فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا‎

ملک صداقت فرحان

دکاندار کے بغیر دکان، روح کے بغیر جسم، سالن کے بغیر روٹی، نمازیوں کے بغیر مسجد اور بچوں کے بغیر سکول اچھےنہیں لگتے اسی طرح انسانیت کے بغیر انسان بالکل اچھا نہیں لگتا۔انسانیت صرف حروف تہجی الف، نون، سین، الف، نون، يے اور تے کےملاپ کا نام نہیں، یہ انسان کی شخصیت اور عزت و عظمت کا نام ہے۔
بقولِ اقبال
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

انسانیت جس انسان میں نہ ہو اسے انسان نہیں درندہ کہا اور مانا جاتا ہے۔ انسانیت، انسان کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے اور اگرانسان اس کی قدر کرے تو یہ انسانیت بھی اس کی عزت کرواتی ہے۔ انسانیت کی وجہ سے ہی انسان کا نام انسان کے مرنےکےبعد بھی زندہ رہتا ہے اور احترام سےلیا جاتا ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جنگیز خان اور ہلاکو انسانیت سےکوسوں دور تھے یہی وجہ ہے کہ دنیا آج انہیں وحشی اور ظالم حکمرانوں کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ان کے برعکس مسلمانوں کے سپہ سالار اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جو کہ ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل کے تنہا حکمران تھے انسانیت کے اعلی درجے پر فاٸز تھے یہی وجہ ہےکہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر دریاۓ فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو قیامت والے دن عمر سے اس کے بارے میں بھی سوال کیا جاۓ گا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا انہیں مجاہد اسلام، خلیفہ دوم، امیرالمومنین، سپہ سالار اعظم کے نام سے یاد کرتی ہے حالانکہ انہیں شہید ہوٸے کوئی چودہ سو سال گزر گئے لیکن وہ آج بھی اچھے القابات اور نام کے ساتھ یاد رکھے جاتے ہیں اور ان شاء اللہ رہتی دنیا تک یاد رکھے جاٸیں گے۔ دنیا تو دنیا کیا تاریخ بھی ان کوبھلا نا پائی یہی وجہ ہے کہ ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جاتا ہےجب تک تاریخ میں منصف اور بہترین مجاہد کا ذکر آۓ گا وہاں پر مورخ عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیے بغیر رہ نہیں سکےگا۔ اب میں آتا ہوں اپنے ملک، وطن عزیز پاکستان کی طرف۔ پاکستان کی 71 سالہ سیاسی تاریخ میں مجھے انسانیت کابہت کم کردار دیکھنے کو ملا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خاں جو کہ امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے وزیر اعظم بننے کے بعد مکمل انسان ہونے کا ثبوت دیتے ہوۓ اپنی تمام تر جائیداد پاکستان کےنام کر دی۔ اس کے بعد ذکر ہو جاۓ جنرل محمد ضیاءالحق شہید کا جنہوں نے پاکستان کے لیے بہت کام کیا اور پاکستان کو ترقی کی منازل کی طرف رواں دواں کیا ان کو شہید ہوۓ 30 سال گزر گئے لیکن پاکستان کی عوام بلکہ پوری دنیا انہیں بحیثیت ایک بہترین لیڈر اور جرنیل کے نہ بھلا سکی اور اچھےلفظوں میں انہیں یاد کرتی ہے۔ انسانیت ہی ہےجس کی وجہ سے ان کو پاکستانی عوام ابھی تک نہ بھلا سکی اور شاید کبھی نہ بھلا سکے۔ انسانیت ہی وہ واحد چیز ہے جس کی وجہ سے انسان ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ جن سیاستدانوں اورحکمرانوں میں انسانیت نام کی چیز موجود تھی وہ چلے گئے لیکن ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا اور اچھے لفظوں میں انہیں یاد کیا جاتا رہے گا۔ اج کل کےحکمران جن کا میں نام لینا مناسب نہیں سمجھتا وہ اپنے اندر موجود انسانیت کو مار چکے ہیں یہی وجہ ہےکہ اج پاکستان برے حالات کا شکار ہے پاکستان کو ان حالات تک پہنچانے والوں کو عوام برے القابات اور ناموں سے یاد کرتی ہے اور ان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار سر عام کرتی نظر آتی ہے۔ فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ دونوں اس بات کامنہ بولتا ثبوت ہیں۔حکمرانوں کو جانوروں سے تشبیہ دی جاتی ہے اور بےہودہ کمنٹس کیےجاتے ہیں۔اور شاید ان کے جانے کے بعد بھی انہیں برے ناموں سے یاد کیا جاتا رہے گا۔ ہمیں انسانیت کو اپنانا چاہیٸے کیونکہ انسانیت کی موجودگی ہی انسان کی عزت کا باعث بنتی ہےاور اس کی عدم موجودگی ذلت اور سواٸی کاباعث بنتی ہے اگر ہم انسانیت کی قدر کریں گے انسانیت کو زندہ رکھیں گے تو دنیا ہمیشہ ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کرے گی۔ اور اگر ہم انسانیت کو مار دیں گے انسانیت کوچھوڑ دیں گے تو دنیا شاید ہمیں یاد تو کرے مگر برے لفظوں اور برے نام سے۔ ہمیں کوشش کرنا ہو گی کہ ہم انسانیت سے دوستی کریں انسانیت کو قریب رکھیں تاکہ ہمیں لوگ رہتی دنیا تک اچھے لفظوں میں یاد کریں۔

Muhammad Naeem Shehzad
About the Author: Muhammad Naeem Shehzad Read More Articles by Muhammad Naeem Shehzad: 144 Articles with 120842 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.