امام الانبیاء،خاتم الانبیاء،ھادی عالم،شافع محشر،حبیب ِ
رب العالمین،شفیع المذنبین ورحمۃ للعالمین حضرت محمد مجتبیٰ،احمد مصطفیٰ
صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ کریم نے صفات و کمالات کا جامع بنایا تھا،آپ ﷺکوقرآن
کریم کی صورت میں دائمی معجزہ عطا فرمایا،جب کہ زبان مبارک سے نکلنے والے
موتی ''جوامع الکلم ''ٹھہرے،اور ان کے بارے میں قرآنی اصول یہ ہے کہ ''اور
نہ خواہش ِ نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں۔ان کاارشاد تو وحی ہے جو(ان کی
طرف)بھیجی جاتی ہے۔(النجم۔3۔4) اسی طرح اﷲ کریم نے آپ ﷺ کو حکمت تامہ عطا
فرمائی جس کی تعلیم آپ کے فرائض ِنبوت میں شامل تھی،قرآن پاک میں رسول اﷲ ﷺ
کی بعثت کو ایمان والے کے لیے سب سے بڑی نعمت قرار دیتے ہوئے آپ کے فرائض
منصبی کو یوں ارشاد فرمایا''حقیقت یہ ہے کہ اﷲ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا
کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اﷲ کی آیتوں کی
تلاوت کرے،وہ انہیں پاک صاف بنائے،اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے،جب
کہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا ًکھلی گمرائی میں مبتلا تھے۔(ال عمران 164)
بعثت امام الانبیاء ﷺ سے قبل پوری دنیا گمراہی اور شرک کی ظلمتوں سے بھری
ہوئی تھی،''رسومات،توہمات،بدشگونیاں،اناپرستی،قتل غارت گری،بیٹیوں کو زندہ
درگور کرنا،ظلم،جبر،زنا،شراب نوشی،قمار اور جوئے ''سے مرکب معاشرے کی اصلاح
کے لیے ایک عظیم مصلح کی ضرورت کو صدیوں سے محسوس کیا جارہاتھا،بالآخرحضرت
محمد بن عبداﷲ ﷺرسول برحق،مبشر و نذیر،مدبرّ،مذکی،معلّم اور حکیم بن کردنیا
میں تشریف لائے،آپ ﷺ نے صرف23 سالہ عرصہ نبوت میں حکمت اور دانائی سے عربوں
کے نہ صرف عقائد،رسوم و رواج تبدیل فرمائے بلکہ ایک نئے معاشرے کی داغ بیل
ڈالی جس میں وحی الہی سے راہنمائی لی جاتی ہے،امن،مساوات،بھائی چارہ،امانت
و دیانت،ایمان اور اعمال صالحہ اس کی بنیادی اکائیاں ہیں۔تاریخ معترف ہے کہ
پیغمبر اسلام ﷺ سے زیادہ کامیاب شخصیت پوری نسل انسانی میں نہیں گزری ہے،جس
نے صرف دو دہائیوں میں اپنے مشن،کاز اور پروگرام میں اس انداز سے کامیابی
حاصل کی،کہ منیٰ میں کھڑے ہو کر ایک لاکھ سے زائد فرزندان ِ توحید کے سامنے
اعلان فرمایا''فزت و رب کعبۃ''رب کعبہ کی قسم میں اپنے مشن میں کا میاب ہو
گیا۔آپؐ نے اپنی کامیابی پر لوگوں کو بھی گواہ بنایاکہ تم سے میرے بارے میں
پوچھا جائے گا، پس تم کیا کہو گے؟ لوگوں نے کہا ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے
پیغام پہنچا دیا اور پوری خیر خواہی کے ساتھ ذمہ داری ادا کر دی۔ رسول اﷲؐ
نے اپنی شہادت کی انگلی آ سمان کی طرف اٹھائی اور اس کے ساتھ لوگوں لوگوں
کی طرف اشارہ کر کے کہا اے اﷲ گواہ رہنا، اے اﷲ گواہ رہنا، اے اﷲ گواہ رہنا۔(مسلم۔2137)
اﷲ کریم نے رسول اﷲ ﷺ کو علم وحکمت کا وافر حصہ عطا کیا ہوا تھا،آپ ﷺ ہر
ایک سے اس کی ذہنی سطح،مقام و مرتبہ اور نفسیاتی رجحان سے ہم آہنگ گفتگو
فرماتے،سمجھاتے اور کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے تھے،اسلام سے قبل جب کہ آپ ﷺ
کی عمر مبارک 25 سال تھی،بیت اﷲ شریف کی تعمیر نو کی گئی، جب حجر اسود کو
اپنی جگہ رکھنے کا موقع آیا تو یہ سعادت حاصل کرنے کے لیے مختلف قبائل کے
درمیان کشمکش شروع ہوئی، اور نوبت قتل وقتال تک پہنچ گئی، اس موقع پر مکہ
کے ایک بزرگ نے تجویز پیش کی کہ کل جو شخص سب سے پہلے کعبۃ اﷲ میں آئے
گا،وہ حجر اسود کو اپنی جگہ رکھے گا، کل سب سے پہلے کعبہ میں آنے والی
شخصیت آپﷺ کی تھی، چنانچہ آپﷺ نے ایک چادر منگوائی، اس کے وسط میں پتھر
رکھا، ہر ہر قبیلے سے ایک ایک نمائندہ طلب کیا، اور ان سب سے کہا کہ وہ
چادر کے کنارے پکڑ کر حجر اسود کو اس جگہ تک لے جائیں، جہاں اسے نصب کیا
جانا ہے پھر جب وہاں پہنچے تو اپنے دست مبارک سے پتھر کو اس کی جگہ نصب
فرمادیا، اس طرح آپ ﷺ کی حکمت اورتدبر سے ایک بڑے فتنے کاسد باب ہوا اور
حجر اسود اٹھانے کی سعادت بھی ہر قبیلہ کے حصہ میں آئی۔
رسول اﷲ ﷺ نے انسانوں کے دلوں سے شرک اور کفر سمیت ہر روحانی بیماری کے
خاتمے کے لیے حکمت بھری تعلیمات ارشاد فرمائیں،انسانی قلوب واذہان کو آسان
سے مشکل کی طرف،مشاہدے سے غائب کی طرف اور اجمال سے تفصیل کی طرف مائل
کیا،یہاں تک کہ ہر انسان کو احتساب اور جواب دہی کے تصور اور اﷲ کی رضا کے
حصول کے لیے پاکیزہ زندگی کو ہی اپنا مطمع نظر بنانا پڑا،یہی وجہ ہے کہ آپ
ﷺ کاکوہ صفا پر کھڑے ہو کر قریش والوں کو اسلام کی دعوت دینا ہو یاظلم و
جبر کے ماحول میں دعوت ِاسلام کو پھیلاناہو،صحابہ کرام کو اوامر اور نواہی
کی تعلیم اور اس کی حکمتوں سے آراستہ کرنا ہو یا کفر وشرک سے آلودہ قلوب کو
تعلیمات اسلام سے پاکیزہ بنانا ہو،خواص اوربادشاہوں کو توحید کی دعوت دینا
ہو یا غزوات و سرایا کے اعصاب شکن ماحول میں صحابہ کرام کے جذبوں کو تقویت
دے کر دشمن کو شکست سے دو چار کرنا ہو،دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی حقیقت
اور پائیداری کا یقین دلوں میں پیوست کرنے کے لیے حکیمانہ اسلوب اختیار
کرنا ہویا شریعت مطہرہ کے احکامات کی تعلیم دینا ہو،الغرض
عبادات،معاملات،انفرادی و اجتماعی امور، خانگی زندگی،حسن معاشرت،احکام
معیشت،تہذیب نفس،امور سلطنت اور حقوق و فرائض سے آگاہی،ہر ایک امر نبی کریم
ﷺ کی حکمت و بصیرت اور تدبر کی مکمل عکاسی کررہا ہے۔آپ ﷺ کی سیرت مطہرہ کے
کسی پہلو کو بھی لیا جائے ہر ایک میں حکمت و تدبر اور مخاطب کی ذہنی کیفیت
اور استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ ﷺ کے ارشادات امت کی راہنمائی کررہے
ہیں،آپ ﷺصفہ کے چبوترے میں استاد ہو ں یا مسجد کے منبر و محراب میں کتاب و
حکمت سے آراستہ کرنے والے مربی،میدان جہاد میں کمانڈر ان چیف کے طور پر
کمان کررہے ہوں یا کسی قافلے کے میرکارواں،اسلامی سلطنت کے حاکم کے طور پر
فرائض سرانجام دے رہے ہوں یا عام مسلمانو ں کے دکھ درد میں شریک ایک غمگسار
ساتھی،ہجرت مدینہ کے وقت ایک بے بس مسافر ہو ں یا سن 8 ہجری میں ایک عظیم
فاتح کی حیثیت سے ''آج رحم کا دن ہے،جاؤ! آج تم سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے
گا، تم سب آزاد ہو'' کا اعلان کرنے والا فاتح اعظم ﷺ،ہر پہلو سے آپ ﷺ نے
انسانی دلوں پر گہرے نقوش چھوڑے تھے،آپ ﷺ نیانسانی معاشرے میں قائم افراط و
تفریط کے تمام ضابطے اوررواج توڑ کر''مسلمان،مسلمان کا بھائی ہیں،وہ اس پر
ظلم نہیں کرتا اور اسے رسوا نہیں کرتا ''(بخاری)کا فلسفہ عطا کیا،عورت کو
معاشرتی پستیوں سے نکال کر ماں،بیٹی،بہن، بیوی کا مقام و مرتبہ دے کر عزت
دی، اسے وراثت میں حصہ دیا اور اس کے احساس کمتری کو اعتماد میں
بدلا،غلاموں کے حقو ق اوراحکامات ارشاد فرماکر معاشرے میں ایک مقام عطا
فرمایا،یتیموں کی کفالت کو دخول جنت کا سبب قرار دیا،انسانی سوچ و فکر کو
ارتقاء کی بنیادیں فراہم کیں۔
بلاشبہ نبی آخر الزماںﷺ نے ایک ماہر نفسیات اور حکیم ہونے کی حیثیت سے
انسانی استعداد کے موافق امور ارشاد فرمائے ہیں،ان میں سب سے اعلیٰ انسانوں
کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر ''اﷲ وحدہ لاشریک لہ ''کے در پر جھکا کر
دائمی کا میابیوں کا مستحق بنایا،سود،ناحق قتل اور طبقاتی تفریق کا خاتمہ
فرما کر شرف ِانسانی کو تقویت عطا فرمائی،چنانچہ آپ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع
کے موقع پر ارشاد فرمایا'' اے لوگو! بخدا مجھے معلوم نہیں کہ آج کے بعد میں
ا س جگہ تم سے مل سکوں گا یا نہیں، آگاہ رہو! جاہلیت کا ہر کام میں اپنے ان
دونوں قدموں کے نیچے دفن کر رہا ہوں۔اے لوگو! بے شک تمھارا رب بھی ایک ہے
اور تمھارا باپ بھی ایک۔ آگاہ رہو! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو
کسی عربی پر، کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو کسی
سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ تم میں سے
اﷲ کے نزدیک زیادہ عزت کا مستحق وہ ہے جو زیادہ حدود کا پابند
ہے۔(مسنداحمد)آگاہ رہو! جاہلیت کے زمانے کا ہر خون معاف کیا جاتا ہے، اور
زمانہ جاہلیت کے خونوں میں سے پہلا خون جس کو معاف کیا جاتا ہے، وہ حارث بن
عبد المطلب کا خون ہے۔ (حارث کو دودھ پلانے کے لیے بنو لیث کے ہاں بھیجا
گیا تھا جہاں اسے بنو ہذیل نے قتل کر دیا)۔(ترمذی)آگاہ رہو! زمانہ جاہلیت
کا ہر سود کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ تم صرف اپنے اصل مال کے حق دار ہو۔ نہ
تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ ہاں عباس بن عبد المطلب کا لوگوں کے
ذمے جو سودی قرض ہے، وہ سارے کا سارا معاف کیا جاتا ہے،بے شک تمہاری جانیں،
تمہارے مال، تمہاری آبروئیں (اور تمہارے چمڑے) تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے
اس شہر اور اس مہینے میں تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔(ترمذی)
اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ تمام انسانی مسائل چاہے وہ مادیت سے تعلق رکھتے
ہوں یا روحانیت سے،سب کا مکمل حل خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے
پُرحکمت ارشادات اور اعمال میں مضمر ہے،انہی اعمال کے فوائد کو سائنس
تجربات کے بعد ثابت کررہی ہے جب کہ 14 سو سال پہلے پیغمبر اسلام ﷺ نیاپنی
امت کو اپنی سنت کے طور پر وہ کام کرنے کی تلقین فرماچکے تھے۔اﷲ کریم آپ ﷺ
کی کامل اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
|