میرے ساتھ یہ بڑی مُشکل ہے کہ میں اُسے چھوڑ نہیں سکتا جس
سے میں نے کبھی محبت کی ہو ۔
لوگوں نے میری حالت دیکھ کر فیصلہ کیا کہ میری جان اُس سے چھُڑوا دی جاۓ
اور میری گردن دوسری طرف مُڑوا دی جاۓ ۔
بات اُن کی بھی دُرست ہے مگر مُجھے جس چیز کی عادت ہو جاۓ اور عادت پکّی ہو
جاۓ تو مُجھے اُس سے نکلنا مُشکل ہو جاتا ہے ۔کوئ قدرتی واقعہ ہی اُس سے
نکال پاتا ہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے کسی سے نادانستہ طور پر اُنسیت ہو گئی ۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مجھے خود بھی محسوس ہوا کہ میں کہاں پھنس گیا ہوں
جیسے کوئ سگریٹ جیسی بُری عادت والا جان لے کہ یہ مُضرِصحت ہے پھر بھی باہر
نکلنے کے لئیے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں ۔
جہاں دوا کام کرنا چھوڑ دے وہاں دُعا کا کام شروع ہو جاتا ہے
اور جہاں دُعا بھی کام چھوڑ دے وہاں بیگم کی ڈانٹ کام آجاتی ہے ورنہ آخری
علاج یہ ٹھیرتا ہے کہ اُس سے زیادہ بڑا نشہ جو مُثبت بھی ہو کروانا پڑتا
ہے۔
ایک واقعہ یاد آیا جو ایک پسندیدہ کتاب میں پڑھا کہ ایک امیر ترین گھرانے
کے سربراہ ایک انسان دوست بُزرگ کے پاس آۓ کہ یہ میرا جوان بیٹا ہے جس کے
مشوروں سے ہی میں بہت آگے بڑھا ہوں مختلف قسم کی شراب کے نشہ کا عادی ہو
چُکا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جس عورت سے چاہے شادی کر لے مگر یہ چھوڑ دے اور
یہ عورتوں سے بھی دلچسپی نہیں رکھتا۔
وہ بُزرگ شائد عباد الّلہ الصالحین میں سے تھے اور جو اُن پر انعام نازل
ہوا تھا اُس میں سے بانٹا کرتے تھے۔
اُنہوں نے کوئ تنقید نہیں کی ۔ اُس کے ساتھ گھومے پھرے اور اُس کو لنگر کے
کام پر لگا دیا
جس میں لوگوں کو خُدا کے نام کا کھانا کھلا نے کا اہتمام کیا جاتا ہے جو
بلا تفریقِ رنگ و نسل ، مزہب و مسلک ہوتا ہے اور امیر اور غریب سب کھاتے
ہیں۔
اس کام کا اُسے ایسا چسکہ پڑا کہ وہ سارے نشے بھول گیا۔
میرا یہ خیال تھا اور تجربے میں بھی آیا کہ محبت ایک وقت میں شائد کسی ایک
سے ہی ہوسکتی ہے جہاں غیر مرد و عورت کا معاملہ ہو ۔ اس سوال کا جواب تلاش
کرنے کی کوشش جاری ہے ۔ لیکن ایک دوست جس کا کئ محبتوں کا وسیع تجربہ ہے ،
اُس کا خیال ہے کہ بیک وقت دو سے بھی مُمکن ہے ۔ اب خُدا جانے اُس کے نزدیک
محبت کیا ہے؟
ایک دم میرے زہن کی گرہ کھُلی جس وقت عزیز میاں کی قوالی چل رہی تھی۔
عاشقی دل لگی نہیں ہوتی !
بات کچھ یوں بنی کہ دل لگی ، محبت ، دوستی اور عشق کے الگ الگ رنگ اور
تقاضے ہیں ۔
لیکن ان کا سلسلہ کہیں نہ کہیں ایک ہی جگہ جا کر ملتا ہے ۔ کم از کم میں
اور میرا کلاس فیلو تو اس شعر پر پورا اُترے ۔
کہتے ہیں کہ عشق نام کے گُزرے تھے ایک بُزرگ
ہم لوگ بھی مُرید اُسی سلسلے کے ہیں ۔
بات ہو رہی تھی میری محبت کے پھیلاؤ کی اور اُس خیالی پُلاؤ کی جو مُجھے
کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ نہ ہی لوگ چھوڑتے ہیں اور لوگوں نے نہیں چھوڑا۔
جیسے اورنگزیب بادشاہ نے نہ کوئ نماز چھوڑی اور نہ کوئ بھائ چھوڑا ۔
مجھے بھی نہیں چھوڑا
گیا ۔ میری تو زبان سے ٹُھکائ کی گئ اور اُس بیچاری کا وہ حشر کیا گیا کہ
وہ جگہ جگہ سے تار تار ہو گئ ۔
وہ میری قمیض تھی ،
جس کا رنگ تک اُڑ گیا تھا ، جو مُجھے بہت پسند تھی اور اُس سے محبت کی وجہ
سے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں اُسے نہیں چھوڑ سکتا ۔وہ چاہے تو مجھے چھوڑ
دے تاکہ میں اپنے سامنے جوابدہ نہ ہوں اور نہ ہی بے وفائ کا بوجھ لئے پھروں
۔لیکن ہم نے ایک دوسرے کو نہیں چھوڑا مگر ہمارے عزیزوں نے ہمیں جُدا کر دیا
جو ہم سے بہت محبت کرتے تھے جو مُجھے خوش لباس دیکھنا چاہتے تھے۔ |