زندگی کسی کے لیے بھی آسان کبھی بھی نہیں رہی۔ ہر کوئی
اسے اپنے اپنے حساب سے، اپنے اپنے حالات یا واقعات سے کسی نہ کسی طور جھیل
رہا ہوتا ہے۔بس فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ہم اسے کس طرح ہینڈل کرتے ہیں۔ ہم
اپنے اپنے دماغ کے حساب سے اپنی اپنی سوچ کے حساب سے زندگی کو جینا سیکھتے
ہیں ۔ کوئی اس کے مثبت پہلوؤں کو پکڑ کر پاؤں پاؤں چلتا ہے تو آخرکار
ایک دن اپنے مقصد کو پانےمیں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور کوئی منفی ڈگر پر چل
پڑتا ہے۔ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو زندگی کے مثبت پہلو مثبت ہی
انداز میں ملتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو زندگی کو ، اسکی
رعنائیوں کو اپنے بل پر حاصل کرتے ہیں۔ اصل مزہ زندگی کا، زندگی جینے کا
انہی کو آتا ہے جو ہر ہر لمحے سے اسکے بھرپور انداز میں مثبت طور پر فائدہ
اٹھاتے ہیں اور اس سے خوشیاں کشید کرتے ہیں۔ اس کی تلخیوں پر پریشان ہونے
کے بجائے ان تلخیوں سے اپنے لئے زندگی جینے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ ہمارے
آس پاس ایسے بہت سے کردار ہوتے ہیں جو نامساعد حالات میں بھی اپنے دماغ کو
مثبت انداز میں سوچنے کا ہنر جانتے ہیں۔کسی کو یہ ہنر اللہ کی طرف سے تحفتا
ملتا ہے تو کوئی اس ہنر کو تراشتا ہے۔ اور جو اس ہنر کو تراشتا ہے وہ ہی
اصل میں زندگی کو بہتر انداز میں جیتا ہے۔ ہم میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو
اس ہنر کو تراش تو لیتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے پھر وہ سیکھتے
ہیں کہ سب کچھ ہم نے اپنے بل بوتے پر حاصل کیا ہے وہ بھول جاتے ہیں کہ اگر
اللہ نہ چاہتا تو وہ اپنی زندگی بیکار بے مصرف ہی گزار دیتے۔ اور اگر اللہ
نہ چاہتا تو جس بات پر یا چیز پر وہ اکڑ تے ہیں وہ انھیں کبھی میسر ہی نہ
ہو پاتی بےشک وہ جتنی مرضی کوشش کر لیتے۔ یہ سب اللہ کی طرف سے دی گئی "
توفیق" ہی ہے جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی زندگی کارآمد گزاری یا اپنی
زندگی کو بہتر بنایا۔ اگر اللہ ہم سے یہ توفیق ہی چھین لے تو۔۔۔۔۔ مگر
افسوس ! انسان غروروتکبر میں یہ بات بھول جاتا ہے۔ غرور اس بات کا کہ جو
کچھ بھی میں آج ہوں میرے اپنے زور بازو پہ ممکن ہوا اور تکبر اس بات کا کہ
مجھے اپنی محنت سے سب حاصل ہو کر میں اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچا رہا ہوں۔
افسوس صد افسوس! انسان بہت جلد بھول جانے والوں میں سے ہے ۔ وہ اپنی حیثیت
، اپنی اوقات منٹوں میں اپنے ہی پاؤں تلے روند دیتا ہے ۔ اور زندگی کے
مثبت پہلو میں سے بھی منفی پہلو اجاگر ہونے لگتا ہے ۔ اصل انسان وہ ہے جو
زندگی کی تلخیوں سے اسے جینے کا فن جانتا ہو۔ تلخ لکھتی ہے،،،،. لیکن حقیقت
لکھتی ہے۔. بقلم ایف جی۔ |