باجی اس بات کا کیا مطلب ہے؟عفیفہ نے ایک دم میری مہو سوچ
میں دخل اندازی کی
کیا ہوا !!کیا سمجھ نہیں آرہا ؟
یہی کہ کیا ہماری نیکی قربانی کے بغیر قبول نہیں ہوگی کیسے ؟
ہاں ہر نیکی قربانی مانگتی ہے کبھی چھوٹی کبھی بڑی !!
ہر دور میں اللہ کے کوٸ نہ کوٸ ایسے محبوب بندے ضرور رہے ہیں جنہیں ہر چیز
سےبڑھ کے الله کا اور اسکے رسول کا قرب عزیز تر رہا ہے۔ قرب کی یہ کیفیت
ابنِ آدم کو متاع الغرور سے بے نیازی بخشتی ہے۔اور بے نیازی بھی ایسی کہ رب
کے در کا گدا اور شاہوں میں شہنشاہ۔
اس کی سب سے عمدہ مثال رب العالمین کے محبوب سرورِکونین نبی آخر زماں احمد
ِمجتبی محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ صلات و وسلام کی پوری حیاتِ
طیبہ ,آپکے اہل بیت ,صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کٸ قربانیوں سے گزر کر
نیکی کے اس درجے تک پہنچے ہیں جو درحقیقت رب کے قریب نیکی ہے ۔
جنابِ نبی اکرم ﷺ نے یہ درس اپنے ہر غلام عام و خاص کو اپنی عظیم ترین سیرت
سے بخشا ہے آپکے اہل بیت حضرت امام حسنین کریمین کی بے نظیر مثال ہمارے
سامنے ہے
صحابہ کرام بھی بنقشِ محمد صلات و سلام پوری زندگی آپکو اوراللہ کو راضی
کرکے نیکی کے افضل تر درجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے.. کہیں ابو بکر صدیق بن
کر آقا کریم پر تن من دھن لٹاتے نظر آتے ہیں.. کہیں حضور سے ملنے کی شدید
چاہت لۓ اویس قرنی حضور کے کہنے پر اپنی اس چاہت کو ماں کی خدمت پر قربان
کرکے مصطفی جان رحمت کا حکم مان کر امت کو درس دیتے نظر آتے ہیں کہ تم اس
وقت تک محنت و ریاضت میں کامل درجہ نہ پا سکو گے جب تک اپنی تٗحِبون
کو..اپنی محبت کو اپنی خواہشات کو اپنی انا کو رب کی رضا پر قربان نہ
کردو۔۔
تنالل بِرٌا کا یہ تقاضہ انبیا علیہ سلام بھی رضاۓالہی کی خاطر بخوبی
نبھاتے نظر آتے ہیں کہیں حضرت ابراہیم و اسماٸیل اس رضا کے لۓ جان بحق پیش
کررہے ہیں ..
کہیں یوسف علیہ سلام بضد ہیں کہ جیل اور اسکی سختیاں برداشت ہیں لیکن نفس
کی مان کر اپنی نیکیوں کا سودا نہیں کروں گا۔
کہیں بی بی آسیہ سلام اللہ علیہہ پیکر وفا فرعون کے ہزاروں ظلم و ستم کے
باوجود توحید کا پرچم بلند کررہی ہیں اور پٌر
آساٸش زندگی کو زیر قدم روندتے ہوۓ کہہ رہی ہیں ۔۔۔
لَن تنَالٌل بِرّاَ حَتّی تٌنفِقٌو مِما تحبون
ترجمہ :تم ہر گز اس وقت تک نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی ”محبوب“ترین
چیز خرچ نہ کرو
سورہ ال عمران۔آیت ٩٢
|