تحریر ام محمد عبداﷲ ، جہانگیرہ
یہ طائف کی شاداب باغوں ،لہلاتے کھیتوں اور سبز نخلستانوں کی حسین وادی ہے۔
یہ خوشحال لوگوں، دنیا پرستوں، خودغرضوں اور خدا فراموش اخلاق باختہ
فرعونوں کا مسکن ہے۔ یہ سنہ 10 نبوی کا واقعہ ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و
آلہ وسلم اہل مکہ کے مسلسل مظالم اور دعوت توحید کو ٹھکرانے کے باعث طائف
جا کر تبلیغ کا قصد فرماتے ہیں۔ مکہ سے قریبا ساٹھ کلومیٹر دور اس وادی تک
کا طویل سفر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت زید بن حارثہ (رض) کے ہمراہ پیدل طے
فرماتے اور قبیلہ بنو ثقیف کے سرداروں کو حق کا پیغام دیتے ہیں۔ وادی کے یہ
متکبر سردار دعوت حق کو نہ صرف جھٹلاتے ہیں بلکہ جوابا وہ اذیت ناک رویہ
اختیار کرتے ہیں جسے الفاظ میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔حضرت عائشہ صدیقہ
فرماتی ہیں ایک روز میں نے آنحضور صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا۔ یا
رسول اﷲ ! احد کا دن آپ پر بہت سخت تھا ، کیا اس دن سے زیادہ سخت دن بھی آپ
پر کوئی آیا؟آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ سفر طائف کا دن
تھا۔ آپ کا جسم اطہر زخموں سے چور ہے۔جوتے لہو سے بھر چکے ہیں۔ اسی تکلیف
کے عالم میں ایک طرف نگاہ اٹھاتے ہیں تو مکہ جانے والی شاہراہ ہے جہاں دعوت
توحید کے جواب میں ذہنی و جسمانی اذیتیں ہیں اور دوسری طرف طائف ہے جہاں کے
باشندے ایذا رسانی میں اہل مکہ کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ اس حالت میں آپ
صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم دعا فرماتے ہیں۔ یا اﷲ !مجھے کس کے سپرد کر رہا ہے
ان غیروں کے جو میرے ساتھ شقاوت سے پیش آئے یا ان کے جن کو تو نے ان کے
منصوبوں میں کامیاب ہونے کا یارا دے دیا ہے۔ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے،
تو مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔ اس لئے کے تو میرے لئے کافی ہے۔ میں تیرے دامن
عافیت میں پناہ لیتا ہوں۔ میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے اس نور کی ، جس
سے سب تاریکیاں منور ہو جاتی ہیں۔ میں تیری رضا پر راضی ہوں۔تمام قوتوں کا
سرچشمہ اور منبع تیری ہی ذات اقدس ہے۔ اﷲ تبارک وتعالی پہاڑوں پر متعین
فرشتے ملک الجبال کو آپ کے پاس بھیجتے ہیں۔ فرشتہ آپ سے مخاطب ہوتا ہے۔ اے
محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم !بے شک اﷲ تعالی نے آپ کی قوم کی باتیں سن لیں۔
میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اﷲ تعالی نے مجھے آپ کی خدمت اقدس میں بھیجا ہے۔
آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم جو حکم دیں گے'میں فورا بجا لاوں گا۔ آپ حکم دیں
تو میں ان دو پہاڑوں کے بیچ میں ان سب طائف والوں کو پیس ڈالوں۔ ملک الجبال
کی یہ بات سن کر آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں۔ نہیں،نہیں ایسا ہر
گز نہیں کرنا۔ مجھے امید ہے کہ ان شاء اﷲ ان کی آئندہ نسلوں میں کوئی ایسا
ہوگا ' جو اﷲ تعالی کی عبادت کرے گا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں
ٹھہرائے گا۔
عرب کے علاقوں پر بنو امیہ خاندان کی حکومت ہے۔ عراق کا گورنر حجاج بن یوسف
ہے۔ لنکا کے جزیرے میں عرب تاجروں کا ایک بحری جہاز سمندری طوفان کی بدولت
راستہ بھٹکتا ہوا سندھ کی بندرگاہ دیول کے کنارے آلگا ہے۔ یہاں کے لٹیروں
نے مسافروں کا مال و اسباب چھین کر عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا ہے۔ اس
واقعے کی خبر حجاج بن یوسف کو ہوتی ہے اور وہ قیدیوں کی مدد کا فیصلہ کرتا
ہے۔ حجاج بن یوسف فوج کا سپہ سالار ایک سترہ سالہ نوجوان محمد بن قاسم کو
مقرر کرتا ہے۔ محمد بن قاسم ایک سچا سپاہی اور اعلی درجے کا شہ سوار ہے۔
محمد بن قاسم اپنی فوج کے ہمراہ مکران کے راستے دیول پہنچتا ہے۔ مسلسل سات
دن کی سخت لڑائی کے بعد دیول فتح ہوتا ہے۔ قیدی رہائی پاتے ہیں۔ راجہ داہر
فاتح دیول محمد بن قاسم کو خط لکھ کر دھمکی دیتا ہے۔ ایک چھوٹا شہر دیول
فتح کر کے اپنے آپ کو بڑا فاتح نہ سمجھ لینا۔ اب اگر تم نے اس سے آگے قدم
بڑھائے تو سوچ لینا کہ میرے بہادر سپاہی اور جنگی ہاتھی تمہارا کیا حشر
کریں گے۔ محمد بن قاسم جواب لکھتے ہیں۔ تجھے اپنے سپاہیوں اور ہاتھیوں پر
بھروسہ ہے اور مجھے اپنے اﷲ کے کرم پر بھروسہ ہے یا تو میں تجھے شکست دوں
گا یا پھر اﷲ کے راستے میں اپنی جان پیش کروں گا۔ محمد بن قاسم راستوں میں
کئی شہروں اور قلعوں کو فتح کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ وہ جو بھی شہر یا
علاقہ فتح کرتے ہیں وہاں کے لوگوں کو مکمل امان دی جاتی ہے۔ کوئی قتل و
غارت لوٹ مار نہیں کی جاتی۔ ہندووں کے مندروں کو مسمار نہیں کیا جاتا۔ پوجا
پاٹ پر پابندی نہیں لگائی جاتی اور یوں اپنے اعلی اخلاق اور عمدہ عملی
نمونے سے شہر ہی نہیں دلوں کو فتح کرتے ہوئے محمد بن قاسم ملتان( جو اس وقت
سندھ کا ہی صوبہ تھا ) تک پہنچ جاتے ہیں۔ محمد بن قاسم کے سندھ سے چلے جانے
کے بعد سندھ اور ملتان کے لوگ آپ کے اچھے اخلاق اور کام کی وجہ سے آپ کو
مدتوں یاد کرتے ہیں۔ ہندو محمد بن قاسم کو انسان کے روپ میں سندھ کی حالت
سدھارنے والا دیوتا تصور کرتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ محمد بن قاسم کوئی دیوتا نہیں۔ وہ سندھ کو باب الاسلام
بنانے والا وہ اﷲ کی طاقت پر بھروسہ رکھنے والا وہ کمسن نڈر اور جانباز سپہ
سالار وہ کوئی اور نہیں وہ اہل طائف کی اولاد تھا۔ وہ میرے پیارے نبی صلی
اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے صبر کی وجہ سے اہل طائف کو عطا ہوا۔ وہ میرے پیارے
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے صبر کی وجہ سے سرزمین ہندوستان کو اسلام کے نور سے
منور کر گیا۔ وہ میرے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے صبر کی وجہ سے
دین حق کا تحفہ ہمیں دے گیا۔ وہ میرے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے
صبر کی وجہ سے دیول کے کنارے پاکستان کی بنیاد رکھ گیا۔
تو کبھی دیکھا، کبھی سوچا، کبھی غور کیا آپ نے پاکستان کی بنیاد میں کیا
ہے؟ اس سرزمین کی بنیاد میں میرے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا صبر
ہے۔ تبلیغ دیں کے لئے استقامت ہے۔ معرکہ حق و باطل میں اﷲ تعالی کی ذات
برحق پر کامل یقیں و بھروسہ ہے۔ اس سرزمین کی بنیاد میں اعلی انسانی اور
اخلاقی قدریں ہیں۔ پاکستانیو! وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو۔ تم اس
سرزمین پر پیغام توحید ہو۔ تمہیں تقلید کے لئے نہیں امامت کے لئے بنایا گیا
ہے۔ اپنا منصب، اپنی ذمہ داری پہچانو کہ پاکستان کوئی معمولی ریاست نہیں۔
پاکستانی ہونا کوئی معمولی اعزاز نہیں۔
|