نیکی اور بدی آغاز حضرت آدم ؑ کی تخلیق کے ساتھ ہی
ہوگیاجب ابلیس نے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور راندہء درگاہ قرار
پایا۔ ابلیس نے بارگاہ خدا وندی میں مہلت طلب کی کہ وہ تا قیامت بنی نوع
انسان کو گمراہ کرتا رہے گا ۔ رب تعالیٰ نے مہلت دی اور ساتھ ہی ارشاد
فرمایا کہ جو میرا بندہ ہو گا وہ کبھی تمہاری پیروی نہیں کرے گا۔ یوں اس
مہلت کے نتیجے میں دو الگ الگ رستے وجود پزیر ہوئے ایک رحمٰن کا راستہ اور
ایک شیطان کا راستہ۔
اﷲ کریم نے اپنے بندوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے
صحائف مقدسہ کا نزول فرمایا اور اس الہامی پیغام کو سمجھانے ، سکھانے اور
عملی نمونہ بنا کر پیش کرنے کے لئے اپنے مقرب بندوں کو منتخب فرمایا اور ان
کو نبوت سے سرفراز فرما یا ۔ ان انبیاء کرام نے رب کا پیغام مخلوق تک
پہنچایا اور یہ سلسلہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفےٰﷺ تک پہنچا ۔ بعثت
نبوی کی صورت میں اس الوہی پیغام کو کاملیت نصیب ہوئی اور رب تعالیٰ نے
ارشاد فرمایا :
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا(المائدہ:۳)
سلسلہ نبوت کے اختتام کے بعد امت کی تربیت کی ذمہ داری اولیاء اﷲ اور صلحاء
امت پر آئی ۔ گوکہ تربیت کا جو سلسلہ نبوت کی شکل میں اختتام پزیر ہوا تھا
اس کو جاری رکھنے کے لئے رب تعالیٰ نے اپنے خاص اور برگزیدہ بندوں کو چن
لیا۔ یوں یہ اہل اﷲ دین مبین کی ترویج و اشاعت کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں
اور تا قیامت نبھاتے رہیں گے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ان اہل اﷲ کی نشانی ہی یہ
بتائی کہ ’’انہیں دیکھا جائے تو اﷲ یاد آجائے‘‘ ۔تاریخ گواہ ہے کہ جتنے بھی
انفاس قدسیہ اس منصب پر فائض ہوئے ہیں ہر ایک نے اپنی ذات کی نفی کر کے
مخلوق کو خالقِ کائنات کے ساتھ جوڑا۔ غافل انسانوں کو اپنے رب کی یاد دلاتے
ہوئے انہیں پروردگار کے حضور لا کھڑا کیا۔ گناہگاروں اور سرکشوں کے دل موم
کر کے انہیں مخلوقِ خدا کے لئے ذریعہ فیض رساں بنایا ۔ بھولے اور بھٹکے
ہوئے لوگوں کو راہ حق دکھا کر اُن کی پیشانیوں کو لذتِ سجود سے آشنا کیا ۔
انتقام و انتشار کی آگ سے نکال کر لوگوں کو پیار اور محبت کے پیامبر بنایا
۔ اپنے پاس آنے والوں کو بلا تفریق و امتیاز ’’عیال اﷲ‘‘ جانتے ہوئے ان کی
تعظیم کی اور حضور نبی کریمﷺ کی سنت مطہرہ کی پیروی کرتے ہوئے ہر کسی کی
حاجت روائی فرمائی۔
حضرت خواجہ میاں ولایت حسین چشتی صابری کلیامی ؒ بھی انھی برگزیدہ و چنیدہ
انفاس میں سے ہیں ۔ آپؒ خطہء پوٹھوہار کی عظیم خانقاہ کے بانی حضرت خواجہ
حافظ محمد شریف خان چشتی صابری کلیامی ؒ کے پڑپوتے اور شہباز لامکاں حضرت
خواجہ فضل الدین چشتی صابری کلیامی ؒ کے خلیفہ خاص حضرت خواجہ مولوی عبد
الستار چشتی صابری کلیامی ؒ کے خلیفہ ہیں ۔ بچپن ہی سے زہد و عبادت آپ کے
قلب و روح کی تسکین کا سامان رہی ہے ۔تہجد گزاری اور تلاوت قرآن آپ کے صغر
سنی سے ہی آپ کا معمول تھی ۔ مجاہدات کا عالم یہ تھا کہ شغل شمسی (سورج کے
سامنے پتھر کی سلوں پر لیٹ کر ذکر الٰہی کرنے ) جیسا مشکل ترین چلہ عمر
عزیز کے40برس تک جاری رکھا ۔حُسن اخلاق ایسا کہ آپ سے ملنے والا شخص ہمیشہ
ہمیشہ کے لئے آپ کا گرویدہ ہو جاتا ۔ کوئی بھی مہمان بنا کچھ کھائے آپ کے
پاس سے واپس نہیں لوٹ سکتا تھا۔آنے والوں کی ایسی عزت افزائی فرماتے کہ وہ
خود کو دنیا کا خوش نصیب ترین شخص محسوس کرتا اور دل ہی دل میں یہ گمان بھی
کرتا کہ شائد میں ہی وہ واحد شخص ہوں جس سے حضرت اس قدر محبت کرتے ہیں ۔
اولیاء اﷲ کا طریق رہا ہے کہ وہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت
مطہرہ کی پیروی کرتے ہوئے ہجرت کیا کرتے ہیں۔ اسی سنت نبوی پر عمل کرتے
ہوئے حکم خدا وندی سے آپ نے کلیام شریف سے ہجرت کی اور راولپنڈی سے تقریباً
20کلومیٹر دور پہاڑوں اور جنگلوں میں گھرے گاؤں مورت کو اپنا مسکن بنایا
اور وہاں کے جہالت زدہ معاشرے میں حلم و حکم کی وہ پھوار برسائی کہ وہاں کے
لوگ پیار اور محبت کی زبان بولنے لگے ۔ دور افتادہ علاقے میں مسافرین کو
بُلا بُلا کر لنگر پیش کیا اور اُن کے لئے سہولیات پیدا کیں ۔آپ نے خانقاہ
شریف میں ’’صابریہ ستاریہ تحفیظ القرآن ‘‘کے نام سے ایک درس قائم کیا اور
علاقہ کے بچوں کو قرآن کی تعلیم سے آراستہ کرنا شروع کیا۔ جو کہ اب اُس
علاقے کی ایک عظیم درسگاہ بن چکا ہے۔ یہاں طلباء کو قیام و طعام اورعلاج
معالجہ بالکل مفت ہے ۔ آپ نے اپنے جد و مرشد کا فیضان عام کر کے لوگوں کو
بیماری اور پریشانی سے نجات دلائی ۔کسی کے لئے دواء سے شفا کا سامان کیا
اور کسی کے قلب و روح کو دعاء کے ذریعے طہارت و پاکیزگی عطا فرمائی۔ باولے
کتے اور سانپ کے کاٹے کا علاج آپ کا خاص فیضان ہے ۔ آپ نے انتہائی سادہ
زندگی بسر کی جس میں کسی قسم کا تصنع اور بناوٹ قطعاً نہ تھی ۔ مریدین و
محبین سے تعلق میں کسی قسم کا فرق نہ رکھتے اور سب کی یکساں عزت افزائی
فرماتے ۔ ظاہری گزر بسر کے لیے آپ حکمت کیا کرتے تھے اور چند مخصوص دواؤں
کے لیے مریضوں کے حسب استطاعت ان سے فیس لیتے تھے۔ مریضوں کے آنے کا کوئی
وقت مقرر نہ تھا جب کسی کو حاجت ہوتی بلا تعمل آپ کے پاس حاضر ہو جاتا اور
آپ بخوشی اُس کی حاجت روائی فرماتے ۔ حتیٰ کہ رات کے کسی بھی پہر آگر کوئی
مریض لایا جاتا تو اُس کا علاج کرتے اور اس کے ساتھ آنے والے مہمانوں کی
خدمت بھی ۔
مخلوقِ خدا کی خدمت گزاری کے ساتھ ساتھ یاد خدا سے کبھی غافل نہ ہوئے۔ خشیت
الٰہی کی کیفیت یہ تھی کہ بارگاہ الٰہی میں استغفار کی کثرت رہتی ہمہ وقت
گریہ سے چہرے پر دونوں جانب آنسوؤں کی وجہ سے لکیریں بن چکی تھیں ۔ دنیاوی
زندگی کو اس حد تک عارضی جانا کہ عمر مبارک تقریباً 100سال تک پائی لیکن
ہمیشہ یہ نصیحت فرمائی کہ ’’زندگی ایک خواب ہے ‘‘ ۔ حُبِ سرکار دوعالم ﷺسے
سرشار دل ، پُر نم آنکھیں اور منتظر سماعتیں ہمیشہ سرکار مدینہ علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے تذکرے سننے کو بیتاب و بیقرار رہتی تھیں ۔ زبان ہر پل
ذکر پروردگار سے تر رہنے کی ایسی عادی ہوچکی تھی کہ حیات مبارکہ کے آخری
ایام میں آپ کومہ کی حالت میں تھے لیکن اس ظاہری بیہوشی میں بھی ذکر
خداوندی کے لئے دل ہوش میں تھا ۔ بستر مرگ پر کومہ کی حالت میں بھی ذکر
چلتا رہا ۔
ستمبر1998ء میں آپ کے لئے وصال حق کا پیغام آپہنچا مریدین و محبین کو
اشکبار کرتے ہوئے آپ نے وصال حق کے لئے کوچ فرمایا ہزاروں کی تعداد میں
مریدین اور محبین و متوسلین نے آپ کے جنازہ میں شرکت کی ۔آپ کا مزار پُر
انوار صابری آستانہ کھیری مورت تحصیل فتح جنگ ضلع اٹک میں مرجع خاص و عام
ہے ۔ آپ کی جانشینی آپ کے بڑے صاحبزادہ حضرت خواجہ میاں محمد عارف چشتی
صابری کلیامی مد ظلہ العالی کر رہے ہیں ، جنہیں آپ نے خلافت عطاء فرمائی
اور روحانی وراثت کا امین بنایا۔ میاں محمد عارف چشتی صاحب نے آپ کے نقشِ
قدم پر چلتے ہوئے کبھی بھی اپنی ذات کو مخلوقِ خدا پر فوقیت نہ دی۔ ہمہ وقت
مخلوقِ خدا کی خدمت اور بھلائی کے لئے کوشاں ہیں۔ آپ کی عمر مبارک 85سال ہے
مگر بیماری اور ضعف کے باوجود کبھی بھی اپنے آرام کی پروا نہیں کی ہمیشہ
مخلوقِ خدا کی خدمت کو اولین ترجیح رکھا۔اﷲ کریم آپ کی عمر مبارک میں بیش
بہا برکتیں عطا فرمائیں اور آپ کا سایہ تا دیر سلامت رکھے۔
حضرت خواجہ میاں ولایت حسین چشتی صابری کلیامی ؒ کا سالانہ عرس مبارک ہر
سال ستمبر کے آخری جمعہ ہفتہ اور اتوار کو منعقد کیا جاتا ہے جس میں محفل
شبینہ ، محافل ذکر و نعت ، ختم خواجگان ، محفل سماع اور چادر پوشی کی
تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ تقریبات کا اختتام بروز اتوار بعد نماز ظہر
سجادہ نشین صابری آستانہ مورت حضرت خواجہ میاں محمد عارف چشتی صابری کلیامی
مد ظلہ العالی کی اختتامی دعا سے ہوتا ہے ۔ امسال بھی عرس مبارک
28،29،30ستمبر2018کو صابری آستانہ پر منعقد کیا جا رہا ہے۔ |