میں اللہ کا شکر ادا کرتاہوں کہ آج مجھے حسد کے بارے میں
لکھنے کا موقع ملا۔
حَسد ایک ایسی بیماری ہے جس میں تقریباً ہم سب کسی نہ کسی طریقے سے مبتلا
ہیں۔ امام غزالی ؒ کی کتاب ’’تبلیغ دین‘‘ جس کا اردو ترجمہ مولانا محمد
عاشق الٰہی میرٹھی ؒ نے کیا ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 101 پر امام عزالی ؒ
حسد کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ حسد کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص کو فارغ
البالی اور عیش و آرام میں دیکھ کر کلسے اور اس کی نعمت کے جاتے رہنے کو
پسند کر ے۔ حسد کرنا حرام ہے چناچہ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے پر
نعمت دیکھ کر حسد کرنے والا گویامیری اس تقسیم سے ناراض ہے جو میں نے اپنے
بندوں میں فرمائی ہے(یہ آیت نہیں بلکہ زکریہ علیہ السلام کا قول ہے کہ حق
تعالیٰ یہ فرماتے ہیں )۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہ
حسد نیکیوں کو اس طرح جلا دیتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑیوں کو جلا دیتی
ہے(ابن ماجہ)۔ البتہ ایسے شخص پر حسد کرنا جائز ہے جو اللہ کی دی ہوئی نعمت
کو ظلم یا معصیت میں خرچ کر رہا ہو مثلاً مالدار شراب خوری اور زناکاری میں
اڑا رہا ہو۔ لہذا ایسے شخص سے مال چھن جانے کی آرزو کرنا گناہ نہیں ہے
کیونکہ یہاں درحقیقت مال کی نعمت چھن جانے کی تمنا نہیں ہے بلکہ اس فحش و
معصیت کے بند ہو جانے کی آرزو ہے اور اس کی شناخت یہ ہے کہ اگر مثلاً وہ
شخص اس معصیت کو چھوڑ دے تو اب اس نعمت کے جاتے رہنے کی آرزو بھی نہ رہے
یاد رکھو کو عموماً حسد کا باعث یا تو نخوت و غرور ہوتا ہے (تکبر)اور یا
عداوت و خباثتِ نفس کو بلاوجہ خدا کی نعمت میں بخل کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ
جس طرح میں کسی کو کچھ نہیں دیتا۔ اسی طرح حق تعالیٰ بھی دوسرے کو کچھ نہ
دے ، البتہ دوسرے کو نعمت میں دیکھ کر حرص کرنا اور چاہنا کہ اس کے پاس بھی
یہ نعمت رہے اور مجھے بھی ایسی ہی حاصل ہو جائے غبطہ کہلاتا ہے اور غبطہ
شرعاً جائز ہے۔ کیونکہ غبطہ میں کسی کی نعمت کا ازالہ (دور کرنا) مقصود
نہیں ہوتا بلکہ اس جیسی نعمت کے اپنے آپ کو حاصل ہو جانے کی تمنا ہوتی ہے۔
اور اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ حسد قلبی مرض ہے اس کا علاج ایک علمی ہے
اور ایک عملی ہے، علمی علاج تو یہ ہے حاسد کو جاننا چاہیے کہ اس کا حسد اسی
کا نقصان پہنچا رہا ہے اس محسود (حسد کیا ہوا)کا جس پر حسد کر رہا ہے کچھ
بھی نہیں بگڑتا بلکہ اس کا تواور نفع ہے کہ حاسد کی نیکیاں مفت میں اس کے
ہاتھ آرہی ہیں بر خلاف حاسد کے کہ اس کے دین کا بھی نقصان ہے اور دنیا کا
بھی۔ دین کا نقصان تو یہ ہے کہ اس کے کئے ہوئے نیک اعمال حبط (ضبط) ہوئے
جاتے ہیں نیکیاں چلی جاتی ہیں اور حق تعالیٰ کے غصے کا نشانہ بنا ہوا ہے
کیونکہ اللہ تعالیٰ کے وسیع خزانہ کی بے شمار نعمتوں میں بخل کرتا اور
دوسرے پر انعام ہونا چاہتا ہی نہیں۔ اور دنیا کا نقصان یہ ہے کہ حاسد ہمیشہ
رنج و غم میں مبتلا اور اسی فکر میں گھلتا رہتا ہے کہ کسی طرح فلاں شخص کو
ذلت و افلاس نصیب ہو پس جس پر حسد ہے اس کے لئے بھی خوشی کا مقام ہے کہ
مجھے رنج پہنچانا چاہتے تھے اور خود ہر وقت کے رنج میں گرفتار ہو گئے لہذا
اس کے حسد سے اس کی تو مراد پوری ہو گئی اور حسد کرنے والا بڑے خسارہ میں
رہا۔ تمہیں سوچو کہ تمہارے حسد کرنے سے محسود کو کیا نقصان ہوا، ظاہر ہے کہ
اس کی نعمت میں کسی قسم کی بھی کمی نہیں آئی بلکہ اور نفع ہوا کہ تمہاری
نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں درج ہو گئیں ، کیسا الٹا قصہ ہوا حاسد چاہتا
تو یہ تھا کہ محسود دنیا میں تنگ دست ہو جائے اور نتیجہ یہ نکلا کہ اس کی
نعمتیں بحال رہیں اور دین کی نعمت نفع میں ملی اور حاسد نے عذابِ آخرت بھی
سررکھا اور اپنی قناعت و آرام کی زندگی کو رخصت کرکے ہر وقت کی خلش اور
دینوی کوفت خریدی یہ تو ایسی صورت ہو گئی کہ دشمن کے ڈھیلا مارنا چاہتا تھا
اور وہ اپنے ہی آلگا کہ جس سے اپنی آنکھ پھوٹ گئی اور طرہ یہ کہ دشمن یعنی
شیطان کو بھی ہنسنے کا موقع مل گیا ۔ خصوصاً اگر کسی عالم یا متقی پر حسد
کیا جائے کہ اس کا علم و تقوی زائل ہو نے کی تمنا ہو تو یہ حسد سب سے زیادہ
بُرا اور بدتر ہے۔ حسد کا علاج یہ ہے کہ حسد کا مقصود تو یہ ہے کہ تم محسود
کی عیب جوئی کرو اور رنج و غم کے گھونٹ رات دن پیو لہذا تم نفس پر جبر کرو
اور قصداً اس کے منشا ء کی مخالفت کرکے اس کی ضد پر عمل کر ویعنی محسود کی
تعریفیں بیان کرو اور ان کے سامنے تواضع اور اس نعمت پر خوشی و مسرت کا
اظہار کرو جو اسے مرحمت ہوئی ہے جب چند روز بہ تکلیف ایسا کرو گے تو محسود
بھی نہ رہے گا اور اس رنج و غم سے تم کو نجات مل جائے گی جس میں حسد کی وجہ
سے تم مبتلا رہے تھے۔ شاید تم کو یہ شبہ لاحق ہو کہ دوست ہیں اور دشمن میں
فرق ہونا تو انسان کا طبعی امر ہے اور اپنی اختیاری بات نہیں کہ جس طرح
اپنے دوست کو راحت میں دیکھ کو خوشی ہوتی ہے اسی طرح دشمن کو بھی راحت میں
دیکھ کر مسرت ہو اکرے اور جب اختیاری بات نہیں تو انسان اس کا مکلف بھی
نہیں ہو سکتا لہذا میں کہتاہوں کہ بے شک اتنی بات صحیح ہے اور اگر اسی حدتک
بات رہے تو گناہ بھی نہیں لیکن اس کے ساتھ جتنی بات اختیار ی ہے اس سے بچنے
کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور وہ دو امرہیں ایک یہ کہ یہ اپنی زبان اور اعضا
اور افعال اختیار یہ میں حسد کا اثر مطلق نہ ہونے دو۔ بلکہ نفس پر جبر کرکے
اس کی ضد پر عمل کرو جیسا کہ ہم اوپربیان کر چکے ہیں ، دوم یہ کہ نفس میں
جو حسد کا مادہ موجود ہے جو اللہ کی نعمتوں کو بندوں پر دیکھنی پسند نہیں
کرتا اس کو دل سے مکروہ سمجھو اور یہ خیال کرو کہ یہ خواہش دین کو برباد کر
دینے والی ہے ان دو باتوں کے بعد اگر طبعی امر باقی رہے یعنی دل بے اختیار
چاہے کہ دوست خوش حال رہیں اور دشمن پامال ہوں تو اب اس کا خیال نہ کرو
کیونکہ جب اس کے ازالہ پر تم کو قدرت حاصل ہو جائے تو اپنی طبیعت سے تمہاری
خواہش یہی ہو کہ کاش اس کی نعمت چھن جائے مگر اپنے ہاتھ پاؤں سے ایسا
انتظام نہ کرو یا مثلاً محسود کی نعمت کے قائم رہنے یا بڑھانے میں مدد دے
سکتے ہو تو باوجود اس کے ناگوار گزرنے کے اس کو مد د دو اگر ایسی حالت ہو
جائے تو سمجھ لو کہ جہاں تک اختیار اور قابو ہے یہاں تک ہم نے خدا کے حکم
پر عمل کر لیا اور سبکدوش ہو گئے ۔ ایسی صورت میں طبعی بات کا دور کرنا
اپنے قبضہ میں نہیں ہے اور موجود تو ہے مگر چونکہ اختیاری کاموں نے اس کو
چھپا اور دبا لیا ہے اس لئے گو یا معدوم ہو گئی ہے اور یہ بھی یاد رکھو جن
کی نظر عالم دنیا سے اُٹھ جاتی ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ دنیا بھی
ناپائیدار ہے اور اس کی تمام نعمتیں بھی فنا ہونے والی ہیں پس اگر اپنا
دشمن فراخی یا وسعت و آرام ہی میں ہے تو کتنے د ن کے لئے اگر اعمال کے سبب
مرنے کے بعد دوزخ میں جانے والا ہے تو اس کم نصیب کو اس چند روزہ آرام سے
کیا نفع ، اگر جتنی ہے تو جنت کی نعمتوں کو اس ناپائیدار نعمت سے کیا
مناسبت ۔ پس حسد کرنا اور دشمن کو دنیا کی کسی خوشی میں دیکھ کر جلنا بہر
حال محض بے سود اور عبث ہوا۔ ساری مخلوق خدا کی پیدا کی ہوتی ہے اور سارے
آدمی اپنے پیارے خدا کے غلام ہیں پس محبوب کی طرف سے جو انعام ہوں ان کے
اثر ان کے غلاموں پر بھی ظاہرہی ہونے چا ہیں لہذا جس کسی پر بھی تمہارے
قدرت والے محبوب کی عطاؤں کے آثار ظاہر ہوں تمہارے لئے خوش ہونے کا مقام ہے
نہ کہ رنج اور حسد کرنے کا ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مجھے اور آپ کو حسد
جیسے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
|