حضرت حسین رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا کے چھوٹے بیٹے تھے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے 3 شعبان 4 ہجری بمطابق 8 جنوری 626 عیسوی کو
مدینہ منورہ میں آنکھ کھولی۔آپ رضی اللہ عنہ کا نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے حضرت حسین رکھا۔حدیث کا مفہوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
کہ"حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کا نام شبر اور شبیر رکھا اور میں
نے اپنے بیٹوں کا نام انہی کے بیٹوں کے نام پر حسن اور حسین رکھا"۔آپ رضی
اللہ عنہ کی کنیت"ابو عبداللہ"ہے اور لقب "ریحان رسول"ہے۔آپ رضی اللہ عنہ
کی پرورش آپکے والدین اور آپ رضی اللہ عنہ کے نانا(محمد صلی اللہ علیہ
وسلم)نے کی۔دنیا ایسی نورانی پرورش کیلئے ترستی ہے جیسی پرورش حضرت حسین
رضی اللہ عنہ کی کی گئی۔
نواسہ رسول،جگر گوشہ بتول،شہنشاہ ولایت حضرت حسین رضی اللہ عنہ ان لوگوں
میں سے ہیں جن کو امت مسلمہ اپنا مقتداء تصور کرتی ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کا
شمار دنیا کے بہادر اور ظلم کے سامنے ڈٹ جانے والی ہستیوں میں ہوتا ہے۔آپ
رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر آپ رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے ساتھ ہی ہوگئی
تھی۔لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے زمانہ شیر خوارگی ہی میں جان چکے تھے کہ آپ رضی
اللہ عنہ ظلم و ستم کرنے والوں کے ہاتھوں شھید ہونگے۔حضرت عبد اللہ بن عباس
سے روایت ہے کہ ایک دن میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
دیکھا کہ بال مبارک بکھرے ہوئے ہیں اور گرد و غبار بھی پڑا ہوا ہے اور آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک شیشی ہے حضرت عبداللہ بن عباس نے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا کہ یہ "حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور انکے ساتھیوں کا خون ہے آج
میں اسکو اٹھا رہا ہوں"پہر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں
کہ میں نے اس وقت کو یاد میں رکھا تو وہی وقت شہادت حسین کا پایا۔
فضائل نواسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کریمین رضی اللہ عنھما کے بارے میں
ارشاد فر مایا کہ"یہ دونوں میرے پھول ہیں"۔اسی طرح ایک اور مقام پر آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ"جس نے حسنین کریمین کو محبوب رکھا اس نے مجھ
سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا"(ابن
ماجہ)۔ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے
رونے کی آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے
فر مایا"تم کو معلوم نہیں کہ انکا رونا مجھے غمگین کرتا ہے"۔حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کو حضرت حسین سے اس قدر محبت تہی کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے
محبت کو اپنے آپ سے محبت قرار دیا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بغض کو
اپنے آپ سے بغض قرار دیا۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کثرت سے قرآن مجید کی
تلاوت کیا کرتے تھے،آپ رضی اللہ عنہ نے بکثرت حج کیے ایک روایت کے مطابق 25
حج پیدل سفر کرکے کیے،آپ رضی اللہ عنہ ممنوعہ ایام کے سوا اکثر روزہ رکھتے
تھے۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اللہ سے تعلق اس قدر مضبوط تھا کہ کوئی بھی
وقت اللہ کی عبادت کیے بغیر نہ گزارتے تھے۔سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ
عنھما بیان کرتے ہیں کہ:ایک مرتبہ میں نے اپنے کسی کام کے لیے حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کا دروازہ کھٹکھٹایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے
تو اپنی چادر میں کسی چیز کو لپیٹے ہوئے تھے،میں نے اپنی ضرورت پوری کرکے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ یہ کیا چیز لپیٹے ہوئے ہیں؟تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے چادر ہٹائی تو یہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنھما تھے۔جو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کولہوں سے چمٹے ہوئے تھے۔پہر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فر مایا"یہ دونوں(حسن و حسین رضی اللہ عنھما)میرے بیٹے ہیں
اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔اے اللہ!میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی
ان سے محبت رکھ اور اس سے بھی پیار رکھ جو ان دونوں سے انس رکھے"۔آپ ؓ کے
والد مکرم خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت حسینؓ
سینہ سے لے کر سر مبارک تک حضورﷺ کے مشابہ تھے اور سیدنا حضرت حسینؓ قدموں
سے لے کر سینہ تک حضورﷺ کے مشابہ تھے اور آپ ؐ کے حسن وجمال کی عکاسی کرتے
تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فر مایا"حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں"۔یہ حدیث حسین رضی اللہ عنہ کا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے باہمی تعلق کو بیان کرتی ہے۔اور ایسے کلمات وجہ
سے کہے جاتے ہیں1۔خونی رشتہ کی بنا پر ایسے الفاظ کہے جاتے ہیں اور حسین
رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں 2۔مشترکہ صفات کی بناء پر
ایسے الفاظ کہے جاتے ہیں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے جیسی کئی صفات مشترک ہیں۔ ایک
اور روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ہر عورت کی
اولاد کا نسب اپنے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے کیونکہ
میں ہی ان کا نسب اور میں ہی ان کا باپ ہوں"۔ایک اور روایت ہے کہ حضرت
حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا"ایک فرشتہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے
پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرے اور مجھے یہ خوشخبری دے کہ حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا اہل جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین
رضی اللہ عنھما جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں"۔بلا شبہ حضرت امام حسین
رضی اللہ عنہ جنت کے سرادر ہیں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے
خاتون جنت رضی اللہ عنہا اور شیر خدا علی المرتضی کے فرزند ہیں آپ کے
فضائی بہت ہیں بس آپ کے لئے یہی کافی ہےکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے نواسے ہیں آپ دلیر تھے شجاع تھے حق گو تھے اور نہ جھکنے والے تھے
آپ کو مظلوم کر کہ شہید کردیا گیا مظلوم مدینہ حضرت عثمان اور حضرت علی
رضی اللہ عنہ کے بعد تیسری آپ کی شہادت ،امت مسلمہ پر یہ تین حادثے بہت ہی
گراں تھے۔
واقعہ کربلا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے وابستہ ہے۔ آپ ﷺ کے نواسے،
حضرت علی کّرم اللہ وجہہ‘اور بی بی فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے لخت جگر
تھے۔ اسلامی تاریخ میں دورِ خلافت کے بعد یہ واقعہ اسلام کی دینی، سیاسی
اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہواہے۔ حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ کی شہادت کے اس عظیم واقعہ پر بلا شک و شبہہ اور بلا مبالغہ دنیا
کے کسی بھی دیگر حادثہ پر نسلِ انسان کے اس قدرآنسو نہ بہے ہونگے۔ بلکہ یہ
کہنا بیجا نہ ہوگا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک سے جس قدر خون
دشتِ کربلا میں بہا تھا اس کے بدلے پوری ملتِ اسلامیہ ایک ایک قطرہ کے عوض
اشک ہائے رنج و غم کا ایک سیلاب بہا چکی ہے اور لگاتار بہا رہی ہے اور
بہاتی رہے گی۔
پیغام شہادت حسین رضی اللہ عنہ:
شہادت حسین رضی اللہ عنہ ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ کہ ایمان والا اپنے خون
کے آخری قطرہ تک حق پر صداقت پر جما رہے باطل کی قوت سے مرعوب نہ ہو۔حق و
صداقت کیلئے جان قربان کرنی پڑے تو قربان کردو جان یہی پیغام ہے شہادت حسین
رضی اللہ عنہ کا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت اما حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ
و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے
اسے دنیا میں عام کیا جائے کیونکہ پنڈت جواہر لا ل نہرو کے بقول ’’ حسین کی
قربانی ہر قوم کے لئے مشعلِ راہ و ہدایت ہے"۔
اللہ ہم سب کو مشن حسین رضی اللہ عنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
|