تحریر: عائشہ عارف، گجرانوالا
ارے ارے یہ دیکھو ایک طرف وہ انسانیت بلک رہی تڑپ رہی ہے سسک رہی ہے ڈوب
رہی ہے اور دوسری طرف وہ غیر مسلم ایک ڈالفن کو بچانے میں جتے ہوئے ہیں۔
کیسے محنت ولگن سے اسے صحیح سالم باہر لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور کوئی
بھی ہمارے مسلم ساتھیوں کی مدد نہیں کر رہا کوئی بھی انھیں باہر لانے کی
کوشش نہیں کررہا۔ کس قدر انسانیت کی توہین ہورہی ہے۔ جسے اشرف المخلوقات
کہا گیا ہے اس پر ایک ڈالفن کو فوقیت دی جارہی ہے۔ عائشہ کا دکھ تھا کہ کم
ہی نہیں ہو رہا تھا۔ وہ مسلسل ان بے کس و لاچار مسلمانوں کے بارے میں سوچ
رہی تھی۔ دل ہی دل میں ان کے لیے دعا گو تھی۔ جب سے اس نے وہ موازناتی
تصویر دیکھی تھی۔ تذلیل انسانیت اور توہین انسانیت مسلسل اس کے ذہن میں
گونج رہے تھے یہ الفاظ۔
یار تْم نے رات کیسی تصویریں شیئر کیں توبہ میں تو ڈر گئی۔ اریب بھی فوراً
بولی میں تو اسٹیٹ کا کام کرنے کے لیے اٹھی تھی اور اﷲ اتنی خوفناک پکچرز
یار میں کچھ کر نہیں سکی پھر۔ مریم بولی تمھارا بھلا ہو بہن مجھے توایسا
کچھ سینڈ ہی نہ کیا کرو میں تو سو ہی نہیں سکی۔ مجھے تو وہ بچہ ہی نہیں
بھولتا خون میں لت پت چہرہ سارا۔ عائشہ ابھی کلاس میں داخل ہوئی تھی اور
سلام کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے جو وہ اپنی نشست کی طرف بڑھتے ہوے معمول
کے مطابق سب کو اونچی آواز میں کیا کرتی تھی مگر آج مکمل بھی نہ کر سکی تھی
اور کل کی شیئر کی ہوئی تصویروں پر ریمارکس سننے کو ملے۔
ہاں ایسے ہی تو کمنٹس آئے تھے واٹس ایپ پر بھی ہم نہیں دیکھ سکتے ایسے
اسٹیٹس مت لگایا کریں۔ کوئی کہہ رہا تھامیرا دل تو بہت نرم ہے میں نہیں
دیکھ سکتی۔ وہ خاموش رہی اور چپ چاپ جاکر اپنی نشست پر بیٹھ گئی۔ چند منٹ
بعد ٹیچر کلاس میں آئی اور کمپیوٹرکا لیکچر شروع ہوا۔ لیکچر کے بعد فری
پیریڈ تھا کچھ لڑکیاں کتابیں لے کر کالج لان میں چلی گئیں اور کچھ لڑکیاں
اپنے فیورٹ ڈراموں پر گفتگو کرنے لگیں۔ وہ اب بھی چپ چاپ بیٹھی تھی۔ جیسے
مسلسل کچھ سوچ رہی ہو۔
سر عابد کا پیریڈ شروع ہوا وہ کچھ تفریحی انداز میں پڑھانے کے قائل تھے۔
اسٹوڈینٹس سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ کرنا ان کا معمول تھا۔ اسٹوڈینٹس ریاضی
جیسے سبجیکٹ کو بور سمجھتے ہوئے اسے کم توجہ دیتے لیکن وہ اسی کلاس کا
ماحول سب سے زیادہ خوشگوار بنا دیتے کہ اسٹوڈینٹس کو ہمیشہ ان کے پیریڈ کا
انتظار رہتا۔
جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ کوئی بھی سانحہ گزرے کم ازکم ایک دن تو اس کے بارے
میں ہر طرف بات ہوتی ہے خواہ وہ اسکول کالج اور نجی و غیر نجی ادارے ہوں۔
تو خلاف معمول سر عابد بھی آج سوگوار سے تھے۔ طالب علم جو ان کے شوخ و مزاح
انداز کے عادی تھے فوراً بھانپ گئے اور وجہ پوچھنے لگے۔ وہ بولے شام و برما
کے حالات سے تو سب واقف ہیں۔ کیا حال ہو رہا ہے ہمارے مسلمز کا اور ہم کتنے
آرام سے انگریزوں ہندووں کو باتیں کر کے خود بری الزمہ ہوجاتے ہیں۔ وہ ایک
ڈالفن کو بچانے کی سعی کرتے ہیں تو ہم انہیں بے حس کہتے ہیں اور خود ہم اس
دکھ کی گھڑی میں بھی ان کے چینلز بند نہیں کرتے۔ اگر ہم ایک دوسرے کو ان کے
حال سے باخبر رکھنے کے لیے ان کی تصویریں سینڈ کرتے ہیں تو فوراً پیغام
ملتا ہے کہ ہم یہ نہیں دیکھ سکتے۔
ارے عجب عالم ہے ہم ان کی محض تصویریں نہیں دیکھ سکتے مگر جن پریہ سب بیت
رہی ہے ان کا کیا حال ہوگا۔ اتنا بول کر سر خاموش ہوگئے۔ تو عائشہ جو ساکت
سی سب سن رہی تھی کھڑی ہوئی اور بولنے لگی جی سر درست کہا آپ نے ہم یہ سب
دیکھ نہیں سکتے تاکہ کہیں ہمیں ان کا دکھ محسوس نہ ہوجائے۔ درست کہا آپ نے
سر ہم یہ نہیں دیکھ سکتے کیونکہ کہیں ہمارے دل جو پتھر ہوچکے ہیں کہیں نرم
نہ ہوجائیں۔ ہمارے دل ٹی وی ڈراموں کے ایموشنل سین کیلیے ہی نرم رہیں۔
حقیقی زندگی میں اپنے مسلمان ساتھیوں کے حال سے ہم باخبر نہیں رہنا چاہتے
اور واقعی کتنی آسانی سے ہم غیروں کو الزام دے کر خود بری الذمہ ہوجاتے
ہیں۔
وہ تو غیر مسلم ہیں۔ ان کے بارے میں تو نہیں کہا گیا کہ وہ اور مسلم آپس
میں بھائی بھائی ہیں۔ مسلمز کے بارے میں کہا گیا ہے کہ سب مسلمز آپس میں
بھائی بھائی ہیں اور ایک مسلم کی تکلیف دوسرے کو اپنے جسمانی عضو کی طرح
محسوس ہونی چاہیے۔ مجھے گلہ ان ڈالفن کو بچانے والوں سے نہیں ہے۔ مجھے گلہ
اپنے ہم وطنوں اور اپنی ہم مذہب لوگوں سے ہے۔ جو غیر ہمارے مسلمز کو دکھ دے
رہے ہیں ہم ان ہی غیر مسلمز کو دن رات اپنے ٹی وی چینلز پر دیکھتے ہیں۔
اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کے طریقوں کو چھوڑ کر انہیں فالو کرنے
میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایسے حال میں بھی اپنوں کے لیے دعائے خیر نہیں
کرتے۔
مجھے گلہ خود سے ہے کہ میں کیوں بے خبر رکھتی ہوں خود کو اپنے مسلمز کی
سختیوں سے شاید اس لیے کہ کہیں میں ان کی حالت زار دیکھ کر اپنی پڑھائی
ٹیسٹ چھوڑ کر ان کیلیے رحمت مانگنے کے لیے اپنے رب کے آگے نہ جھک جاؤں۔ اس
کی آواز بھرا گئی تھی۔ سب اسٹوڈینٹس جو صبح اعتراض کر رہے تھے انہیں جواب
فوری تو نہ ملا مگر مل چکا تھا۔ ہر کوئی اپنی جگہ شرمندہ تھا۔سر عابد بولے
بالکل ہم سب سے زیادہ بے حس ہیں کہ دعا کیلیے عاجزی سے جھکتے تک نہیں اور
اگر سب مسلمز یکسو ہو کر دعا کیلیے ہی ہاتھ اٹھا لیں تو دعا کی طاقت تو سب
جانتے ہیں۔ |