ہماری دماغی اور جسمانی صحت کا راز ہمارے اردگرد کے ماحول
اور ہمارے رشتوں کے معیار میں پوشیدہ ہے، یہ ہماری اس تہزیب اور تربیت کا
حصہ ہیں جو کئی صدیوں پر محیط ہے۔ بڑوں کا احترام، چھوٹوں سے شفقت، باہمی
تعاون، محبت اور پیار سب سے بڑھ کر رشتوں کا احترام اور لحاظ۔ ہماری انھی
اعلیٰ روایات نے ہمیں دوسری اقوام سے ممتاز کیا ہے، اگر میں یورپ، امریکہ
یا افریقہ کی بات کروں تو ہر شخص اپنے آپ میں مگن ہے، بیٹا ماں، باپ کو نام
سے مخاطب کرتا ہے، کسی بڑے چھوٹے کا کوئی احترام نہیں ، دادا پوتا سب ایک
برابر شاید اقبال کے اس شعر کی تشریح انھوں نے اپنے انداز میں کرتے ہوئے
بڑی سنجیدگی سے معاشرے میں نافذ کر دیا ہے۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
اسی تہزیب کا خمیازہ یہ بیچارے ساری عمر بھگتتے ہیں، اور اسی کے پیچھے
بھاگتے بھاگتے اولڈ ہومز میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ کچھ خوش نصیب
لوگ ہوتے ہیں جنہیں عزیز واقارب اور رشتہ داروں کا آخری دیدار نصیب ہو جاتا
ہے ، ورنہ بہت سے تو مرنے کے بعد میڈیکل کالجز کے طالب علموں کے کام آتے
ہیں۔ ان تمام برائیوں کے با وجود انکی اوسط عمر 80 سال ہے جبکہ ہماری بمشکل
60 آخر کیا وجہ ہے، _اسکی بنیادی وجہ ہے برداشت اور ایک دوسرے سے بے جا
توقعات قائم نہ کرنا، کسی کی خوشی سے نہ جلنا بلکہ شامل ہونا۔
ہمارا معاشرہ صدیوں سے ان روایات کی حفاظت اور ان اقدار کی پاسداری کا محور
رہا ہے، لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ شاید آنے والا کل ان صدیوں پرانی روایات
کو برقرار نہ رکھ پائے۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت،
مادیت پرستی، انا، حسد اور لالچ کا فروغ ہے، ہم شاید یہ بھولتے جارہے ہیں
کہ
کل نفس ذائقتہ الموت
باقی سب چیزیں یہیں رہ جائیں گی، کیونکہ کفن میں جیب تو ہوتی نہیں۔ رہ گئی
انا ،اکڑ اور نام تو وہ اسی لمحے ختم ہو جائے گا جب آخری سانس کے ساتھ ہی
آپ کو نام کی بجائے لاش، مردہ، میت جیسے القاب دے کر جلد از جلد گھر سے
نکالنے کا احتمام شروع ہوگا۔
تو پھر کیسی اکڑ، کونسی انا کہاں کا تکبر، کہاں کی بات کہاں پہنچ گئی واپس
آتے ہیں اپنے موضوع کی جانب اور دیکھتے ہیں حضرت انسان ہمارے معاشرے میں
اقرباء پروری میں کونسے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔
آج کے معاشرے میں بیٹے ماں ، باپ کے قتل پر مصر ہیں، بھائی بہن کے قتل کو
اپنی غیرت کی تسکین سمجھتے ہیں، چچا بھتیجے،ماموں بھانجے اکثر دست و گریباں
نظر آتے ہیں۔ روز اخبارات انھی خبروں سے مزین نظر آتے ہیں اس کی بنیادی وجہ
عدم برداشت، ضرورت سے زیادہ توقعات اور ہمارے فرعونی رویے ہیں جو ہمیں
انسان سے حیوان بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
پہلے ہمارے نصاب میں اتفاق میں برکت جیسے موضوعات کو بڑی اہمیت دی جاتی
تھی، لکڑیوں کے گٹھے اک مثال کے طور پر پیش کئے جاتے تھے لیکن شاید لکڑی کی
قیمت بڑھ جانے کے باعث اب اسے نصاب میں شامل نہیں کیا جاتا۔ لیکن میں یہاں
ضرور کہنا چاہوں گا کہ انسان کی زندگی میں رشتے سوکھی لکڑیوں کی حیثیت
رکھتے ہیں ، اگر یہ لکڑیاں آپس میں جڑی رہیں تو بڑی سے بڑی آفت ان سے ٹکرا
کر لوٹ جاتی ہے۔ لیکن اگر ان لکڑیوں کو لالچ، یا انا کا دیمک لگ جائے یا
حسد کا شعلہ بھڑک اٹھے تو تباہی اور بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
میری مرحومہ محسنہ اک شعر گنگنایا کرتی تھیں
سوکھی لکڑیاں ہیں رشتہ دار
دور ہوں تو دھواں دیں، پاس ہوں تو آگ
یہ اک بہت بڑی حقیقت ہے کہ ہم اپنے عزیز واقرب سے دور بھی نہیں رہ سکتے اور
قریب آنے سے بھی خوفزدہ ہیں کیوں، اس کی بنیادی وجہ وہ توقعات، لالچ اور
انا ہیں جو ہم نے اپنے اندر پال رکھے ہیں اور اپنے خود ساختہ خول سے باہر
نکلنا نہیں چاہتے۔
قریبی ذاتی تعلقات کو برقرار رکھنے میں وہ اہم چیلنجز جو ہم نظرانداز کر
دیتے ہیں۔ تعلقات کو وقت نہ دینا،زشتوں کو حد سے زیادہ اہمیت بھی بہت سے
مسائل کا باعث بنتی ہے ، بے جا توقعات، عدم برداشت اور ایک دوسرے کی تعریف
نہ کرنا، ایک دوسرے کے موقف کو توجہ اور دھیان سے نہ سننا ۔ اگر ہم ان
باتوں پر عمل پیرا ہو جائیں تو ہم اپنی روایات اور تہزیب کو نہ صرف محفوظ
بنا سکتے ہیں بلکہ معاشرے کے بہت سے مسائل کے خاتمہ کا باعث بھی بن سکتے
ہیں اس امید کے ساتھ کہ ہم سب اس پیغام کو عام کریں گے اور اس کا آغاز خود
سے کریں گے۔
پاکستان پائندہ باد!
|