام فرمیں رجسٹرڈ
کروا رکھی ہیں اور اپنے آفیسز میں بیٹھ کر اپنی مرضی سے کوٹیشنز اور پھر
اپنی مرضی سے بل بنا کے کرپشن کرتے ہیں کام لاکھوں کا کیوں نہ ہو آج تک
ڈسٹرکٹ سے کسی کام کا ایڈ یا ٹینڈر نہیں ہوا یہ سب ڈسٹرکٹ آفیسرز کی ایما
پر ہوتا ہے اور وہ اپنا حصہ وصول کرتے ہیں جسکی وجہ سے ایمبولنسوں اور
دوسری ریسیکو کی گاڑیوں کے حآلت یہ ہو چکی ہے کےایمرجنسی کے دوران روڈ پے
اکثر خراب کھڑی نظر آتی ہیں انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے مطابق ریسکیو کی کوئی
گاڑی ایمرجنسی ڈیل کرنے کے قابل نہیں بلکے یہ خود ریسکیو سٹآف کی زندگی کے
لئیے رسک ہے -اسکے بعد ایک شعبہ ہے ریسکیو سیفٹی اور کیمونٹی اسکا مقصد
عوام کو ریسکیو کے بارے میں آگاہی اور حادثے اور سانحہ کے وقت کیا کرنا ہے
اور فسٹ ایڈ فائر اور ریسکیو کی ٹرننگ کروانا ہے یہ شعبہ مختلف این جی اوز
سکول کالجز پرائیوٹ اور گورنمنٹ سیکٹر کو ٹریننگ دیتا ہے اور کے بدلے وہاں
سے پیسے لیتا ہے اور ڈؤنیشن بھی آگھٹی کرتا ہے جسکا کوئی رکارڈ نہیں اور
یہ رقم اس شعبے کا ہیڈ اور ڈی ای او آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں جسکی واضح
مثآل پنڈی کی ایک پی آر او ہیں جو کے ایک دیہی ایریا میں رہتی تھی ایک
نہایت ہی متواسط گھرانے سے ان کا تعلق ہے لیکن بہت ہی قلیل وقت میں انہوں
نے راولپنڈی کے سب سے مہنگے اور پوش ایریا میں آیک بنگلہ خرید لیا اسکے
علاوہ تمام کمرشل بلڈنگ کو سیفٹی کے حوالے سے نقشہ پاس کروانے کے لئے
ریسکیو ۱۱۲۲ کے ڈسٹرکٹ آفیسر سے این او سی لینا پڑتا ہے پاکستان میں بہت
مشکل سے ہی لوگ مطلوبہ معیار پے سیفٹی کو مدونظر رکھتے ہیں جس کے لئیے ڈی
او صاحبان نذرانہ وصول کر کے این او سی دے دیتے ہیں ان آفیسران کی کرپشن
صرف باہر تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ آفیسرز اپنے ہی محکمے کے جونیئر سٹاف
(۱۱ سکیل تک) سے جب سے محکمہ بنا ہے ماہانہ کی بنیاد پے ۲۰۰ سے لیکر ۵۰۰تک
وصؤل کرتے ہیں جسکا کا کوئی رکارڈ موجود نہیں یہ پیسہ یہ آفیسرز اپنی
عیاشی پے خرچ کرتے ہیں اگر کوئی جونئیر سٹاف کسی ماہ یہ فنڈ نہ دے سکے یہ
اسکو اتنا تنگ کرتے ہیں کے بیچارہ اگلے ماہ سود سمیت ادا کرتا ہے.اس ساری
کرپشن کو ہیڈ کرنے والا اس محکمے کا ڈی جی رضوان نصیر ہے بتایا جاتا ہے کے
یہ شخص انتہائی پاور فل آدمی ہے اس کا سیاسی اثروروسوخ انتہائی زیادہ اور
اسکے پاور فل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کے یہ قادیانی مذہب کا
پیروکار ہے اور یہ ہی وجہ بتاہی جاتی ہے کے اسکے خلاف بےشمار کرپشن کے
الزمات ہونے کے باوجود آج تک اسکے خلاف کوئی قانونی کاروائی تو دور کی بات
کوئی آڈیٹ تک نہیں ہوا یہ آدمی اتنا پاور فل ہے کے جب سے محکمہ بنا ہے
یعنی چودہ سال سے مسلسل یہ محکمے کا ڈی جی بنا بیٹھا ہے اور جب بھی اسکا
ماہدہ ختم ہوتا ہے تو امریکہ جاتا ہے کچھ دنوں بعد واپس آتا ہے تو اس کو
ایکٹنیشن مل جاتی ہے یہ شخص بیرون اور اندرون ملک سے بےشمار ڈونیشن اکٹھی
کرتا ہے جسکا کوئی رکارڈ اور آڈیٹ نہیں اس شخص نے لاکھوں کروڑوں کے ٹینڈر
پیپرا رول کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ اپنی من چاہی فرم احمد میڈیکس کو نوازے یہ
ہی وجہ ہے کے چودہ سال پہلے ایک چھوٹی سی غیر معارف فرم اس شخص کی بدولت
اربوں کی مالک بن چکی ہے رضوان نصیر ڈی جی ریسکیو محکمے کا مختار کل بنا
ہوا ہے یہ ہی وجہ ہے کے جب بھی محکمے کے کسی ایماندار آفیسر نے اسکی منشآ
کے خلاف اسکی کرپشن کے خلاف بات کی تو اسکو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا ایسے
افراد کی تعداد ۱۰۰ کے لگ بھگ ہے جو ڈی جی کی زیادتی کی وجہ سے نوکری سے
نکالے گئے اس نے اپنے ماتحت سٹاف کو دبا کے رکھنے کیلئے آج تک محکمے کا
سروس سٹکچر نہیں بننے دیا (جبکہ کے پی کے ریسکیو۱۱۲۲ اس سے کئی سال بعد
بننے کے باوجود اپنا سروس سٹکچر رکھتی ہے)وجہ یہ بتائی جاتی ہے کے اگر سروس
سٹرکچر بن گیا تو اس شخص کی پاور میں کمی آجاۓ گی اور اسکا ڈی جی رہنا بھی
مشکل ہو جاۓ گا اس سلسلے میں رضوان نصیر صاحب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے
کسی قسم کا جواب دینے سے معزرت کر لی.
اس سلسلہ میں جونیئر سٹاف ریسکیور سے ملا ان سے ان کے مسائل جاننے کی کوشش
کی نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پے انہوں نے بتایا کے فیلڈ میں کام وہ کرتے ہیں
لیکن آفیسرز کی جانب سے ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے آج
بارہ سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن سروس سٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے وہ آج بھی
اسی سکیل میں ہیں جس میں وہ بھرتی ہوئے تھے جبکہ ان کے برعکس ان کے دوست جو
ان کے ساتھ دوسرے ڈیپارٹمنٹس میں بھرتی ہوئے تھے آج کافی ترقی کر چکے ہیں
ایک ریسکیور نے بتایا کے ان کو اتفاقیہ رخصت جیسی بنیادی سہولت بھی میسر
نہیں اگر اتفاقیہ رخصت لینی پڑ جائے تو تین دن پہلے درخواست جمع کروانی
پڑتی ہے اور اپنی جگہ اس دن دوسری شفٹ سے رلیور دینا پڑتا ہے جو اس دن ڈبل
ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے ایک ریسکیو ڈرائیور نے بتایا کے زیادہ کام کی وجہ سے
تھکاوٹ ہوتی ہے جس وجہ سے اکثر گاڑی حادثہ کا شکار ہو جاتی ہے وجہ یہ بتائی
کے جب ایک ڈرائیور چھٹی لیتا ہے تو وہ اپنی جگہ رلیور دیتا ہے جو کے 9گھنٹے
کی جگہ 18 گھنٹے مسلسل کام کرتا ہے جسکی وجہ سے اکثر حادثہ بھی پیش آجاتا
ہے. اسی طرح محکمہ کے طرف سے ملازمین کے میڈیکل تو دور کی بات میڈیکل لیو
تک نہیں دی جاتی ایک سٹاف نے روتے ہوئے بتایا کے اسکو ایک بیماری لاحق ہو
گئی جس کی وجہ سے اس کو ہسپتال داخل ہونا پڑا ڈاکٹر نے میڈیکل ریسٹ تجویز
کی بیماری کے علاج پے اسکا کافی خرچہ آیا آفیسرز کی طرف سے اس کو یہ کہہ کے
میڈیکل لیو نہیں دی گئی کہ ہمارے محکمے میں کوئی لیو نہیں میڈیکل ان فٹ ہو
جاؤ گے اور نوکری سے نکال دیے جاؤ گے اوپر سے ظلم کی حد اس کے چھٹیوں کی
تنخواہ بھی کاٹ لی گئی. محکمہ میں افسر شاہی ایسے ہے کے ڈی او صاحبان نے
سرکاری ڈرائیورز اور کلاس فور کو ذاتی گھریلو ملازمین کے طور پے رکھا ہوا
ہے جن کا کام ڈی اوز کی بیگمات کو سرکاری گاڑیوں میں شاپنگ کروانا ان کے
بچوں کو سکول سے لانا ان کو گھر میں کھلانا ڈی او صاحبان کے گھروں کی صفائی
کرنا اور کھانا پکانا شامل ہے صرف یہ ہی نہیں بلکہ محکمہ میں موجود عام نان
گزیٹیڈ پوسٹ 14 سکیل کے ٹرانسپورٹ مینٹنس انچارج اور اسٹیشنز انچارجز نے
فرضی اور خود ساختہ پوسٹ بنا کر آپریشن سٹاف کے 3 سے 4 چار لڑکے اپنے انڈر
رکھے ہوئے ہوئے ہیں حالانکہ کے محکمہ میں ایسی کسی پوسٹ کا تصور ہی موجود
نہیں آپریشن سٹاف نے بتایا کے ان اسٹیشن انچارجز اور ٹرانسپورٹ انچارجز نے
اپنے چہیتے ان سیٹوں ہے بٹھائے ہوئے ہیں جب آپریشن سٹاف لیو لینے جاتا ہے
تو ان کو سٹاف کی کمی کا کہہ کے لیو نہیں دی جاتی جبکہ آپریشن سٹاف کو اندر
ایڈمن مین کام کروایا جاتا ہے. مزید برآں سٹاف نے بتایا کےسروس سٹرکچر نہ
ہونے کی وجہ سے اور آفیسرز کے غیر انسانی رویہ اور ڈی جی صاحب کے وسائل کے
غلط استعمال کی وجہ سے آپریشنز سٹاف کا مورال گر چکا ہے اور محکمہ تصاویر
کی حد تک رہ گیا ہے. سٹاف نے وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان سے
التجا کی ہے کے ان کا بھی کے پی کے ریسکیو1122 کی طرز پے سروس سٹرکچر بنایا
جائے اور محکمہ میں موجود کالی بھیڑوں اور آفیسر شاہی کا خاتم کیا جائے جو
کے موجودہ گورنمنٹ کا موٹو بھی ہےتاکہ عوامی محکمہ حقیقی معنوں میں عوامی
رہ سکے- |