اس وقت دنیا دو بڑی تہذیبوں میں بٹ چکی ہے۔ایک جانب
اسلامی تہذیب ہے اور دوسری جانب مغربی تہذیب۔ یہ دونوں تہذیبیں اپنے مفہوم
،اہداف، اثرات اوربنیاد کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہیں اور اس بنیادی
اختلاف کی وجہ سے ان دونوں تہذیبوں کا آپس میں ہر میدان میں ٹکراؤ ہو رہا
ہے ۔
ایک امریکی یہودی دانشور ’’ شیرین ہنٹر ‘‘ نے اپنی کتاب ’’مغرب اور اسلام
کا مستقبل ‘‘ میں لکھا ہے کہ ۔
’’اسلام ایک ایسا نیا مثالی دشمن امیدوار ہے جو کمیونزم کے انہدام سے پیدا
ہونے والے خلا کو پُر کرے گا ۔‘‘
امریکی دانشو ر قوم کے لہو کو گرم رکھنے کیلئے اس کے کسی حریف اوردشمن کے
وجود کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ مفروضہ حریف اور متوقع مخالف
اہل اسلام اور ان کی تہذیب ہے۔ امریکہ اور اس کے حلیف مغربی ممالک نے اس
مفروضے پر عمل کرتے ہوئے اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ معاندانہ رویہ اپنا
لیا ہے ۔مغربی تہذیب باقاعدہ منصوبہ بندی سے اسلامی تہذیب پر حملہ آور
ہوچکی ہے اور پھر عالمی حالات کا نقشہ ’’الکفر ملۃ واحدہ‘‘ کا نمونہ پیش
کرتا ہے یعنی اہل کفر (یہود ونصاریٰ و ہنود ) اسلام دشمنی میں متحد ہیں۔
یہودیوں نے مغرب کو اسلام کے پھیلتے ہوئے سائے اور بڑھتے ہوئے اثرو راسوخ
اور قوت وکردار سے خوف زدہ کرکے انہیں اسلام کے مدمقابل لا کھڑا کیا۔ سوویت
یونین کے زوال کے بعد ایک امریکی یہودی دانشور سیموئل ہن ٹنگ ٹن (Hintington)
نے یہ تصور پیش کیا کہ:
’’اب امریکہ کے مقابلہ میں اس کا اشتراکی روس تو بطور سپر پاور باقی نہیں
رہا اس لیے اب آئندہ مقابلہ اور تصادم عالم اسلام سے ناگزیر ہے ۔‘‘
ہن ٹنگ ٹنHintington نے اپنی کتاب ’’ Clash of Civilization‘‘میں لکھا ہے:
’’اگر دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو تقریباً تمام کے تمام قدرتی و
معدنی وسائل مسلم علاقوں میں پائے جاتے ہیں اس کا حل یہ ہے کہ یا تو ان کے
ساتھ دوستی کر کے ان میں گھل مل جایا جائے یا پھر ان کے علاقوں پر قبضہ کر
لیا جائے ۔‘‘
اکیسویں صدی میں دہشت گردی کی پشین گوئی کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
’’بہر حال یہ بات اپنی جگہ پر موجود ہے کہ بیسویں صدی ختم ہو رہی ہے اور
اکیسویں صدی میں مسلمان دوسری تہذیبوں کے ساتھ دہشت گرد گروپوں کی شکل میں
نبرد آزما ہوں گے ۔‘‘
( Clash of Civilization, Page.262 )
انہیںیہ کیسے علم ہوا کہ اکیسویں صدی میں مسلمان دہشت گرد گروپوں کی شکل
میں دوسری تہذیبوں سے ٹکرائیں گے ؟کیا ان کے پاس غیب کا علم تھاکہ انہوں نے
یہ بات صدیوں پہلے جان لی تھی اور اسے لکھ کر محفوظ کر لی تھی؟ اصل بات یہ
ہے کہ ان جانوروں سے بدتر بندر نما انسانوں نے خود اس کی منصوبہ بندی کر
رکھی تھی کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی دہشت گردی کی مختلف وارداتیں کروا
کر اس کا الزام مسلمانوں کی مذہبی اور جہادی تنظیموں پر ڈال دیاجائے گا ۔
یہ دنیا بھر میں دہشت گردانہ کاروائیاں اپنے زر خرید ایجنٹوں اور مہروں کے
ذریعے کرواتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا ڈرامہ
رچا کر فوراً اس کا الزام مسلمانوں کی جہادی تنظیموں القاعدہ اور امارت
اسلامی افغانستان کے بانی ’’طالبان ‘‘پر ڈال دیا جن کے بارے میں یہ سوچا
بھی نہیں جاسکتا تھا کہ وہ کوئی ایسی قبیح حرکت کرتے جس سے پوری مسلم امہ
کسی مشکل و مصیبت سے دور چار کرتی۔
آگے انہوں نے اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ لکھا
اس کی پہلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اسلام آغاز سے ہی تلوار کا مذہب ہے اور
یہ فوجی مہمات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔اسلام عرب کے جنگجو قبائل میں آیا
اور تشدد اس کی بنیاد بنا،محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)خود ایک جنگجو
تھے اور ایک منجھے ہوئے فوجی سپہ سالار تسلیم کیے جاتے تھے اس کے بر عکس
کیاکوئی مہاتما بدھ اور عیسیٰ کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ جنگجویا
فوجی سپہ سالار تھے ۔ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ اسلامی تعلیمات غیر مسلموں
کے خلاف جنگ کا حکم دیتی ہیں، جب اسلام کا پھیلاؤ رک گیا تو یہ آپس میں دست
وگریباں ہو گئے ۔ہر دور کی تاریخ مسلمانوں کے جنگجو یانہ رویے پر گواہ ہے
کہ انہیں غیر مسلموں کو برداشت نہ کرنے کا چسکا پڑا ہوا ہے، اسلام مرکزیت
نہ ہونے کی وجہ سے عدم استقلال کا شکا ر ہے ۔ ( Page.264 Clash of
Civilization, )
اے ذلیل ترین انسانو! اسلام کا تو یہ واضح اصول ہے کہ ’’ لَآإِکْرَاہَ فِیْ
الدِّےْنِ‘‘ دین میں کسی قسم کا کوئی جبر، تشدد یا ظلم و زیادتی نہیں ۔
جولاکھوں کروڑوں غیر مسلم اسلامی ریاستوں میں آباد ہیں اور امن وسکون کی
زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے ساتھ تو کبھی ایسا سلوک نہیں کیا گیا جیسا تم
بکتے ہو ۔ اسلام نے تو ذمیوں (غیر مسلم اقلیتوں) کے جو اسلامی ریاست میں
رہنا پسند کریں ،کے جو حقوق متعین کیے ہیں اورہر قسم کی سماجی (انسانی،
قانونی ، معاشرتی) مساوات فراہم کی ہے دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں اس کی
کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر سچے ہو تو اس کی کوئی ادنیٰ سی مثال پیش کرو
،جبکہ اس کے برعکس دنیاکے دوسرے مذاہب میں اقلیتوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے
ہیں ،جس طرح ان پر عرصہ حیات تنگ کیاجا رہاہے، ان کی عزت و آبرو محفوظ نہیں
،ان کے حقوق کو پامال کیاجا رہاہے، اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔انڈیا
میں لوگوں کو پکڑ پکڑ کر زبردستی ہندؤبننے پر مجبور کیاجاتا ہے جبکہ اسلام
میں تو شروع سے لیکر اب تک ،چودہ سو سال کا عرصہ ہے ، کوئی ایک ادنیٰ سی
مثال پیش نہیں کی جا سکتی کہ کسی کو زبردستی مسلمان بننے پر مجبور کیا
گیاہو ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے اقلیتوں کے بارے میں فرمایا۔’’اگرکسی نے ذمی ،غیر مسلم
کو قتل کیا تومیں قیامت کے دن اس کے خلاف مقدمہ دائر کروں گا کہ
اس نے غیر مسلم کو قتل کیا ، جبکہ اس نے اسلامی ریاست میں رہنا پسند کر لیا
۔‘‘
اسلام( جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ) امن و سلامتی کادین ہے ۔اسلم تسلم اگر
سلامتی چاہتے ہوتو اس میں داخل ہو جاؤ۔ مشرق بعید انڈونیشیا ، ملائیشیا
وغیرہ میں تو کوئی مسلمان جنگجو تلوار لے کر نہیں گیا وہاں اسلام کیسے
پہنچا؟ تقریبا تمام غیر مسلم ریاستوں میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد
موجود ہے ، وہاں اسلام کیسے پہنچا؟وہاں تو کوئی تلوار لیکر نہیں گیا۔ اب
بھی مغرب (امریکہ و یورپ ) میں اسلام تیزی سے پھیل رہاہے ، لاکھو ں کی
تعداد میں لوگ مسلمان ہو رہے ہیں ان کے پاس تو کوئی تلوار لے کر نہیں جاتا
کہ اسلام قبول کرو ورنہ تمہاری گردن اڑا دی جائے گی۔
حضور نبی کریم ﷺ اعلان نبوت کے بعد تیرہ سال تک مکہ مکرمہ میں رہے ، اس دور
میں بڑے بڑے جرنیل قسم کے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اس وقت تو تلوار
اٹھانے کا حکم بھی نہیں تھا اور نہ جہاد نام کی کوئی چیز تھی۔حضرت فاروق
اعظم جیسا عظیم جرنیل نہ اب تک پیدا ہوا اور نہ قیامت تک ہو گا ،بھی اسی
دور میں مسلمان ہوئے جب تلوار اٹھانے کا حکم بھی نہیں تھا۔ بادشاہوں کا
شعار ہے کہ جب وہ فاتحانہ انداز میں کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں کے
عزت والے لوگوں کو ذلیل کر کے رکھ دیتے ہیں ،قتل و غارت کرتے ہیں ، املاک
کو نقصان پہنچاتے ہیں، لوٹ مار کرتے ہیں، نوجوان عورتوں کی آبرو ریزی کی
جاتی ہے،عوام پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں، ان کے حقوق کو پامال کیا
جاتا ہے مگر جب آنحضرت ﷺ فاتحانہ انداز میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، دس
ہزار جانبازوں کا لشکر ساتھ ہے ،کوئی مد مقابل نہیں ،سب گردنیں جھکائے کھڑے
ہیں جن میں آپ ﷺ کے بد ترین دشمن بھی تھے ،کافر بھی تھے اور مشرک بھی،
جنہوں نے آپ ﷺ کو اپنے آبائی وطن سے نکالا تھا، آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے اہل خانہ
اور صحابہ پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے تھے مگر اس وقت آپ ﷺ نے کسی سے انتقام
نہیں لیا ،کسی سے یہ نہیں فرمایا کہ اسلام قبول کرو توتمہیں معاف کیاجائے
گا ورنہ نہیں بلکہ آپ ﷺ نے یہ اعلان فرمایا کہ ۔’’لا تثریب علیکم الیوم
‘‘جاؤ! آج تم سب آزاد ہو ، تم پر کوئی گرفت نہیں ۔‘‘بلکہ یہاں تک کہ اس وقت
ایک صحابی نے یہ نعرہ لگایا کہ’’آج کادن انتقام کا دن ہے ‘‘مگر آپ ﷺ نے اس
کا ردکرتے ہوئے فرمایا۔’’ نہیں، آج کادن امن و سلامتی کا دن ہے ۔‘‘دنیا کا
کوئی لیڈر اپنے بد ترین دشمنوں کے ساتھ ایسے عظیم حسن سلوک کی کوئی ادنیٰ
سی مثال تو پیش کرے۔
خلفائے راشدین نے تقریباً آدھی دنیا پر حکمرانی کی جوبحیرہ عرب سے لے کر
افریقہ، ایشیاء اور یورپ تک پھیلی ہوئی تھی اس عظیم دور میں کسی ایک غیر
مسلم کی طرف سے کوئی ایک شکایت دائر نہیں کی گئی کہ ان کے ساتھ ناانصافی
ہوئی یاان کے حقوق کو پامال کیا گیایاکسی مسلمان نے کسی غیرمسلم لڑکی پر
بری نگاہ ڈالی ہو ۔ ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ اس طویل عرصہ میں وسیع و
عریض اسلامی سلطنت کے اندر اغواء گینگ ریپ(زنا بالجبر)، ظلم و زیادتی کا
کوئی ایک کیس بھی نہیں ہوا۔
سیموئل ہن ٹنگ ٹن کے نظریہ تہذیبوں کے تصادم کے بعد امریکہ کے سابق وزیر
خارجہ ہنری کسنجر نے ستمبر2006ء میں تہذیبوں کی جنگ (War of
Civilization)کا ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے جسے انہوں نے خود ہی عالمی
تباہی(Global Catastrophe) کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ
میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں تہذیبوں کی جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے
کہا کہ اس جنگ کا آغاز مشرق وسطیٰ میں نیوکلےئرہتھیاروں سے لیس مذہبی قوتوں
کی طرف سے ہوگا۔ ان کا اشارہ شاید ان مسلم قوتوں کی طرف تھا جو جہاد یا
عسکریت کی پشت پناہی کر رہی ہیں اور خطے میں مذہبی ریاست کا قیام چاہتی
ہیں۔
اسی طرح وال اسٹریٹ جنرل میں مارک اسٹن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے
کہا کہ کوئی اس قضیے پر یقین کرے نہ کرے لیکن یہ مسلمہ امر ہے کہ تمام دنیا
میں فسادات کی اصل جڑ مذہب اسلام (Islamic Religion) ہے، کیونکہ دنیا میں
جہاں کہیں بھی شدت پسند تحریکیں یا جارحانہ کاروائیاں ہو رہی ہیں ان میں
اکثر مسلم جماعتیںیا گروہ ملوث ہیں۔ مثال کے طور پر فلسطین میں یہودی
بمقابلہ مسلمان، کشمیر میں ہندؤ بمقابلہ مسلمان، افریقہ میں عیسائی بمقابلہ
مسلمان، تھائی لینڈ میں بدہسٹ بمقابلہ مسلمان، چیچنیا میں روسی کمیونسٹ
بمقابلہ مسلمان، بوسنیا اور کوسوؤ میں عیسائی بمقابلہ مسلمان، بالی میں عام
سیاح بمقابلہ مسلمان........ الغرض دنیا میں ہر طرف یوں لگتا ہے کہ
مسلمانوں کو لڑنے کا کچھ بہت ہی زیادہ شوق ہے۔
یہاں مارک اسٹن کی بات سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام علاقوں میں
مسلمانوں کو پھنسانے والا کون ہے؟ کس کی منشاء پر یہ مسائل الجھے ہوئے ہیں
؟ وہ کون جو مسلمانوں کے مسائل کے حل کی راہ میں روکاوٹ ہے؟کون منافقت کی
پالیسی پر عمل پیرا ہے اور مسلمانوں کے مسائل کوبجائے حل کرنے کے انہیں
مزید الجھانا چاہتا ہے؟ یہ کتنی منافقت ہے کہ امریکا فلسطین، کشمیر، چیچنیا
وغیرہ میں تو بین الاقوامی امن فوج لگانے کی مخالفت کرتا ہے اور نہ ہی وہاں
غیر جانبدار امن فوج کی تعیناتی کے لئے آمادہ ہے جبکہ روس کے پیچھے ہاتھ
دھو کر پڑا ہوا ہے کہ وہ جارجیا سے اپنی افواج کو واپس بلائے۔آخر مغربی
طاقتیں صرف جارجیا سے ہی روسی افواج کا انخلاء کیوں چاہتی ہیں؟ چیچنیا سے
اس کے انخلاء پر زور کیوں نہیں دیتیں؟کشمیر سے بھارتی اور فلسطین سے
اسرائیلی درندوں کے انخلاء اور افغانستان و عراق سے امریکی و اتحادی چوہوں
کی واپسی کا مطالبہ کیوں نہیں کرتیں؟کیا اس لیے کہ وہاں کی آبادی مسلمان ہے
جبکہ جارجیا کی آبادی عیسائی ہے؟یہ کہاں کا عدل اور انصاف ہے کہ مسلم
اکثریتی علاقوں کی آبادی پر بم برسائے جائیں ، آتش و آہن کی بارش کی جائے
اور عیسائی آبادی کو مسلم ریاستوں کے خلاف بغاوت پر اکسایا جائے، باغیوں کو
اسلحہ اور رقم فراہم کر کے مسلم ریاستوں کو توڑا جائے؟جیسے مشرقی تیمور میں
ہوا اور اب جنوبی سوڈان میں ہونے والا ہے۔
جارج بش نے کہا تھا کہ روس ایک کمزور اور چھوٹے ملک کو دبا دھمکارہا ہے اور
اس کی فوج کی جارجیا سے فوری واپسی کا مطالبہ کیا۔کیا ہم بش سے یہ پوچھ
سکتے ہیں کہ کیا اس نے افغانستان اور عراق جیسے کمزور ممالک پر حملہ اور
قبضہ نہیں کیا؟جارجیا تو روس سے متصل علاقہ ہے اور جنوبی اوسیشیا کے باشندے
روسی پاسپورٹ کے حامل ہیں، جبکہ خود جارجیا میں روسی زبان بولنے والوں کی
خاصی تعداد موجود ہے۔افغانستان و عراق وغیرہ کے ساتھ امریکہ کی کونسی سرحد
ملتی تھی او ر وہاں اس کا کس چیز میں اشتراق تھا زبان میں، یا لباس، یا
مذہب میں؟
دنیا میں انسانیت کا سب سے بڑا قاتل کون ہے؟ انسانی تاریخ سے لیکر آج تک کس
نے انسانیت کا سب سے زیادہ خون کیا ہے؟ اے دنیا کے منصفو! تاریخ پر نظر
دوڑاؤ! جنگی اعداد و شمار جمع کرو اور انسانیت کی خون ریزی کا حساب لگاؤکہ
کس نے مظلوم، لاچار اور نیہاتہ لوگوں کو بے دریغ کچلا؟ دنیا میں انسانیت کا
سب سے زیادہ خون امریکی سامراج ، صہیونی و طاغوتی قوتوں اور اس کے حلیفوں
نے بہایا ہے۔ اسلام پر جنگی جنون اور فتنہ و فساد کا الزام لگانے والے اپنے
گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں۔ اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ اور امریکی
سامراج کی دو، تین سو سالہ کے اعداد و شمار اکٹھے کریں تو تمہیں معلوم ہو
جائے گاکہ کون انسانیت کابڑا قاتل اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے دنیا میں؟
20ویں صدی کو جنگی مورخین انسانی تاریخ کی خونریز ترین صدی کا نام دیتے
ہیں۔ جب 20صدی کا سورج طلوع ہوا تو بوئر وار، روسو جاپان وار، ہیرو شیما،
ناگاساکی پر انسانی تاریخ کا سب سے ظلم ناک ترین وار اور لاکھوں بیگناہ
لوگوں کا قتل عام، سپین کی خانہ جنگی، جرمنی و فرانس کی جنگ، پورے یورپ کی
آپس میں خانہ جنگی، ہٹلر کی انسانیت سوز داستان، پہلی عالمی جنگ، ترکوں اور
یونانیوں کی جنگ، دوسری عالمی جنگ، لانگ مارچ، کوریا کی جنگ، سویت وار، ویت
نام کی جنگ اور 20لاکھ بے گناہ لوگوں کا قتل عام، تین عرب اسرائیل جنگیں
(1956ء، 1969ء، 1973ء)، تین پاک بھارت جنگیں (1948ء، 1965ء، 1971ء)،
ارجنٹائن کی جنگ، بوسنیا کی جنگ، چیچنیا کی جنگ، کوسوؤ کی جنگ، سربوں کے
ہاتھوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام، صلیبی جنگ، سرد جنگیں، عراق ایران
جنگ، عراق کویت جنگ، افغانستان سوویت یونین جنگ یہ سب جنگیں اسلام اور
مسلمانوں نے مسلط نہیں کیں دنیا پر؟ ان جنگوں میں ارب سے بھی زائد لوگ صرف
ایک صدی میں لقمہ اجل بنے۔ 21صدی شروع ہوئی تو نیا جنگی محاذ کھولنے کیلئے
تخریب کاری کی اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا ڈرامہ رچا کر افغانستان پر آگ و آہن
کی بارش برسائی ، خطرناک ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر عراق کو تہس نہس کر
ڈالا؟ کیا خطرناک ہتھیار صرف عراق کے پاس ہی تھے دنیا میں؟ کیا تمہارے اور
تمہارے حلیفوں کے گودام نہیں بھرے پڑے ہیں ایسے ہتھیاروں سے جو چند لمحوں
میں پوری دنیا کو تہہ و بالا کر سکتے ہیں؟ پھر انہی خطرناک ہتھیاروں کا
الزام لگاتے ہوئے لیبیا پر دھاوا بول دیا۔ پھر شام میں داعش کا فتنہ پیدا
کر کے کس نے نیا جنگی محاذ کھولا ہے؟ یہ سب کچھ کرنے اور کروانے والے کون
ہیں دنیا میں؟ کون طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی بنا ہے؟ اگر کسی میں انصاف
کا قطرہ اور غیرت ہوتی تو کچھ تو شرم کرتے اسلام کا نام لیتے ہوئے۔ کون
دنیا کا امن برباد کیے ہوئے ہیں؟ کون انسانیت کو چین سے نہیں جینے رہے؟
اسلام کا واضح پیغام ہے پوری دنیا کو کہ چین سے جیو اور جینے دو۔امن سے رہو
اور دنیا میں امن قائم کرنے دو۔
اہل مغرب مسلمانوں کو عسکریت پسند اسلام کے پیرو کار کہتے نہیں تھکتے ہیں
لیکن اگر ان کی اپنے جنگی جنون پر نظر دوڑائیں تو ان کو بے شرم اور بے غیرت
کہنے میں کوئی حد مانع نہیں ہو گی۔ اسلام نے بلا تفریق تمام بنی نوع انسان
کو تحفظ فراہم کیا، تمام انسانیت کے ساتھ مساوات برتی، سب کے بنیادی حقوق
کا خیال رکھا۔ جن جنگوں میں مسلمانوں کا نام آتا ہے وہ مسلمانوں پر مسلط کی
گئیں ان کا آغاز مسلمانوں نے نہیں کیا۔ مسلمانوں پر عسکریت پسندی اور جنگی
جنون کا الزام لگانے والے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں اور کچھ غیرت
باقی ہے تو اس میں ڈوب مریں۔
کون دنیا کے امن کو برباد کیے ہوئے ہیں ؟ کون دنیا میں قیام امن کی راہ میں
رکاوٹ ہیں؟کیا امریکا صہیونیت و طاغوتی قوتوں کی ہمت افزائی و پست پنائی
نہیں کر رہا؟اسرائیل کا فتنہ کس نے پیدا کیا مشرقی وسطیٰ میں؟کیا امریکہ نے
شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے اتحاد میں گذشتہ نصف صدی سے ٹخنا نہیں ڈال
رکھا؟ کیا امریکا تائیوان کے چین سے الحاق کے راستے میں حائل نہیں ہو
رہا؟کیا امریکہ نے چین کے ساتھ اس کے جنوبی جزائر اور ساحلوں کا بجا معاملہ
کھڑا نہیں کر رکھا؟جس نے مغرب سے اٹھ کر آ کر مشرق کے مسائل میں بجا ٹاک
اڑا رکھی ہے ؟ اگر ان مسائل میں الجھ کر امریکا اور چین براہ راست ایک
دوسرے سے متصادم ہو گئے یا شمالی کوریا اور امریکہ کا تصادم ہو گیا تو بات
تیسری عالمی جنگ تک پہنچے گی۔ایٹمی تصادم ہو گا اور دنیاقیامت آنے سے پہلے
ہی قیامت سے دو چار ہو جائے گی۔
افغانستان و عراق ، لیبیا و شام کی تباہی کے بعد ان ممالک میں لاکھوں انسان
بے پناہ مصائب اور مشکلات سے دو چار ہیں، وہاں امن و سکون ختم ہو چکا ہے
اور غذائی اجناس و ادویات کی شدیدقلت ہے۔روزگار کا نام و نشان نہیں، آئے
روز بم دھماکے ہورہے ہیں۔ نام نہاد حکومتوں کی عمل داری کہیں نظر نہیں آتی،
طاقتور گروپ آزاد ہیں، لوگ شدید خوف و ہراس کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ سب
امریکا کا کیا دھرا ہے۔اگر امریکا ان ممالک پر حملہ آور نہ ہوتاتو
یقیناًیہاں کے عوام سکون و اطمینان کی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔
امریکا دنیا کے معاملات میں بے جا ٹانگ اڑاتا ہے، وہ امریکی مفادات کے تحفظ
کے نام پرباقی دنیا کے مفادات کو کچل دینا چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ
خودمختاری، آزادی اور عزت و وقار سے سر اٹھا کر جینے والے لوگ دنیا بھر میں
امریکی بالا دستی کو چیلنج کر رہے ہیں۔جبکہ امریکا انہیں دہشت گرد قرار دے
کر ان کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔اس وقت عالمی سطح پر اسلام اوراہل اسلام کے خلاف
بیک وقت تین محاذوں پر جنگ جاری ہے ۔ایک دہشت گردی، جس کے درپردہ اہل اسلام
اور ان کی تہذیب ہے ۔ دوسری کروسیڈ وار (یعنی صلیبی جنگ ) جس کا امریکی صدر
بش اعلان کر چکا ہے ۔ اور تیسری جنگ اسلامی عقاہدو نظریات ،اقداروروایات کے
خلاف جاری ہے۔ شیطان کبیر بش لعین بار بار للکار رہا تھا اور چلا چلا کر
کہہ رہا تھاکروسیڈ وار، کروسیڈ وار (United Fight Against Terrorism)یعنی
اسلام کے عقیدہ جہاد فی سبیل اللہ، اسلام اور اہل اسلام کے خلاف متحدہ جنگ۔
بش نے کروسیڈ کا لفظ استعمال کرکے تمام اسلامی ممالک کو یہ پیغام دیا کہ
اگر وہ ان کے (یہودی و عیسائی ریاستوں) کے تابع فرمان بن کر دنیا میں
رہناچاہتے ہیں تو رہیں ورنہ افغانستان و عراق کی طرح مار کھانے کیلئے تیار
ہو جائیں ۔
اسلام اور اسلامی ممالک سے لے کر مشرقی بعیدتک کو آگ و آہن کی لپیٹ میں
لینے کیلئے بے تاب امریکہ اور اس کے گماشتے،جنرل البرٹ پائیک کی 1859-71ء
کی منصوبہ بندی کے آخری مہرے ہیں جن کی نکیل پروٹوکولز کے محافظوں کے ہاتھ
میں ہے جو پوری دنیا پر دیگر محاذوں کے کامیاب حملوں کے بعد اپنی جنگی قوت
و طاقت سے چھاجانا چاہتے ہیں ۔ ان کی زبانیں ہر آن شعلے اگلتی ہیں جن کے
ذریعے وہ دنیابھر کو بھسم کر دینا چاہتے ہیں۔ اپنی تہذیب کے تحفظ کی آڑ میں
وہ سبھی تہذیبوں بالخصوص اسلامی تہذیب کو بے نام و نشان کر دینا چاہتے
ہیں۔ان کا غرور ،تکبر و نخوت اس عروج پر ہے کہ وہ اپنے سوا تمام انسانوں کو
اپنے سے کم تر درجہ کی مخلوق سمجھتے ہیں بلکہ یہاں تک کہ انہوں نے ’’کنتم
خیرا امۃ‘‘ کا اعزاز رکھنے والی قوم کو تیسری دنیا کانام دے دیا ہے۔
وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَبَقُوْا ط اِنَّھُمْ لَا
یُعْجِزُوْنَo
اے کافرو! تم ہرگز اس گھمنڈ میں نہ رہو کہ تم ہاتھ سے نکل گئے (تم نے ہمارے
مقابلہ کیلئے بہت سی قوت و طاقت جمع کر لی، تم ہم پر سبقت لے گئے) بیشک تم
زمین میں ہرگز ہمیں عاجز نہیں کر سکتے۔
اے مسلمانو! عبرت حاصل کرو قد بدت البغضاء من افواھھم وما تخفی صدورھم
اکبراسلام اور اہل اسلام کے خلاف بغض، کینہ، عداوت اور دشمنی خود ان کی ز
بانوں سے ظاہر ہو چکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے کہیں
زیادہ تباہ کن اور خطرناک ہے۔
|