فسادی ( قسط نمبر٧)

معاشرہ کی خرابی کے ذمہ دار مجرموں سے ذیادہ جرم سہنے والے ہیں ۔

عارفہ اور وقار جب گھر واپس آ رہے تھے تو وقار نے عارفہ کو اداس اور پریشان دیکھتے ہوئے کہا۔ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ زندگی میں بہت کچھ ایسا ہو جاتا ہے ،جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے مگر زندگی کسی کے لیے کبھی نہیں رُکتی۔ آگے بڑھنے اور تجربات سے سیکھنے میں ہی بھلائی ہوتی ہے۔ عارفہ کسی اور ہی خیال میں گم تھی ۔ اسے اپنی طرف نہ متوجہ پا کر وقار نے اس کے ہاتھ کو ہلایا تو وہ پوری اچھل گئی۔ جیسے کسی نے اسے کوئی گناہ کرتے پکڑ لیا ہو۔ وہ گھبراہٹ میں فوراً سے بولی کیا ہوا؟
وقار نے پھر اسے تسلی دی۔ جو ہونا تھا ہو گیا۔ خدا کا شکر ادا کرو ، اس سے بُرا بھی ہو سکتا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں کہا۔ اس سے بُرا اور کیا ہو سکتا ہے۔ وقار نے کہا۔ عارفہ میں جانتا ہوں تم بہت حساس ہو۔ جو کچھ ہوا اس کا تم پر گہرا اثر ہوا ہےمگر دیکھو اللہ نے ہمیں کس قدر بڑی مصیبت سے بچا لیا۔ سوچو اگر جیل ہو جاتی ۔ میں تو سوچنا بھی نہیں چاہتا اس بارے میں ۔ اس لیے تم بھی پریشان ہونا بند کرو۔ عارفہ کی انکھوں میں سے آنسو چھلک گئے ۔ جنہیں وہ روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں کہا۔ کبھی کبھی گندگی انسان کو نہیں اس کی روح کو چھوتی ہے، وہ ظاہر سے نہیں باطن سے ناپاکی محسوس کرتا ہے۔ کچھ چیزوں کو ہم ایسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے آپ سے بھی نہیں کہتےمگر وہ ہمارے وجود کو دیمک کی طرح چاٹتی ہیں ۔کچھ راز بھی تو گند ہی ہوتے ہیں روح کا گند۔ کہہ دینے سے انسان ہلکا ہو جائے مگر کہہ نہیں پاتا۔
وقار نے اسے خود پر ضبط کرتے پایا تو بولا کھل کر رو لو ۔ رو لینے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ پیچھے بیٹھا ہوا ابو بکر بولا مما کیوں رو رہی ہیں۔ عارفہ نے گھور کر اس کی طرف غضب ناک انکھوں سے دیکھا ، جیسے وہ سات سال کا بچہ نہ ہو بلکہ کو سمجھ دار بالغ ہو۔ ابو بکر سہم گیا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کی ماں اس سے سخت نا راض ہے۔
وقار نے انہیں گھر چھوڑا ، خود کسی کام سے چلا گیا۔ گھر پہنچتے ہی عارفہ نے ابو بکر کو دونوں بازوں سے پکڑ کر ذور سے جھنجھوڑا ۔اسے خوب بُرا بھلا کہا۔ وہ اسے اس طرح ذلیل کر رہی تھی ،جیسے کہ وہ اس کی ہر بات سمجھ رہا ہو۔ وہ ڈر کر بھاگا ۔ جب وہ کمرے میں آئی تو ابو بکر کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے چیخ کر اسے ڈراتے ہوئے سامنے آ نے کا کہا۔ مگر وہ سامنے نہیں آیا۔ عاتکہ بھائی بھائی کہتی ہوئی اسے تلاش کرنے لگی ۔ وہ الماری میں چھپا بیٹھا تھا۔
عاتکہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ بھائی بھائی مما رو رہی ہے۔ مما رو رہی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ابو بکر باہر آ کر عارفہ کو چپ کروانے لگا۔ عاتکہ بھی عارفہ کے سر کو چوم رہی تھی۔ مما لگ گئی آپ کو کہا ں لگ گئی۔ ابو بکر نے روتے ہوئے کہا۔ مما سوری۔ اس نے عارفہ کو پانی کا گلاس لا کر دیا۔ عارفہ پانی کا گلاس لے کر ابو بکر کی طرف دیکھنے لگی۔ ابو بکر بھی اداس اور سہما ہوا لگ رہا تھا۔
عارفہ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ابو بکر اور عاتکہ اداس اور ڈرے ہوئے کمرے کے باہر ہی دروازے کے پاس کھڑے تھےوہ تکیہ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ عارفہ سوچنے لگی ۔ کیا کوئی سزا دینا درست اقدام ہے۔ اس طرح چھوٹے بچوں کی تذلیل کرنے پر کیا واقعی ہم انہیں یہ احساس دلا سکتے ہیں کہ وہ غلط ہیں یا پھر ان کی نظر میں ہم ہی غلط ہوتے ہیں ، قصور رمشہ یا ابو بکر کا نہیں ،قصور تو ہمارا ہے ۔ ہم بچوں کو اس طرح سے سمجھا ہی نہیں پاتے ،جس طرح سے سمجھانا چاہیے۔
اسے بچوں کی نفسیات سے متعلق وہ کتاب یاد آئی جو ابو بکر کی پیدائش سے پہلے وقار نے اسے لا کر دی تھی۔ پہلے بچے کی پیدائش سے پہلے اس نے اچھی ماں بننے کی خواہش کی تھی۔ وہ خواہش ابو بکر پیدائش کے بعد ایک بے عمل خواہش بن کر رہ گئی۔ اس نے دوبارہ کبھی اس کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا ۔ نہ ہی بچوں کی نگہداشت اور نفسیات سے متعلق کوئی کتاب پڑھی تھی۔ اسے آج اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہو رہا تھا۔ کتاب میں کیسے صاف صاف سمجھایا گیا تھا کہ ہم بچوں کو بڑوں ہی کی طرح چیزیں سمجھاتے ہیں اور یہ تصور کر لیتے ہیں کہ وہ سمجھ گئےجبکہ بچوں کی دنیا ان کے سوچنے سمجھنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ طمانچہ اور ڈانٹ بچوں کو ڈرا ضرور دیتے ہیں مگر روک نہیں سکتے۔ بچوں کو فقط جذبات کے تاثر سے روکا جا سکتا ہے۔
وہ سوچ رہی تھی کہ کیسے چیخ چیخ کر پکارنے سے بھی ابو بکر باہر نہیں آیا مگر رونے کی آواز سن کر باہر آ گیا۔عاتکہ آ کر عارفہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی۔ ابو بکر دروازے پر ہی کھڑا افسردگی سے عارفہ کو دیکھ رہا تھا۔ عارفہ نے ایک نظر ابو بکر پر ڈالی ۔ اس کی انکھوں میں آنسو تھے۔ عارفہ نے اسے اپنے پاس بلایا۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا عارفہ کے پاس آ گیا۔ عارفہ نے روتے ہوئے کہا۔ قصور آپ کا نہیں میرا ہے۔ میں ہی آپ کو ٹھیک سے سمجھا نہیں پائی۔ ابو بکر عارفہ سے لپٹ گیا اور ذور ذور سے رونے لگا ۔ سوری مما ۔ پھر کبھی ایسا نہیں کروں گا۔ عارفہ نے اسے مذید کچھ نہیں کہا ۔وہ سمجھ چکی تھی کہ سمجھانے سے پہلے سمجھنا لازمی ہے۔ بچوں کو دلائل اور نصیحتوں کی نہیں محبت اور ان کے سوالوں کی تشفی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ نیکی ، بدی اور جنت دوزخ کو نہیں سمجھ سکتے بلکہ ان کے نزدیک جنت سے کہیں ذیادہ اہم وہ ٹافی ہوتی ہے جو ان کی نظر کے سامنے ہو۔ بچوں کو لیکچر دینا فضول ہے۔ عارفہ نے اسے گلے لگا لیا اور دھیرے سے کہا۔ مجھے آپ پر یقین ہے۔دل ہی دل میں عارفہ نے کہا۔ میں جانتی ہوں کہ مجھے کیا اب کیا کرنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفاق کی حالت دیکھ کر نصرت حیران رہ گئی۔ وہ کوئی بھکاری لگ رہا تھا۔آفاق نے بھیگی آنکھوں سے ارحم کو نصرت کی گود سے لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے تو ارحم انجان ہاتھوں کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر رونے لگا۔
نصرت دم بخود کھڑی آفاق کو دیکھ رہی تھی۔ آفاق نے اسے دروازہ کھولنے کا کہا۔ نصرت کبھی پرس کو ٹٹول رہی تھی کبھی آفاق کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے دروازہ کھولا ، گھر میں داخل ہوتے ہی آ فاق نے اپنی امی کا پوچھا تو نصرت نے آمنہ اور تنزیلہ سے متعلق بتایا ۔ آفاق رونے لگا۔ نصرت نے بتایا کہ تنزیلہ کی حالت اب پہلے سے بہتر ہے۔ آمنہ کا مگر ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل رہا ۔ مامو ں اپنی کوشش کر رہے ہیں ۔ اللہ مددگار ہے ۔وہ ضرور راہ نکالے گا۔ آپ کہاں تھے ؟ ہم نے آپ کو بہت تلاش کیا۔ ماموں تو مایوس ہو گئے تھے مگر میرا دل کہتا تھا ۔ آپ ضرور آئیں گئے۔
آفاق نے افسردگی سے کہا۔ میری چھوڑو بعد میں بتاتا رہوں گا۔ اس وقت تو مجھے ہوسپٹل جانا ہے ۔ امی کو دیکھوں گا۔ یہ کہہ کر وہ کپڑے بدلنے اُٹھ کھڑا ہوا۔ نصرت بھی شکرانے کے نفل پڑھنے کے لیے وضو کر رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس والوں نے خرم کو ہوٹل سے کھانا لیتے ہوئے پکڑ لیا ۔ خوب مار کٹائی کے بعد اس نے اس جگہ کا پتہ بتایا جہاں انہوں نے آمنہ کو رکھا ہوا تھا۔ پولیس نے آمنہ کو اس کے ماموں کے حوالے کر دیا۔ دونوں لڑکوں کو جیل میں ڈال دیا۔ ان کے خلاف گاڑی کی چوری اور موبائل چھننے کی رپورٹ لکھ دی گئی۔
آمنہ کو چار دن تک ان تینوں نے جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ،جس وجہ سے وہ حواس باختہ تھی۔ وہ کسی کو بھی نہیں پہچان رہی تھی۔ آفاق کے ماموں نے بتایا کہ ان لڑکوں میں سے ایک کو ضمانت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نصرت آفاق اور ماموں کی باتیں سن رہی تھی۔ آفاق کو اس کے ماموں افسردگی سے بتا رہے تھے کہ اس لڑکے کی ضمانت کسی وزیر نے دی ہے۔ نصرت سے رہا نہیں گیا ، وہ اندر چلی گئی اور دھیرے سے بولی ۔ ماموں آپ جانتے ہیں ، ان لوگوں نے ہماری آمنہ کے ساتھ کیا کیا ! اس کے باوجود آپ نے اسے کیسے جانے دیا۔ انہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آفاق نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔ ہم آمنہ سے متعلق رپورٹ نہیں کروا سکتے ۔ جو ہونا تھا ہو گیا۔ نصرت نے حیرت سے آفاق کی طرف دیکھا۔ مطلب آپ مجرم کو سزا نہیں دلوائیں گئے۔ ماموں نے نصرت کی طرف دیکھ کر بیزاری سے کہا۔ یہاں مجرموں کو سزا کم ملتی ہے اور اس قسم کی خبریں لوگ مزے لے لے کر پڑھتے اور سنتے ہیں ۔ آمنہ کے ساتھ جو ہوا آپ لوگ بھی بھولنے کی کوشش کرو۔
ماموں نے آفاق کی طرف دیکھ کر کہا ، اپنی ٹانگ کا ٹھیک سے علاج کرانا۔ اس وڈیرے کا کیا کرنا ہے۔ آفاق نے کچھ دیر منہ نیچے جھکا کر کچھ لمبی سانسیں لیں اور تھوک کو نگلتے ہوئے بولا۔ کچھ نہیں ۔
ماموں جا چکے تھے ۔ نصرت حیرت سے آفاق کی طرف دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی، کیا یہ وہی آفاق ہے جس کو اپنے زور بازو پر کل تک بہت بھروسہ تھا۔ جو عورتوں کو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی سیکھ دیتا تھا۔ آج جب اپنے گھر کی بات آئی تو اس طرح خاموشی اختیار کر لی ، کیوں ۔ اس نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا۔ ہم اجتمائی طور پر ایک سے ہی ہیں ۔ کچھ فرق نہیں پڑتا ، کوئی نصرت کا باپ ہو یا پھر آمنہ کا بھائی ۔ ہر کوئی اپنی عزت کو بچانا چاہتا ہے۔ عورت محض مردوں کی عزت ہی ہے یا کچھ اور بھی۔ نصرت کے اندر سے پھر فساد برپا کر دینے والی آواز ابھری۔
اسے اپنی پھوپھو یاد آ رہی تھی ۔ جن کی موت کی وجہ کسی نے جاننے کی کوشش بھی نہیں کی۔ وہ آمنہ کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ ماموں کے جانے کے بعد نصرت نے آفاق سے دبے لفظوں میں کہنے کی کوشش کی کہ یہاں ظالم اسی لیے ذور آور ہیں کہ انہیں سزا نہیں ملتی۔معاشرہ کی خرابی کے زمہ دار مجرموں سے ذیادہ جرم سہنے والے ہیں ۔
آفاق نے تھوڑی دیر نصرت کی طرف گھور کر دیکھا اور پھر قدرے غصے سے کہا، تم کیا چاہتی ہو کہ ہم رہی سہی عزت کا بھی جنازہ نکال دیں ۔ تم اپنا فلسفہ اپنے پاس رکھو۔ یہ جذباتی ہونے کا وقت نہیں ہے۔ امی ٹھیک کہتی ہیں ۔ میں نے ہی غلطی کی۔ اسے اتنی چھوٹ دے کر۔ مجھے کیا خبر تھی کہ وہ ایسا کرئے گی۔ نصرت نے آمنہ کی طرف داری کرتے ہوئے کہا۔ آپ آمنہ کو کیسے قصور وار کہہ سکتے ہیں ۔ آفاق نے غصے سے کہا ۔کیا وہ میرے جاننے والے تھے۔ ہر عمل کا ایک ردعمل تو ہوتا ہے ۔ آمنہ کو غلط حرکتیں کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھے۔ ماموں جب بتا رہے تھے تو تمہیں اندازہ بھی نہیں میری کیا حالت ہو رہی تھی۔گٹر میں چھلانگ لگانے سے پاکیزگی نہیں ،گندگی ہی ملتی ہے ۔ آمنہ کو ایک بار بھی خیال نہیں آیا۔ دوستیاں کرنے سے پہلے ۔ میرا ، امی کا۔
نصرت نے افسردگی سے کہا۔ ایک غلطی کی اتنی بڑی سزا۔آفاق نے انکھیں بند کر کے تکیہ کے ساتھ ٹیک لگا لی۔ نصرت افسردگی سے باہر آگئی۔ اس نے دل میں سوچا ، میرے چاہنے نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے ۔ آفاق اگر رپورٹ نہیں کروانا چاہتے تو ۔۔۔۔ارحم کے رونے کی آواز سن کر وہ اس کے پاس چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عارفہ ابو بکر اور عاتکہ کے ساتھ بیٹھی تھی کہ وقار آفس سے جلدی واپس آ گیا۔ عارفہ سوچ رہی تھی کہ کیا اسے بچوں سے متعلق وقار کو بتانا چاہیے یا نہیں ۔ وہ کیا کہیں گئے ۔ ان کا ردعمل کیا ہو گا۔ کیا مجھے ان سے یہ بات چھپانی چاہیے ۔ وہ اسی کشمکش میں تھی ۔عاتکہ اپنی گڑیا لے کر عارفہ کے پاس آ گئی۔ مما اس کے بال بنائیں ۔ وقار نے عارفہ کو کھویا ہوا دیکھا تو اس نے عاتکہ کو اپنے قریب کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ بیٹا آپ کی مما تو لگتا ہے انکھیں کھول کر سو رہی ہیں عاتکہ نے ہاتھ عارفہ کے چہرے کے پاس لائے تو وہ ان کی طرف متوجہ ہوئی۔
عارفہ نے وقار کی طرف دیکھا اور پھر دل ہی دل میں سوچا ،وقار کو بتانے سے کیا ہو گا۔بچوں کو دیکھنے کی زمہ داری تو میری ہے۔ وقار نے عارفہ کوپھر سے کھویا ہوا پایا تو اس نے عارفہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کیا کوئی پریشانی ہے۔ عارفہ کی زبان سے ہاں نکل گیا۔ وقار نے فوراً سے دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔ کیا ہوا۔ بتاو۔ عارفہ خاموشی سے وقار کی طرف دیکھنے لگی۔ اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ رمشہ کی بات بھی اس نے بہت مشکل سے وقار کو بتائی تھی۔ اب ایسی بات کیسے؟ اس نے ایک سرد آہ بھری ۔ وہ میری ایک دوست بتا رہی تھی کہ اس نے ایک آرٹیکل پڑھا ہے ، وقار اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ وہ بات کو بنا کر وقار کی رائے لینا چاہ رہی تھی کہ وہ اس بارے میں کیا کہے گا۔اس نے بچوں کی عمروں کو نو اور سات سال بتا کر بات رکھی۔ تا کہ وقار کو کوئی شائبہ نہ ہو کہ وہ اپنے بچوں کی بات کر رہی ہے۔ وقار نے غصے سے کہا۔لوگ کیسی گھٹیا باتیں تحریر کرنے لگے ہیں ۔ کوئی بھائی اپنی بہن سے ایسا کیسے کر سکتا ہے۔ عارفہ نے افسردگی سے کہا۔ آپ عمر بھی تو دیکھیں نا ۔ بچے کہاں ایسی چیزوں کو سمجھتے ہیں ۔
وقار نے غصے سے کہا ، ایسے میں پھربچوں کو بلکل ایک دوسرے سے الگ کر دینا چاہیے۔ عارفہ نے پریشانی سے کہا ۔ اس طرح تو وہ کبھی بھی اس چیز کو بھول نہیں پائیں گئے ۔ ان کے دل و دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوں گئے۔ وقار نے الجھتے ہوئے کہا۔ دفع کرو۔ اس قسم کی بے ہودہ باتوں سے متعلق سوچنا ہی بے کار ہے۔ اللہ ہی رحم کرئے آج کل کے لوگوں پر ۔ بچے پیدا کر کے بس چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہ نہیں کہ ان پر توجہ بھی دیں ۔ عارفہ نے ایک نظر افسردگی سے وقار کی طرف دیکھااور واش روم چلی گئی۔ وہ کافی دیر روتی رہی۔ پھر اسے وقار ہی کی بات کانوں میں گونجتی ہوئی محسوس ہوئی۔ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ زندگی میں بہت کچھ ایسا ہو جاتا ہے ،جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔اس نے اپنے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔وہ افسردگی سے بچوں کے کمرے میں آ کر بیٹھ گئی۔ وہ انہیں دیکھنے لگی۔ابو بکر اور عاتکہ گھر بنا رہے تھے۔ عاتکہ اپنی گڑیا کی گود میں چھوٹی سی گڑیا بٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔عارفہ نے ابو بکر کو دیکھا جو گھر کی دیواروں کو ٹھیک سے جوڑ رہا تھا۔ ابو بکر نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ دیکھو دیکھو عاتکہ ،میں نے گڑیا کے گھر کی دیواریں جوڑ دیں ۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ،دونوں بچوں کو الگ کرنا کسی صورت بھی مناسب نہیں ۔ ہر بات ہر کسی کو نہیں بتائی جا سکتی۔وقار کبھی بھی خود کو بچوں کی جگہ رکھ کر نہیں سوچ پائیں گئے۔ کبھی بھی نہیں۔ ہر مسلہ کو عقل سے حل کرنا عقلمندی نہیں ،کچھ مسائل کو حل کرنے کے لیے دل کا سہارا لینا ذیادہ مناسب رہتا ہے۔
عارفہ نے بہت سی کتابیں بچوں کی نفسیات سے متعلق پڑھنا شروع کی ۔ اس نے نیکی بدی ، جنت دوزخ سے ہٹ کر صفائی کو صحت سے جوڑ کر اور گندگی کو بیماری سے جوڑ کر بچوں کو سمجھایا ۔ جو چیزیں وہ سمجھتے اور محسوس کر سکتے تھے ،ان سے متعلق تصورات ان کے لیے بنانا آسان تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے آداب سمجھاتے ہوئے وہ لیکچر سے گریز کرتی ۔ بچوں کے سوالوں کو غور سے سنتی ۔ بچوں کو بولنے کا موقع دیتی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنزیلہ گھر آ چکی تھی۔ آمنہ ابھی بھی ہوسپٹل میں تھی۔آفاق اپنی امی کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ رو رہی تھی۔ کیا بنے گا اس لڑکی کا ؟ مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی۔ سوچا تھا اس کی شادی کروں گی۔ کون شادی کرئے گا اس سے۔ آفاق نے افسردگی سے امی کی طرف دیکھا۔ کچھ دیر خاموشی سے امی کی باتیں سننے کے بعد بولا ۔ امی کل آمنہ ہوسپٹل سے ڈسچارج ہو رہی ہے۔ آپ اس کے سامنے اس قسم کی باتیں نہ کریں ۔ جو ہونا تھا ہو گیا۔ اب کچھ بھی کہنے سننے سے فائدہ ۔ تنزیلہ نے غصے سے کہا ۔ اس کے سامنے نہیں کروں تو کس کے سامنے کروں ۔
آمنہ سترہ دن کے بعد گھر آئی تھی۔ کچھ دنوں میں انسان کی زندگی کس قدر بدل جاتی ہے ،اس نے دل ہی دل میں سوچا ۔ وہ بھائی جو اس کے نا ز نخرے اُٹھاتا تھا۔ اس سے بات بھی نہیں کر رہا تھا۔ اس کی ماں بات بات پر اس کو بُرا بھلا کہہ رہی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں محصور ہو کر رہ گئی تھی۔ کوئی نہیں تھا ،جو اس سے اس کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہو یا اس کو تسلی دے۔ کوئی نہیں تھا۔ جس سے وہ اپنے دل کا حال کہہ پاتی ۔ اس نے رو رو کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔ اب اسے نادیہ کی باتیں سمجھ آ رہی تھی۔ وہ ٹھیک کہتی تھی۔دیکھو آمنہ تم جو کر رہی ہو نا ، تم پچھتاو گی۔ زنا سے متعلق تم جانتی ہو ، آمنہ کو اپنی ہی آواز نے وجود سے سر اُٹھا کر رولا دیا۔ ارے کیسا زنا ۔ موبائل سے تھوڑا ہی ہوتا ہے زنا۔
نادیہ کی آواز نے اسے ایک دھچکا لگایا، ہوتا ہے،ہوتا ہے زنا۔ جیسے فحش چیزیں دیکھنے سے آنکھ کا زنا ہوتا ہے۔ اسی طرح فحش باتوں سے کان کا زنا ہوتا ہے۔سمجھی ۔ زنا کاری اسلام میں حرام ہے۔ غیر محرم سے کیسے بات کر سکتی ہو تم ۔تھوڑی سی لذت کے لیے تم گناہ مول لے رہی ہو۔ لذت ختم ہو جائے گئی اور گناہ قیامت تک رہے گا۔ خود پر جبر کرو اور اس موبائل کو صرف ضرورت کے وقت یا اچھی باتوں کو سیکھنے کے لیے استعمال کرو۔ نفس کو قابو کرنا جہاد اکبر ہے۔ آمنہ کو اپنی ہنسی کی آواز اپنے وجود کو توڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔ نادیہ تم بھی نا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے تمہیں کالج میں نہیں کسی درس میں ہونا چاہیے۔ ارے چھوڑو یار ۔

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281054 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More