کچھ لوگ پہلی نظر میں اچھے لگتے ہیں مگر دل میں نہیں
اُترتے اور کچھ لوگ سیدھے دل میں اُتر جاتے ہیں۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ پہلی نظر میں پسند نہ بھی آئیں لیکن وہ آہستہ
آہستہ دل میں اُتر جاتے ہیں اور مُستقل قیام پزیر ہو جاتے ہیں بلا اجازت ،
جھجکتے جھجکتے ،آہستہ آہستہ ۔
حامد کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا ۔
شائستہ ایک سنجیدہ لڑکی تھی ۔اپنے کام میں مصروف رہتی ۔دھیمے لہجے میں بات
کرتی ۔اُسے غصہ نہیں آتا تھا ۔ اگر آتا بھی ہو گا اور ضرور آتا ہو گا لیکن
شائد باہر نکالنا نہیں آتا ہو گا ۔
حامد کو اُس سے اُنسیت ہو گئ تھی ۔ وہ اُس کے دفتر میں کام کرتی تھی ۔
کام تو اور بہت سی لڑکیاں کرتی تھیں مگر دل میں نہیں اُتری تھیں ۔
شائستہ حامد کے کام کیا کرتی تھی ۔ نوکری تو اپنی جگہ تھی مگر وہ حامد کے
کام شوق سے کرتی تھی جو جو بتایا نہ جاۓ اور چھُپاۓ نہ چھُپے۔
وہ بناؤ سنگھار نہیں کرتی مگر ایک خاص قسم کی کشش رکھتی جو کم از کم حامد
کو اپنی گرفت سے نکلنے نہیں دے رہی تھی ۔
کبھی کبھی حامد اُس گرداب نکلنے کی کوشش کرتا اور تھوڑی دیر کے لئیے باہر
آبھی جاتا اور سوچتا کہ اس بھنور سے مکمل طور پر کیسے نکلا جاۓ ۔وہ آہستہ
آہستہ شائستہ کا عادی ہونے لگا ۔
آج حامد زرا سنجیدہ ہے ۔
وہ اپنے کمرے میں بیٹھا سوچ ہی رہا تھا کہ اس گرداب سے کیسے نکلا جاۓ ۔
اچانک کسی کام سے لڑکی اندر داخل ہوئی تو وہ حیرت سے دیکھتا ہی رہ گیا
حالانکہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اُس کے سراپے کے گرد لباس اور ڈوپٹہ لپٹا ہوا
ہے۔
شائستہ نے تو شائستگی کے ساتھ مُسکراتے ہوۓ صرف ایک نظر ڈالی تھی لیکن حامد
کی نظر تو ٹِک کر رہ گئ ۔
۔اُس لڑکی کے گال چمک رہے تھے ۔ آنکھوں میں کشش کئی گُنا بڑھ گئی ہے ۔ اُن
میں کالی گھٹا چھائ ہوئ ہے ۔ جیسے برسات کی آمد آمد ہو بلکہ طوفان آنے سے
پہلے کا منظر ہو ۔ طوفان تو حامد کے دل میں آچُکا تھا ۔ وہ اُس کی آنکھوں
میں ڈوب چُکا ہے اور سمُندر کی گہرائ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی
اور وہ اُس کے اندر اُترتا جا رہا ہے ۔
آج چودھویں کی رات ہے۔
چاندنی کا سفید لباس اور شائستہ کی آنکھوں کا سیاہ کاجل ، نیلے لباس والے
حامد کے اوپر وار کر چُکے تھے۔
چاندنی رات میں سمندر ٹھاٹیں مار رہا ہے جو حامد کو اپنے دل میں محسوس ہو
رہا ہے۔
کھلتے جا رہے ہیں گلاب آہستہ آہستہ
طلوع ہو رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
اُن کی آنکھیں ہیں یا سمندر ہیں
ڈوبتے جا رہے ہیں اعصاب آہستہ آہستہ
اُن کی زلفیں ہیں یا ناگن ہیں
ہم کو ڈسا بے حساب آہستہ آہستہ
اُن کا چہرہ ہے یا اک تحریر ہے
نعمان لکھ رہا ہے کتاب آہستہ آہستہ |