تحریر:رقیہ فاروقی
اس جہاں رنگ وبو میں چہار سو علم کے بغیراندھیرا ہی اندھیراہے۔ ہر زمانے
میں علم کی روشنی نے انسان کے اقبال کو بلند کیا ہے۔آنحضرت ﷺکی تشریف آوری
سے قبل انسانیت لگ بھگ چھ سو سال جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی رہی۔ پھر اﷲ
پاک نے پکارا، عالم کے سامنے سب سے پہلا جو اعلان ہوا۔ وہ علم کے متعلق تھا،
پڑھنے پڑھانے سیکھنے سکھانے سے متعلق تھا۔ اگرچہ اس وقت معاشرے میں بدی کا
راج تھا۔ ہر برائی اپنے عروج کی حدوں کو چھو رہی تھی، لوگ قیامت کے انکاری
تھے۔ ان سب برائیوں کے لیے کوئی مذمتی بیان بھی جاری کیا جا سکتا تھا۔ کوئی
ایسا حکم جس کے ذریعے لوگ بعث بعد الموت کا یقین کر لیتے لیکن ایسا نہیں
ہوا بلکہ سب سے پہلے علم کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ ایک گنوار
قوم کو علم کے ذریعے سے چمکا دیا گیا۔ عرب کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو
معلوم ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں اس قدرجہالت کا راج تھا کہ کوئی حکمراں
وہاں حکومت کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔
پھر علم کی روشنی نے جہالت میں ڈوبی قوم کو انسانیت کی تہذیب سے آشنا کر
دیا۔ علم ہی ایک ایسی روشنی ہے جس نے حیوانات سے انسانوں کو ممتاز کر دیا۔
ابھی تخلیق کائنات کی ابتداء ہوئی تھی۔ انسانیت عدم سے وجود ملا۔ اﷲ تعالی
نے اس کے شرف فضیلت کو دکھانے کے لیے اس کے علم کو ظاہر کر کے فرشتوں پر
برتری کو ثابت کر دیا۔ مٹی کا یہ پتلا آسمان والوں کے لیے قابل رشک بن گیا۔
گویا ابتدائے آفرینش میں فرش سے عرش تک ایک درسگاہ تھی۔ جس کے معلم حضرت
آدم علیہ الصلوۃ والسلام تھے۔ وہ مسجود ملائکہ بنا دیے گئے اور یہ فضیلت
علم کی وجہ سے حاصل ہوئی۔
علم ایک ایسی روشنی ہے جو جہاں کو منور کردیتی ہے۔ انسان اس کی جستجو میں
بڑھتا چلا جاتا ہے۔ علم کی اسی فضیلت اور اہمیت کی وجہ سے اﷲ علیم وخبیر نے
فرمایا،کہ تم مجھ سے علم میں ترقی اور زیادتی کی دعا مانگا کرو۔حالانکہ
دیگر نعمتوں پر قناعت کا درس دیا گیا ہے، لیکن علم ایک ایسی دولت ہے۔ جس کا
حرص رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ بیان کرتے
ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا،’’کہ دو شخصوں کے سوا کسی پر
حسد کرنا جائز نہیں ہے۔ ایک تو وہ شخص جس کو اﷲ نے مال دیا اور پھر اس کو
راہ حق میں خرچ کرنے کی توفیق دی اور دوسرا وہ شخص جس کو اﷲ نے علم دیا۔پس
وہ اس علم کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور اسے سکھاتا ہے‘‘۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں، ’’تھوڑی دیر کے لیے علم کا درس رات بھر
عبادت کرنے سے بہتر ہے‘‘۔پھر علمی تاریخ میں اگر دیکھا جائے تو اسلامی
تاریخ زریں ہے۔ قرآن کی تعلیم نے علم اور ریسرچ کا ایسا جذبہ پیدا کیا کہ
چند ہی صدیوں میں جہالت میں ڈوبی انسانیت علم کے قمقموں سے جگمگا اٹھی۔ایک
عظیم علمی انقلاب برپا ہوا۔ جابر بن حیان اور البیرونی جیسے عظیم سائنسدان
پیدا ہوئے۔جنہوں نے اپنے کارناموں سے دنیا کو مبہوت کر کے رکھ دیا۔
علم کے میدان میں ترقی کے لیے ہمیں بیدار ہونا ہوگا۔ ترقی کی منازل کو طے
کرنے کے لیے محنت کے میدان کو پاٹنا ہوگا۔پاکستان کی نئی نسل علم کے حصول
میں جدوجہد کر کے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتی ہے۔یاد رکھیں! علم ایسی
دولت ہے کہ جس میں زیادتی باعث سکون بنتی ہے جب کہ مال کی زیادتی انسان کے
لیے بے سکونی کا باعث بن جاتی ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم علم کے ذریعے سے دنیا
میں اپنا مقام پیدا کرلیں کیوں کہ ایک جاہل آدمی کبھی بھی اہل علم سے ہمسری
کا دعوی نہیں کرسکتا۔حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے کہ ،’’انسان کانوں کی مانند
ہیں‘‘۔ جیسے کانیں مختلف معدنیات کی ہوتی ہیں بالکل اسی طرح ہر انسان کے
اندر مختلف قسم کی صلاحیتیں ہیں۔ جن کو نکھارنے کے لیے علم کی ملمع سازی کی
ضرورت ہے۔ حصول علم کے لیے عمر کی قید نہیں ہے۔ مہد سے لحد تک حاصل کیا جا
سکتا ہے۔ ہر کس وناکس کو علم کے زیور سے آراستہ ہو کر سفینہ امت کو سہارا
دینا چاہیے۔اس علم کے ذریعے سے ہی اس بیمار معاشرے کی تجدید نو کا کام سر
انجام دیا جا سکتا ہے۔
|