رات کے کھانے کی ٹیبل پر دنیا کی ہر نعمت موجود تھی۔ مجھے
وہاں موجود لزانیہ اور پزا دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی مگر بڑے ماموں جان نے
بتایا کہ ان کی حویلی میں دنیا کے تین بڑے شیف موجود ہیں ۔ ڈائننگ ٹیبل پر
مجھے کسی کی آنکھوں کی تپش کا احساس ہواتو ہوا تو میرا دل خوشی سے جھوم
اٹھا کہ ضرور یہ کوئی اور نہیں سجاول علی خان ہوگا ، مگر نظریں اٹھانے پر
میری امیدوں کا محل مسمار ہوگیا ۔ میرے چہرے کا احاطہ کرتی وہ نظریں سجاول
کی نہیں تھیں ، بلکہ وہ نیلی آنکھوں والا فیضان علی خان عرف فیضی تھا۔ میں
نے برا سا منہ بنایا اور طیب بھائی کی طرف متوجہ ہوکر ان سے باتوں میں
مصروف ہوگئی ۔
کھانے کے بعد جب سب بڑوں نے اپنے اپنے کمروں کی راہ لی تو ہم سب کزنز
چاندنی رات میں لان میں پڑی کین کی خوبصورت کرسیوں پر براجمان ہوگئے۔ سجاول
علی خان بظاہر تو فیضان علی خان سے باتوں میں مصروف تھا مگر درحقیقت اس کی
نظریں ہاجرہ کے وجود کا احاطہ کیے ہوئے تھیں ۔ ایسے لگتا تھا جیسے پروانہ
شمع پر نثار ہورہا ہو۔ میرے دل میں رقابت کی آگ بھڑک اٹھی ۔ ہاجرہ نے تھوڑی
دیر بعد سب سے اجازت طلب کی ، مجھے بادل ناخواستہ اس کی تقلید کرنی پڑی۔
مجھے تنہائی اور بوریت محسوس نہ ہو اس لئے مجھے ہاجرہ کے ساتھ کمرے میں
ٹہرایا گیا تھا۔ہاجرہ نے نائٹ سوٹ پہن کر سب سے پہلے نماز عشاء ادا کی ،
مجھے ایک حیرت نے گھیر لیا، اس کی تقلید میں میں نے بھی نجانے کتنے عرصے کے
بعد نماز پڑھی ۔نماز پڑھ کر ہاجرہ نے مجھے گلے سے لگا کر کہا :
"بانو میں تمھارے پاکستان آنے سے بہت خوش ہوں۔مجھے ہمیشہ ایک پیاری سی بہن
کی کمی ستاتی تھی،آج یہ کمی بھی تمھاری شکل میں پوری ہوگئی ۔"
میرے دل کہیں عمیک گہرائی میں ڈوب سا گیا، میں اس سے نفرت کرنا چاہتی
تھی،اس سے لڑنا چاہتی تھی، مگر اس کی بے ریا محبت مجھے اس کا غلام بنا رہی
تھی۔ شہزادی کا جادو واقعی سر چڑھ کر بولتا تھا میں اس کی محبت کے ان دیکھے
تاروں میں جکڑی گئی تھی ۔ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا، اس کی سبز
آنکھیں جگنووں کی طرح چمک رہی تھیں ۔اس کے بال شہد رنگ کے تھے۔ اس کی رنگت
شاید اللہ نے گلابوں اور دودھ کے امتزاج سے تیار کی تھی، اس کی ستواں ناک
میں پڑا ہوا ہیرے کا کوکا لشکارا مارتا تھا جب وہ سر ہلا کر بولتی تھی، اس
کے لب شاید پھولوں کی پنکھڑیوں کو بھی مات دیتے تھے۔اس کی صراحی دار گردن،
خوبصورت فنکارانہ ہاتھ، سانچے میں ڈھلا ہوا بدن پھر سب سے بڑھ کر اس کی خوش
گفتاری، میں شہرزاد بانو اسی لمحے میں شہزادی ہاجرہ کی محبت میں گرفتار
ہوگئی ۔میں جان چکی تھی کہ اس معصوم ساحرہ کے سحر سے کسی کو مفر نہیں ہے۔
سجاول علی خان تو بے قصور تھا، اگر وہ اس کی محبت میں گرفتار تھا تو کوئی
اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ ہاجرہ دلوں کو ُفتح کرنا بخوبی جانتی تھی۔میں نے
آہستگی سے ہاجرہ کو کہا:
"ہاجرہ میں تھک گئی ہوں، صبح تفصیلی بات کرتے ہیں ۔"
وہ اپنے سر پر ہاتھ مار کر بولی:
"سوری بانو میں اپنی ایکسائٹمینٹ میں تمھاری تھکن بھول ہی گئ، چلو صبح گپ
شپ لگاتے ہیں "۔
میں آہستگی سے کروٹ لے کر لیٹ گئی، میری آنکھوں سے دو آنسو نکل کر تکیے میں
جذب ہوگئے۔ میں اعتراف شکست کر چکی تھی، میں اپنا پہلا پیار کسی بھی کوشش
کے بغیر شہزادی کے قدموں میں ہار چکی تھی۔ میں نے سجاول علی خان کو شہزادی
کی نذر کردیا تھا، میں نے اپنی شکست پر ماتم کرنا چاہا، مگر میری ذات کے
خلا سے کوئی نالہ بلند نہ ہوا۔ میں اپنے آپ سے خوفزدہ تھی، ہائے یہ دل کی
زمین مجھے ابھی کس کس آزمائش کا شکار کریگی؟
اسی کشمکش میں نجانے کب نیند کی دیوی مجھ پر مہربان ہوگئی ۔صبح میری آنکھ
ہاجرہ کے اٹھانے سے کھلی وہ بولی :
"بانو میری جان ! فجر کی نماز قضا نہ ہوجائے ۔"
میں بے اختیار ،ایک معمول کی طرح اٹھی اور نماز اس کے ساتھ ادا کی۔ میں
اپنی تبدیلیوں پر حیران تھی، وہ شعلہ صفت، باغی بانو کدھر گم ہوگئی تھی
۔میں شہزادی کے آگے بے بس ہوتی جارہی تھی ۔
ناشتے کی میز پر بھی اہتمام دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔پائے، نہاری،سرسوں
کا ساگ، سے لے کر کروسینز تک میسر تھے۔ ناشتے سے فارغ ہوکر ہم سب قبرستان
نانا جان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گئے ، اسی وقت ہاجرہ کے امی ،ابا جو میرے
چھوٹے ماموں جان اور ممانی تھے، وہ بھی پہنچ گئے ۔ممانی کو دیکھ کر مجھے
اندازہ ہوا کہ ہاجرہ نے یہ رنگ و روپ کہاں سے چرایا تھا۔
کچھ دیر میں منجھلے ماموں اور ممانی جان بھی پہنچ گئے ۔گھر کے بڑے جائیداد
کی تقسیم پر بیٹھ کر بات چیت کرنا چاہتے تھے ۔ ہم سب نوجوانوں نے مل کر
زمینوں کی سیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ طیب بھائی اور شاہنور سے میری اچھی دوستی
ہوگئی تھی مگر فیضان علی خان کو میں جان بوجھ کر اگنور کر رہی تھی ۔ مگر اس
کی نظریں لگتا تھا جیسے مجھ سے چپک گئی تھیں ۔بات وہ سجاول علی خان سے
کررہا ہوتا مگر نظریں میرا طواف کررہی ہوتیں ۔
پکنک کا سامان جیپ میں تھا، ہم ہنستے مسکراتے سر سبز کھیتوں میں گھوم رہے
تھے ۔ اچانک ہی ہاجرہ نے چیخ ماری کہ سجاول کو سانپ کاٹ گیا ہے۔ سجاول میرے
سے آگے تھا، وہ لڑکھڑا کر میرے اور ہاجرہ کے اوپر ہی گرا ۔ مگر فورا سنبھل
کر کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگا مگر کامیاب نہ ہو پایا۔ میں نے اور ہاجرہ نے
فورا اس کی ٹانگ پر دونوں طرف کس کر دوپٹے باندھ دیئے ۔ہاجرہ کی آنکھوں سے
تواتر سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ سجاول کے گالوں کو ہلکے ہلکے تھپڑ لگاتے
ہوئے کہہ رہی تھی:
"سجو! آج آپ نے سونا نہیں ہے ۔آپ کو میری جان کی قسم سوئیے گا نہیں ۔"
شہزادی کی پریم کتھا اس کی آنکھوں سے زار زار بہہ رہی تھی۔ سجاول علی خان
کی آنکھیں سانپ کے نشے سے خمار آلود ہو رہی تھیں ۔وہ بے اختیار ہی بڑبڑایا
:
"ہاجو! میں ڈوب رہا ہوں۔"
فیضان،طیب بھائی اور شاہنور ہم سے کافی فاصلے پر تھے۔ہمارے رونے دھونے سے
پریشان ہوکر وہ لوگ بھاگے آئے مگر ہمارے ہونٹوں سے تو آواز ہی نہیں نکل پا
رہی تھی ۔
اسی اثناء میں کچھ اور لوگ بھی ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔ہمارے رونے دھونے کی
آواز سن کر قریب کھیتوں میں کام کرتا ایک بوڑھا کسان بھی بھاگا آیا جو کہ
مقامی طبیب تھا اس علاقے میں سانپوں کی بہتات تھی۔ اس کو صورتحال کا جیسے
ہی اندازہ ہوا ،اس نے سجاول علی خان کے زخم پر چیرا لگایا، خون دبا دبا کر
نکالا، کچھ جڑی بوٹیاں اپنے صافے سے نکل کر مسل کر سجاول کے منہ میں
زبردستی ڈالیں ۔کچھ کا لیپ اس کے زخم پر لگایا ۔ سجاول کی چہرے کی رنگت
معمول پر آتی محسوس ہونے لگی۔ سجاول نے جب آنکھیں کھولیں تو اس کا سر ہاجرہ
کی گود میں تھا۔ اس کی نظر ہاجرہ سے ملی تو مجھے محسوس ہوا جیسے وقت رک گیا
ہو، ہاجرہ برستی آنکھوں سے بے اختیار مسکرائی ، میں نے بارش اور دھوپ کا
خوبصورت امتزاج اس کے چہرے پر دیکھا، یک لخت حیا سے اس کا چہرہ گلابی ہوگیا
، سجاول کا سر اس کی گود میں تھا، اس احساس سے وہ سمٹی سجاول نے بھی گھبرا
کر فیضان کو آواز دی فیضان نے نے اس کو سہارا دیا۔ ہاجرہ اور میں بھی ان کے
پیچھے پیچھے واپسی کے لئے چل پڑے۔ طیب بھائی اور شاہنور پہلے ہی جیپ لانے
آگے آگے جاچکے تھے ۔ فیضان علی خان بھی ایک اچھی کاٹھی کا مضبوط جوان تھا،
مگر ابھی سجاول کو اکیلے اس کو سہارا دینے میں دقت ہورہی تھی۔سجاول کے پاوں
بے ترتیب ادھر ادھر پڑھ رہے تھے۔میں نے بے اختیار ہی سجاول کو دوسری طرف سے
پکڑ کر سہارا دیا ۔طیب بھائی جیپ لے کر آچکے تھے۔ہم فورا سجاول کو اس میں
ڈال کر ساہیوال لے گئے۔ پرائیویٹ ہاسپٹل میں سجاول کو داخل کروایا ،
ڈاکٹروں نے معائنہ کر کے تسلی دی کہ سجاول خطرے سے باہر ہے۔ مگر مکمل زہر
سے بچاو کے لئے اسے antidote نہ صرف دیا گیا بلکہ نگہداشت کے لئے داخل بھی
کرلیا گیا۔
ہاجرہ اور مجھے فیضان نے طیب بھائی اور شاہنور کے ساتھ واپس بھیج دیا ۔
ہاجرہ جیپ میں ایسے بیٹھی تھی جیسے اس کی کوئی قیمتی شئے کہیں گم ہوگئی ہوں
۔ اس کے بال ہوا سے بے ترتیب ہوگئے تھے۔اس کا سراپا ایک دعا میں ڈھل گیا
تھا۔ وہ مجھے اس وقت ہاجرہ نہیں بلکہ سجاول لگی ۔عشق والے کیسے شکل بدل
لیتے ہیں ۔میرا دل شہزادی کی دیوانہ وار محبت دیکھ کر گھبرا رہا تھا ۔میں
نے وحشت سے سوچا:
اگر شہزادے کی آنکھ نہ کھلی تو کیا سوئیاں چنتی، شہزادی زندہ رہ پائیگی؟
شہزادی کا عشق مجھے خوفزدہ کررہا تھا۔ میں نے دیکھا شام کے سائے گہرے ہوچکے
تھے، شہزادی ایک مجسمہ کی طرح ایستادہ تھی۔
میں نے اپنے پیار پر نظر ڈالی تو وہ مجھے ایک نرم پودا لگا جب کہ شہزادی کے
عشق کا درخت بہت گھنا اور تن آور تھا ، میں نے دکھی دل سے اپنے نوآموز اور
نوخیز پیار پر فاتحہ پڑھ لی، شہزادی کے پیار کی لمبی عمر کی دعا کی۔ کاش
میں نے" ان "کے پیار کی لمبی عمر کی دعا کی ہوتی۔ دور سے ظالم جادوگر دانت
نکوسے ہنس رہا تھا۔
(باقی آئندہ □□)۔ |