گُڑیا
پلاسٹک نہ نوری ہے نہ ناری
یہ گڑیائیں کتنی اچھی ہوتی ہیں نا پلاسٹک کی بنی ہوئی احساسات سے خالی،
تاثرات سے بھری گڑیا، سر بسجود، نہ امیدوں کے ڈراوے نہ سپنوں کی ڈور.یہ
چھوٹی ہوں تب بھی محفوظ، یہ بڑی ہوجائیں تب بھی دوپٹہ سینے پہ نہیں لینا
پڑتا، گدھوں کا ڈر جو نہیں ہوتا.یہ لاڈلی بھی ہوتی ہیں اور پیاری بھی،
انہیں تو جاہل سے جاہل شخص بھی زندہ نہیں گاڑ سکتا لیکن اگر کوئی گاڑ دے تو
یہ گڑیائیں آسیب بن جاتی ہیں۔ اس شخص کیلئے بھی جس نے انہیں سوئیاں چبھو کر
گاڑا اور اس کیلئے بھی جس کیلئے گاڑا اور شاید اس کیلئے بھی جن کے ساتھ
گاڑا۔ ہاں ناں گڑیاؤں کے ساتھ تو شریکے کے مسئلے مسائل بھی نہیں رہتے۔ یعنی
گھر میں کوئی چیز کھانے کی لاؤ تو اس کو کیوں زیادہ دے دی، مجھے کیوں کم
دی، میں بھی تو آپکی گڑیا ہوں۔ ماں باپ کی لڑائی بھائی بہناکے سیاپوں سے
سینکڑوں میل دور لاعلمی کا گھونگھٹ نکالے سر جھکائے بیٹھی رہتی ہیں۔ جس نے
جہاں رخ موڑ دیا وہاں رخ کر لیا، نہ سوال نہ جواب ، بس اطاعت ایسا نہیں کہ
یہ اطاعت نقصاندہ ہو گی یا ان کا وقار مارا جائے گا، بلکہ یہ انہیں ٹوٹنے
سے بچاتا ہے۔ پھر ہر دوسرا بندہ لاڈ اٹھا رہا ہے، گڑیا کا گھر بنا رہا ہے
جیسے گھرانے میں ایک نئے فرد کا اضافہ۔ گڈے گڑیا کی شادی کروانے والیاں
اپنے گھر سدھاریں لیکن گڑیا آج بھی کنواری، مقدس معصوم، گڑیا کی عمر تو
بلوغت کو بھی نہیں چھوتی۔ یہ بلوغت ہی تو بگاڑ لاتی ہے نا، وقت سے پہلے ہو
وقت پر ہو یا وقت پر یہ بلوغت ہی تو بربادی لاتی ہے۔ لیکن گڑیا اس سب سے
دور، بال باندھے، سر جھکائے احساسات سے خالی اور تاثرات سے بھری گڑیا گڈے
کی شادیوں میں نہ جہیز کی فکر، نہ رشتے داروں کی لیزر بیم جیسی نظروں کا
سامنا، نہ توقعات کا جلتا توا، اسکول کالج یونیورسٹِی، آفس جیسی آلائیشوں
سے پاک اور تو اور نہ بار بار رانگ نمبر سے آتے میسجز، نہ بہکاتے رال
ٹپکاتے پھڑ پھڑاتے گدھ۔ یہ بڑی خوبصورت مخلوق ہے بلکہ مخلوق نہیں یہ تو
گڑیا ہے۔ اس کا خمیر تو پلاسٹک ہوا نا اور پلاسٹک نہ نوری ہے نہ ناری۔ ایک
جیسے پلاسٹک سے بنی، کانچ کی آنکھوں والی پلکیں مٹکاتیں بہت ساری گڑیائیں۔
سرکو جھکائے فیکٹری کی بیلٹ سے گڑیا گھر کے سفر تک خاموش اور اطاعت گزار۔
اور ہاں وہ کیا کہتے ہیں اس کو وہ عالمی یوم حقوق ہاں عالمی یوم حقوق گڑیا
جیسے دن بھی نہیں ہوتے۔ ضرورت ہی نہیں پڑتی، سارے حق، سارے دن سارے ممالک،
ساری براردری، گڑیا کیلئے تو ایک ہی ہے نا۔
نہ بابل کا آنگن چھوڑنے کی پرابلم، نہ پیا دیس سدھارنے کی خوشی، نہ ساس
نندوں کے سنپولیے، کیونکہ وہ خود بھی تو پھر گڑیائیں ہی ہوتی ہے نا؟؟ اور
جب یہ گڑیا ہوتی تو پھر ان کا گڈا بھی ہوتا، کیونکہ آدم کو حوا چاہیے تو
گڑیا کو گڈا۔ بلکہ چاہیے کیا بھی، یہ تو ہم نے ہی مسلط کیے۔ گڑیا ہوتی تو
نہ رشتے ہوتے، رشتے نہ ہوتے تو کوئی خالہ چچا ماما اپنے بچے کیلئے آپ کو
منتخب نہ کرتا کیونکہ لڑکے تو گڑیوں سے نہیں کھیلتے نا۔ تو گڑیا ہوتی تو
سہیلی بھی گڑِیا، اور مالکن بھی گڑیا، ہم ہم نہ ہوتے گڈے ہوتے، اور گڈے بھی
وہ جن کو پڑھائی لکھائی، کیرئر جیسی علتیں نہیں پالنی پڑتیں، وہ بس ایک گھر
میں کھڑے پڑے، بالکونی سے جھانکتی گڑِیا کی طرف مسکرا کر نظریں ٹکائے رہتے۔
نہ بدنامی کا ڈر نہ کسی رشتے کا۔۔ اور بدنامی تو نیک نامی کی وجہ سے ہوتی
ہے۔ جتنا بڑا نام، اتنا ہی پاک صاف رہنے کی ذمہ داری، گڑیا کی نظروں کی
چھینٹ بھی پڑ جائے تو جب تب بیت اللہ کے سامنے متھا نہ ٹیک آئیں۔ اس وقت تک
آپ کا حشر حساب سب بائیں ہاتھ میں ۔۔ چاہےاعمال نامہ لکھنےوالے فرشتے خود
چھٹی پر ہوں ۔ وہ چھٹی پر تو ہو نہیں سکتے لیکن ایک طرح سے ہوتے بھی ہیں
کیونکہ ہمیں توبہ کیلئے ملنے والی مہلت چھٹی ہی تو ہوتی ہے۔
یہ نوٹ کرنے بیٹھے ہیں چغلی نہیں، اور چغلی کریں بھی تو کس کی ۔۔۔ گڑیا کی؟
گڈے کی؟ جو نہ بدنام، نہ نیک نام ۔۔۔ جو صرف نیوٹرل۔ کیونکہ نیک نامی تو
بدنامی ہی کا سبب بنتی ہے۔ جتنا شفاف جسم ہو گا نظریں اتنی پھسلیں گی، اور
کچھ اعمال تو چھونے سے میلے ہو جائیں۔ بس وہی بات ہے کہ گڑیا اور گڈا ہونے
میں ہی غنیمت ہے لیکن انگریزوں نے اس پر بھی فلم بنا دی ہے۔ جس میں گڑیا
سیریل کلر اور پھر بعد میں بیوی بھی آتی ہے۔ گڑِیا میں فحاشی اور خون خرابہ
ڈال دیا اور نام رکھ دیا چائلڈز پلے۔ قتل و غارت والی فلمیں مزے دار ہوتی
ہیں کہانی کے اعتبار سے، لیکن گڑیا گڑِیا کے ساتھ ظلم نہیں۔ ایک گڑیا ہی تو
انسان کی بچی باقی رہ گئی تھی ان انسانوں بھری دنیا میں تھی۔ اس کل یوگ میں
ایک گڈا ہی تو تھا جو انسان سے دو قدم آگے آدمیت پر فائز تھا۔ اس میں
احساسات ڈال دیئے، حیران نہ ہوں گڑیا انسان ہی ہے۔ جی ہے بالکل ہے۔ کیا
کہا؟ کیوں ہے؟ جی وہ اس لیے انسان ہے کہ انسان کا لفظ نسیان سے ہے، یعنی
بھولنے والا۔ تو گڑیا سے زیادہ انسان کون ہو گا جس کے پاس بھولنے کیلئے کچھ
ہے ہی نہیں۔ اور پھر ہم انسان کہاں بھولتے ہیں اب، اپنے دماغ کو پورا
استعمال نہیں کرسکتے تو کیا اس کا ٹھیکہ دوسروں کو دے دیا، مشینوں کو دے
دیا، ویکیوم ٹیوب ، فلاپی ڈسک، ہارڈ ڈسک، میموری چپس اور ایک انچ سے بھی کم
اب انسانیت میموری کارڈ میں بھی دستیاب ہے۔ پھر بھی چین نہ آیا تو لگے
مشینوں کو انسان بنانے۔ انہیں مصنوعی ذہات سے نوازنے ارے خود تو انسان بن
جاؤ، آدمی بھی نہیں انسان ہی بن جاؤ۔ کم از کم پتھر کے دور والے ہی بن جاتے
تو دوسروں کو پتھر کے دور میں پہنچانے کا جذبہ نہ ہوتا۔ جنون نا ہوتی، جان
ہوتی، جان تو ایک جرثومے میں بھی ہوتی ہے اور جرثومہ بھی تو انسان ہی ہوا
نا۔ دیکھو ایک سے دو ہوتے ہیں امیبا اور بھول جاتے ہیں۔ شاید اس سے زیادہ
سادہ سی قربانی اور ایثار کی بائیولوجیکل مثال نہ ملے۔ اور یہاں ہم نے
بیکٹیریا سے بھی وائیرس بنا لیے یعنی حیاتیاتی ہتھیار، کیا بات ہے نام میں
حیات ہے، اور کام میں ہتھیار تو پھر انسانیات سے گئے۔ گڑیاں انسان بنتی
جارہی ہیں، سب بھولتی جا رہی ہیں، تو پھر ہم لوگ کیا بنتے جار ہے ہیں؟ گڑیا
گڈوں کو نہ جاب کی ٹینشن، نہ ہی یہ فکر کہ ڈگری تو مل گئی اب نوکری کیسے
ملے گی، اور نوکری مل گئی تو ڈوپٹہ سینے پر لوں، یا گلے میں یا پھندا بنا
کے بھیڑیوں کے سامنے پھانسی لے لوں، بے روزگار ہو جاؤں، کیونکہ جو جاب دے
گا، وہ بھی کام بھی لے گا اور گڑیاؤں کا کام نہ جاب کرنا ہے نہ کام لینا ہے
بلکہ ان کیلئے تو کام کیا جاتاہے۔ پھر اگر جاب صحیح ہے تو ترقی کی دوڑ آگے
نکلنے کے چکر میں منہ کہ بل گرنے کا ڈر، بالوں میں آتے سفید بال آنکھوں کے
نیچے پڑتے حلقے، گڑیا تو نیچرلی خوبصورت ہوتی ہے۔ کچھ کرنے کی ضرورت ہی
نہیں پڑتی فیکٹری سے سرخی لگی ہوئی آئی تو قبر تک جائے گی۔ کوئی ایسے نہیں
کرنا پڑتا کہ بجھے ہوئے بوسیدہ ارمانوں پر غازے اور سرخی کا لیپ کر کے
دوبارہ سے چھ بائی چھ کے کیوبکل میں جا کر سج جاؤ، گڑیوں کو تو سجنا بھی
نہیں پڑتا انہیں تو ان کا مالک، ان کا باس، ان کا فیملی میمبر اپنے ہاتھوں
سے سجاتا ہے۔ اور یہاں آپ سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے کر بھی ہاتھوں ہاتھ نہیں
لے جاتے۔ کبھی سوچیں ایسا کیوں۔۔۔ آپ بھی کچھ سوچیں۔ میں ذرا یہ سوچ لوں کہ
یہ انٹرنیٹ ایک دم سے بند کیوں ہوگیا۔ اوہ ہاں گڈوں کو تو یہ فکر بھی نہیں
ہوتی کہ گھر پر نیٹ کون سا لگا ہے۔۔۔ چلیں چھوڑیں میں کوئی گڈا تھوڑی ہوں
جو آپ میری ہر بات اگنور کر دیں گے۔
دُعاؤں کا طلبگار محمد مسعود میڈوز نوٹنگھم یو کے
|