بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
"اُف ! میرے کام میں دخل اندازی نہ کیا کریں ۔ میں جانتا ہوں کہ میرے لئے
اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے ۔ "
"بیٹے میرا یہ مقصدنہیں تھا۔ میں تو تمہارے بھلے کے لئے کہہ رہی تھی ۔ "
"تم اپنا کام کرو ماں ! میں اپنا برا بھلا جانتا ہوں ۔ "
قارئین کرام !
یہ عکاسی درمیانی طبقے کی بڑی احتیاط سے بیان کی گئی ہے اور حقیقت حال میں
سے کچھ پیش کیا گیا ہے ۔ وگرنا اس سے بہت گرے ہوئے طبقے بھی پائے جاتے ہیں
جن کی مکمل حقیقت حال کا انکشاف کرکے نہ میں اپنا دل چھلنی کرنا چاہتا ہوں
نہ آپ کا۔
گو میں بھی بعض اوقات سوچتا ہوں کہ کہیں قرآن کریم نےجو یہ بات کہی ہے :(ولا
تقل لھما اف) یعنی "تو ان دونوں کو اف تک نہ کہہ " کہیں یہ بہت بڑی بات تو
نہیں کہہ دی ۔
بہت ہی اعلی ٰ اخلاق پر مبنی بات ہے جو قرآن نے کہی ہے ۔ کیوں کہ جب میں
اپنے ماضی اور پیدا ہونے والے بچوں کے حال کو دیکھتا ہوں تو مجھے اس حکم
میں بلا مبالغہ اعلیٰ اور فطرت صحیحہ پر مشتمل حکم نظر آتا ہے ۔
جب میں نے ماضی پر نظرکی تو اپنے آپ کو ماں کے پیٹ میں پایا ۔ میری ماں نے
مجھے 9 ماہ تکلیف کی حالت میں اٹھائے رکھا ۔لیکن اس تکلیف کے باوجود ایک
مسرت محسوس کرتی رہی ۔ پھر پیدائش کی تکلیف ۔ پھر رضاعت ۔میری بیماری میں
اپنی بیماری کو بھول جانے والی ۔رات کو خود جاگ کر مجھ کو سلانے والی ۔
مجھے بولنا سکھانے والی ۔اپنے لئے ہر تکلیف کو برداشت کرکے میرے لئے ہر
سہولت میسر کرنے کی کوشش کرنے والی ۔ چوٹ مجھ کو لگتی تھی ،تکلیف ماں کو
ہوتی تھی ۔ اور یہ قصہ ماضی کا نہیں ہر قدم پر اسکی محبت نے مجھ پر سایہ
کئے رکھا۔ اب اتنے احسانات کو دیکھ کر بھی کیا میں اس حکم کو کوئی بڑا حکم
سمجھوں گا کہ "ولا تقل لھما اف"۔ کیا میرا ضمیر مر گیا یا حیا ء جاتا رہا۔
قارئین کرام !
باپ بھی اپنے بچوں کی محبت میں ہر کام کرنے کو تیار ہو جاتا ہے ۔ وہ باوجود
سخت جان اور بہادر ہونے کے جب بچے کو تکلیف میں دیکھتا ہے تو اس کے بھی
آنسو بہہ نکلتے ہیں ۔ وہ صبح گھر سے نکلتا ہے اور اپنی تمام صلاحیتوں کو
بروئے کار لا کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے مزدوری کرتاہے ، جوتوں کو
پیوند لگاتا ہے ، کھیتی باڑی کرتا ہے، جھاڑو دیتا ہے ، سبزیوں یا خوردو
نوشت کی چیزوں کو سائیکل یا ریڑی پر رکھ لیتا ہے اور گرمی سردی کی پرواہ
کئے بغیر بیچتا ہے ، دفتر میں کام کرتا ہے اور افسروں کی ڈانٹ کو برداشت
کرتا ہے ۔غرض اپنے آرام کو ترک کرکے گھر سے باہر نکل جاتا ہے اور کام کاج
کرکے ،خود لباس جیسابھی زیب تن کرے کوشش کرتا ہے کہ میری اولاد اچھا لباس
پہنے ۔ خود جیسی بھی حالت میں ہو کوشش کرتا ہے کہ میری اولاد اعلیٰ پڑھائی
حاصل کرے ۔ خواہ اس کام کے لئے اسے قرضے ہی اٹھانے پڑیں۔
مگر اولاد ہے کہ جب بڑی ہو کر اپنے آپ کو قابل گمان کرتی ہے تو "اف میرے
کام میں دخل اندازی نہ کیا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
پس بہت بڑی نعمت ہے جو خدا تعالیٰ نے بن مانگے ہمیں ہماری پیدائش سے پہلے
ہی دے دی ۔ پس جہاں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے وہاں اپنے والدین کا
احترام اور ان سے نہایت ہی ادب کا سلوک کرنا چاہئیے ۔
خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنی عبادت کے بعد والدین سے احسان کا سلوک
کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ نہ انہیں اف کہو، نہ ڈانٹو ۔ بلکہ
ان سے شفقت کا سلوک کرو۔ آخر پر خاکسار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول
مبارک درج کرکے اپنی ٹوٹی پھوٹی تحریر کا اختتام کرتا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
بڑا بد نصیب رہا وہ شخص(تین بار فرمایا) کہ جس نے اپنے بوڑھے والدین میں سے
کسی ایک کو بھی پایا اور اپنے لئے جنت واجب نہ کروالی ۔ |