کربلا ایک درسگاہ!

 تاریخ میں بے شمار واقعات نے جنم لیا مگر گردش لیل ونہار میں وہ رفتہ رفتہ گم ہوتے گئے اور پھر فراموش ہی ہوگئے۔ لیکن واقعہ کربلا آج بھی اسی جاہ و جلا ل سے زندہ و آباد ہے جیسے چودہ صدی قبل تھا۔ بلکہ اس میں دن بدن میں نکھار ہی آتا چلا آیا ہے اور اس کے انمٹ نقوش آج بھی تاریخ کی پیشانی کا جھومر بنے ہوئے ہیں ۔ کربلا کے درخشاں کردار صدیوں سے ظلمات سے نور کی جانب ہدایت کررہے ہیں۔ یہ ایسی منفرد درسگاہ ہے جہاں مذہب و ملت کا بھید بھاو اور خرد و کلاں کی اونچ نیچ نہیں بلکہ یہاں سب برابر ہیں ۔
کربلا ، انسانیت کی درسگاہ ہے جہاں وہب کلبی آتے ہیں اور پیغام حریت دے جاتے ہیں کہ دیکھو ضمیر زندہ رہنا چاہئے تاکہ حق قبول کرنے میں مذہب و ملت دامن گیر نہ ہوں ۔ آپ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے لیکن جوں ہی صدائے حق کا علم ہوا، امام حسین علیہ السلام کی نصر ت کو چلے آئے اورامام کے قدموں میں اپنی جان نچھا ور کر کے حریت کے دیپ جلا گئے۔

واقعہ کربلا سے درس لیں ۔ اگر لذت دنیا تمہارے حوصلوں اور دین کے دفاع میں آڑے آرہی ہے تو سعید بن عبداللہ اور زہیر بن قین سے سیکھیں کہ جنہوں نے زرق برق دنیا سے کنارہ کشی کرکے اپنی قوت ایمانی کا یوں مظاہرہ کیا کہ نمازیوں کی حفاظت کے واسطے اپنے فولادی سینوں کو سپر بنا کر مستحکم پہاڑ کی مانند دین اسلام کے دفاع میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور دنیا کو بتلا جاتے ہیں کہ حکم امام کی اطاعت واجب چاہے خود کو نچھاور ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

اگر موت کا نام سن کر لرزہ طاری ہوجاتاہے تو ذرا اس تیرہ برس کے کمسن جناب قاسم کی شجاعت دیکھو جو بار بار آقا کی خدمت میں آتے ہیں اور اذن وغا کا سوال کرتے ہیں۔ جب مولانے شہادت کی یہ تڑپ دیکھی تو سوال کیا: بیٹا قاسم! موت تہمارے نزدیک کیسی ہے؟

جناب قاسم جواب دیتے ہیں: شہد سے بھی شیریں!

آپ بتا رہے ہیں کہ اگر دین پر وقت آن پڑے تو شہد سے بھی شیریں موت کی ہر گز پرواہ نہیں کرتے اور دین اسلام کی راہ میں خود کو نثار کردیتے ہیں ۔

اگر جوانی پیاری ہے اور لذت دنیا سے دل لگ گیا ہے تو ایک نظر ۱۸ برس کے کڑیل جوان علی اکبر پر ڈالو۔ آپ ہمشکل پیغمبر ہیں ۔ امام حسین علیہ السلام آپ کو جنگ سے منع فر مارہے ہیں لیکن شوق شہادت نے زندگانی دنیا کو تاریک بنا ڈالا ہے۔ اب صرف خود کو راہ خدا میں قربا ن کرنے کی تمنا باقی ہے۔ آپ میدان وغا میں جاتے ہیں ۔ دشمنوں کو واصل جہنم کرتے ہیں اور دنیا کو پیغام دیتے ہیں کہ’قاتلوھم حتی لاتکون فتنہ‘
اگر دوستی کی قدروں کو جاننا چاہتے ہو تو امام کے بچپن کے دوست حبیب ابن مظاہر سے درس وفا لو ۔ آپ امام علیہ السلام کا خط پاتے ہی نصرت حق کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ آتے ہیں اور امام وقت کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے حبیب کے حقیقی معنی بتلا جاتے ہیں۔

اگر تمہارے حوصلے سرد پڑگئے ہوں اور ضعیفی پاس و ناامید کے در پر لاکر کھڑا کر گئی ہو تو آو ضعیف مسلم ابن عوسجہ سے سبق حاصل کرو۔ ہاتھوں میں رعشے ضرور ہیں لیکن حوصلہ جوان ہیں ۔ فرماتے ہیں: قسم بخدا! اگر مجھے اس بات کا علم ہوجائے کہ میں قتل ہوجاوں گا۔ پھر زندہ کیا جاوں گا ۔ پھر مجھے جلا کر خاکستر کردیا جائے گا اور ایسا ستر مرتبہ کیا جائے گا تو بھی میں آپ سے جدا نہیں ہوں گا یہاں تک کہ آپ کی نصرت میں شہادت کے درجے پر فائز ہوجاؤں۔

اگر گناہوں کے بوجھ تلے دبے جارہے ہو تو حر کی طرح ندامت کی پٹی باندھ کر مولا کے حضور آو۔ تمہا را مولا کریم ابن کریم ہے۔ وہ تمہیں معاف کردے گا۔ حر،اما م علیہ السلام کی خدمت میں آتے ہیں ۔ اذن جہاد کا سوال کرتے ہیں اور جام شہادت نوش فرماکر اہل دنیا کو ایک ابدی پیغام سنا جاتے ہیں کہ ہم حر ہیں، دنیا میں بھی آخرت میں بھی!

یہ حسین کی درسگاہ ہے ۔ یہاں حر بنائے جاتے ہیں ۔ شب عاشور امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں: میں تمہاری گردنوں سے اپنی بیعت کا قلادہ اتارے لیتا ہوں ۔ ساتھ ہی جنت کی بھی ضمانت لیتا ہوں۔ جسے جانا ہے وہ جائے۔ آپ نے چراغ بھی گل کردیئے مگر جانے والا کوئی نہیں تھا بلکہ اصحاب اپنی وفاداری کا یوں ثبوت دیتے ہیں کہ مولا! اگر موت نے مجبور نہ کیا ہو تا تو ہم آپ کی نصرت کو ضرور پہونچتے!

یہ کربلا ہے ۔ یہاں اگر ششماہ مجاہد درس شجاعت دیتا تو ضعیف العمر جواں مردی کا پیغام!

یہاں درس آزادی اور پیغام حریت دیا جا تاہے ۔ وفاداری اور اخلاص کا سبق پڑھا یا جاتاہے۔ یہاں سے استقلال ملتا ہے۔ غلامی کی آہنی زنجیروں سے نجات کی راہیں ملتی ہیں ۔ طاغوتی قوتوں سے مقابلے کا حوصلہ ملتا ہے ۔ یہاں صبر، بندگی معبود، رضائے الٰہی اور انسانیت کا مجسم نمونہ نصیب ہوتاہے۔ یہ وہ درسگاہ ہے جہاں کا تعلیم یافتہ شخص، انسان کامل بنتا ہے ۔ اسے اگر نگاہ بصیرت سے دیکھا جائے تو ہر سو سے ’رضا بقضائہ و تسلمیا لامرہ‘ کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے ۔ یہ کرب و بلا ضرور ہے لیکن دلوں کو سکون عطا کرتی ہے ۔ یہاں مصائب و آلا م کے پہاڑ ضرور توڑ ےگئے ہیں لیکن کربلا ’ما رایت الا جمیلا ‘کے سوا کچھ نہیں۔