تحریر: عظمیٰ ظفر، کراچی
وہ انتہائی مرے مرے قدموں سے واپس آکر کرسی پر بیٹھ گئی۔کیا ہوا ماریہ کون
تھا دروازے پر؟ فیصل نے اسے یوں پریشان دیکھ کر پوچھا۔ کچھ نہیں شمو آئی
تھی بتانے کہ آج اس کی ماں کام کرنے نہیں آئے گی، اس نے روہانسی ہوتے ہوئے
کہا۔ تو!! اتنی غمزدہ کیوں ہو میں تو سمجھا پتا نہیں کیا بری خبر سن لی تم
نے۔ اچھا میں اب ائیرپورٹ کے لیے نکلوں، فیصل اسے ویسا ہی غمزدہ چھوڑ کر
آگے بڑھ گیا۔ ماریہ گھڑی کہاں رکھ دی میری؟ فیصل کی جھنجھلاہٹ نے اسے چارو
ناچار اٹھنے پر مجبور کردیا کام والی کا غم اسے اکیلے ہی منانا تھا بعد میں۔
فیصل نے جاتے جاتے اسے کئی ہدایات بھی کردیں۔ ماریہ کا ایک لمحے کو دل چاہا
کہ وہ فیصل کی جگہ میٹنگ میں اسلام آباد چلی جائے اور فیصل پیچھے گھر
سنبھال لیں مگر ’’ہزاورں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘۔
دروازہ بند کرنے والی ہی تھی کہ اس کی نظر کوڑے دان پر پڑی جسے بلی نے الٹ
دیا تھا اور کچرا باہر پڑا تھا۔ یہ آج کچرے والا کیوں نہیں آیا ابھی تک؟
اسی سوچ میں وہ اندر آگئی۔ شزا کے رونے کی آواز سنائی دی تو وہ اس کی طرف
بھاگی 6ماہ کی پھول سی شزا الٹی موشن سے مرجھا سی گئی تھی۔ اس کے کپڑے بدل
کر اسے دوا دی اور بستر پر لٹا کر اس نے کمرہ ٹھیک کرنا شروع کیا 3سال کا
فاخر ابھی سو رہا تھا۔ شزا بھی سو چکی تھی وہ آہستگی سے دروازہ برابر کرتی
ہوئی باہر نکل آئی۔
کچن کی حالت الگ بکھری ہوئی لگ رہی تھی رات کو فیصل کے دوستوں کی دعوت تھی
گندے برتن الگ پڑے تھے اور پھیلاوا الگ کام والی کی آسرے پر اس نے ویسے ہی
سب چھوڑ دیا تھا کیونکہ شزا نے ساری رات وقفے وقفے سے رو رو کر اسے ہلکان
کیا تھا۔ ماریہ کو اپنا سر بھاری بھاری لگنے لگا کہاں سے شروع کروں گندے
کپڑے الگ تھے جن کی ناگوار بو اسے پریشان کر رہی تھی کیا مصیبت ہے! ماسی کو
بھی آج ہی چھٹی کرنی تھی، اس نے دل ہی دل میں کہا۔
وہ اسے کوستی ہوئی کچن کی جانب بڑھی کہ فون کی گھنٹی بچنے لگی۔ فیصل کی کال
دیکھ کر جلدی سے فون اٹھا لیا۔ جی بولیں، اتنی جلدی پہنچ گئے ائرپورٹ آپ؟
اسے حیرت سی ہوئی، نہیں بھئی ابھی اپارٹمنٹ کے مین گیٹ پر ہوں آدھی رات کو
ڈاکوؤں نے گارڈ کو گولی مار کر ہلاک کردیا ہے۔ تم گھر اچھی طرح لاک کرکے
رکھنا امی بھی نہیں ہیں بچوں کو بالکل باہر مت بھیجنا نا اکیلے بازار جانا
جو بھی ہے گھر اسی پر گزارو کرو ، اﷲ حافظ۔ حسب عادت اپنی بات کہہ کر فیصل
نے فون بند کردیا۔
ماریہ جو صدا کی ڈرپوک تھی یہ خبر سن کر اور بھی خوف زدہ ہوگئی۔ اچانک اسے
محسوس ہوا کہ وہ اس پورے اپارٹمنٹ میں اکیلی ہو اپنے الگ گھر میں رہنے کا
شوق اسے شہر کے گنجان علاقے سے اٹھا کر ایک پرسکون سنسان علاقے میں لے آیا
تھا جہاں آبادی بھی کم تھی خود وہ لوگ بھی اس جگہ نئے تھے اس کی ساس ایک
ہفتے کے لیے اپنے دوسرے بیٹے کے پاس اسی پرانے گھر گئی ہوئی تھیں۔ ماریہ کو
وہ علاقہ چھوٹا لگتا تھا اور ملنے ملانے والے پڑوسی رشتے دار اسے کوفت میں
ڈال دیا کرتے تھے۔ جب دیکھو منہ اٹھا کر آجاتا ہے کوئی نا کوئی جبکہ اس جگہ
اتنا سناٹا تھا کہ کوئی آواز نہیں۔ بے ہنگم ٹین ڈبے مانگنے والیاں اور سبزی
والوں کی آوازیں سنے اسے مہینے گزر چکے تھے وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ
بجنے والی ڈور بیل نے اسے چونکا دیا۔کون ہے؟؟ ماریہ نے اپنے ڈر کو پس پشت
ڈالتے ہوئے بیٹھے بیٹھے پوچھا۔ اپنا ڈسٹ بن اندر کرلیں آج کچرے والا نہیں
آئے گا شاید۔ راستے سے گزرنا مشکل ہوگیا ہے۔ پتا نہیں کیسے چھوٹے لوگ آگئے
ہیں؟ جو بھی صاحب تھے اپنا غصہ نکالتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔
چھوٹے لوگ۔۔ چھوٹے لوگ۔ ماریہ کو یہ الفاظ بہت مانوس لگے مگر اس کہ سر پر
ہتھوڑے کی طرح برسے تھے کیونکہ وہ وہ خود ان الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا
کرتی تھی۔ اس کی نظر میں یہ سب چھوٹے لوگ تھے۔ کام کرنے والے محنتی جفاکش
ہاتھ ناپھیلانے والے گندے لوگ، آج تھوڑی ہی دیر میں ماریہ کو ان چھوٹے
لوگوں کی حیثیت پتا چلنے لگی تھی۔ ایک کچرے والا نہیں آیا تھا تو اس کی
بدبو سے اس کا گھر باہر تعفن زدہ تھا، معمولی چوکیدار آج گیٹ پر موجود نہیں
تھا۔ ماریہ کو لگا کہ وہ بہت غیر محفوظ ہے۔ کام والی ماسی نہیں آئی تو
ماریہ کو لگا آج کا دن ایک عذاب سے کم نہی ہوگا۔
خود برتن دھونا، جھاڑو لگانا، گھرصاف کرنا شزا کے الٹی والے گندے کپڑے۔۔۔
پھر ساس بھی موجود نہیں جو شزا کو سنبھال لیں تو وہ کچھ کام شروع کرے اکیلا
پن دوہرا عذاب لگنے لگا تھا۔ پوش ایریے کا لگژری فلیٹ نا آدم نا آدم زاد۔
کام اتنے تھے کہ اس کا سر چکرا گیا ۔ اب یہ کوئی پرانا محلہ تو تھا نہیں کہ
کسی کو بھی آواز دے کر بچے پکڑا دے اور خود دو گھنٹے کی نیند لے لے۔ کام
بھی مل جل کر کرنے والے موجود ہوتے تھے۔ مشورہ دینے والی بڑی بوڑھیاں بھی
جن کے گھریلو ٹوٹکے سے بچی کو آرام مل جاتا۔ ایسے ہی لوگوں کو چھوٹے لوگ
کہتی تھی مگر چھوٹے لوگ کتنے بڑے ہوتے ہیں آج اسے اندازہ ہوگیا تھا۔۔ آج
انہیں چھوٹے لوگوں کی عدم موجودگی میں وہ خود چھوٹے لوگوں میں شمار ہونے
لگی تھی۔
|