کیا ہم ڈنڈے کے یار ہیں۔۔۔

آج صبح جب میں اٹھا تو میرا دل کیا کہ میں لاہور کی سڑکوں پر جاؤں اور وہاں تبدیلی کو دیکھوں اور وہاں یہ دیکھوں کہ جو حکومت نے ہیلمٹ پہننے کا بل پاس کیا ہے وہ لاہوریوں نے مانا ہے یا نہیں یہ اس لیے بھی دلچسپ تھا کے لاہوریے جو کہ نون لیگ کو سپورٹ کرتے ہیں انہوں نے پی ٹی آئی کے قانون کو مانا ہے یا نہیں لیکن جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کی ریگل چوک' ہال روڈ ' جی پی او چوک' لکشمی چوک' ریلوے اسٹیشن ' ضلع کچہری' پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس' چوپرجی چوک' اچھرا ' مسلم ٹاؤن موڑ ' گلبرگ' لبرٹی چوک' فردوس مارکیٹ 'ڈیفینس موڑ' غرض کہ میں جہاں بھی گیا میں نے لوگوں کو خلاف توقع پایا میں نے یہ سوچا تھا کے لاہوری اس قانون کو نہیں مانیں گے اور اگر مانیں گے بھی تو اتنی آسانی سے نہیں لیکن وہاں تو میں نے ہر بندے کو قانون کی پیروی کرتے پایا جو کہ میرے لئے بہت ہی حیران کن اور خوش افزا تجربہ تھا۔

لیکن میری حیرانگی اس وقت ختم ہوگی جب میں نے تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلا یہ وہی لاہوریے ہیں جنوں نے کبھی ڈنڈے کی وجہ سے مغلیہ خاندان کو اپنا حکمران تسلیم کیا کھبی راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کو مانا اور کبھی انگریز سامراج کی جی حضوری کی لیکن ان سب میں ایک چیز مشترکہ تھی اور وہ تھی ڈنڈا یعنی ان حکومتوں نے وہ کام کروایا جو کہ لاہوریے نہیں کرنا چاہیے تھے تو پھر میرے دل نے مجھے جھنجوڑا کہ کیا ہم لوگ جانور ہیں جو ڈنڈے کی وجہ سے کوئی کام کرتے ہیں میں نے کافی دفعہ اس بات کو ماننے سے انکار کیا نہیں ہم ایسے نہیں لیکن ہر دفعہ میرا دماغ اس بات کو جھٹلا دیتا تھا کے ہاں ہم ایسے ہی ہیں ہم ڈنڈے کے ہی یار ہیں

کیونکہ میں خود لاہوری ہوں اس لیے اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھا لیکن میرا دماغ اور حقایق مجھے اس بات کو ماننے پر مجبور کررہے تھے کے ہاں ہم وہی لوگ ہیں کہ جنوں نے زیادہ رقم کے چلان کی وجہ سے ہیلمٹ پہننا شروع کردیا ہے؟ یا پھر تبدیلی کی وجہ؟ حکومت کے ڈنڈے کی وجہ سے ہیلمٹ پہنا؟ کیونکہ ہم کو پتہ تھا کہ کہ موجودہ حکومت نے کسی کو بہی نہیں بخشنا یا اس وجہ سے کہ اگر میرا چلان ہوگیا؟ اور میری دس پندرہ ہزار تنخواہ میں سے اگر پانج ہزار چلاگیا تو میں سارا مہینہ کیا کروں گا؟ اسی خوف اور ڈر نے ہم لوگوں کو ہیلمٹ پہننے پر مجبور کیا ورنہ پتہ تو پہلے بھی تھا کہ ہیلمٹ نہ پہننے کی وجہ سے ہماری جان جاسکتی ہے کسی ماں کی کوک اجڑ سکتی ہے اور کسی بہن کا سہاگ مٹ سکتا ہے اگر ایسا پہلے ہوتا تو کوئی بوڑھی ماں جس کا جوان بیٹا مر جاے وہ کیسے گزرا کرتی ہے یا کوئی باپ جس کا واحد کمانے والا سہارا چلا جائے یا کوہی وہ عورت جس کی نئی نئی شادی ہوئی ہو اور اس کا شوہر مر جائے اور وہ اپنی ساری زندگی اپنے شوہر کے بغیر گزار دے یا وہ بچے جو کہ بچپن میں ہی اس وجہ سے یتیم ہو جائے اور ان کی ماں اس وجہ سے ساری زندگی لوگوں کے کپٹرے اور برتن صاف کرکے اپنے بچوں کو پالے۔اور جب اس کے بچے اسے پوچھیں کہ ہمارا باپ کیوں مرا تھا اس کے مرنے کا ذمہ دار کون تھا ہماری تیمی اور تمہاری بیوہ ہونے کی وجہ کون بنے تو ان کی ماں بولے ہماری حکومت کے وہ لوگ جو قانون بناتے ہیں اور وہ بھی جو قانون کو نافذ کرتے ہیں جب بچے پوچھیں وہ کیسے تو وہ بولے ایسے کے جن لوگوں نے قانون بنانا تھا ان لوگ نے ایسا کوئی قانون کیوں نہیں بنایا ہے کہ جس سے لوگ موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہوئے ہیلمٹ پہن کر سوار ہوتے اور اگر وہ غلطی سے یا جان بوجھ کر نہ ہوتے تو قانون نافذ کرنے والے اس کو سختی سے نافذ کرتے تو نا آج تم یتیم نہ ہوتے اور نہ میں ساری زندگی بیوہ بن کر گزارتی۔
آج جب اس بیوہ عورت کو بتایا جاتا ہے کہ ماں جی اب وہ قانون بن گیا ہے اور نافذ کرنے والوں نے اس کو نافذ بھی کردیا ہے تو وہ اور فورا سے اٹھ کر پوچھتی ہے وہ کیسے جب اس کو بتایا جاتا ہے کہ ڈنڈے کے زور پر تو وہ کہتی ہے کے چلو ڈنڈے کے زور پر ہی سہی کام تو ہوا تو اس کی بوڑھی ساس پاس سے کہتی ہے اب تو ہونا ہی تھا کیونکہ ہماری قوم کا علاج ہی ڈنڈا ہے ۔۔۔

تو میں ان کو فورا کہتا ہوں نہیں یہ ڈنڈے کی وجہ نہیں یہ تو زیادہ جرمانے کی وجہ سے ہے تو وہ کہتی ہے کے اگر جرمانےکی وجہ سے ہیں تو جرمانہ اور زیادہ کر دو تاکہ میری طرح کسی کا خاوند نہ مرے اور میرے بچوں کی طرح کسی کا باپ۔۔۔

وہ تو یہ کہہ کر چپ ہو گئی لیکن مجھے اس بات کو کہنے پر مجبور کر گئی کہ واقعی ہم لوگ ڈنڈے کے یار ہے۔۔

 

Rizwan Iqbal ch
About the Author: Rizwan Iqbal ch Read More Articles by Rizwan Iqbal ch : 12 Articles with 11013 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.