خطرناک ایڈز یا معاشرہ

تحریر: ڈاکٹر حامد حسن حامی، بہاولپور
’’طاہر کے ابا سنتے ہیں؟‘‘ خالد صاحب چونک کر مڑے اور بیگم کو دیکھنے لگے۔ ’’نہ صرف سنتا ہوں بلکہ دیکھتا بھی ہوں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ۔۔۔ کیا بات ہے؟‘‘ ’’نوید بھائی نے جمعہ کو گھر پر بلایا ہے۔ وہ کچھ خیرات کر رہے ہیں، عائشہ کی صحت یابی کے لیے۔‘‘ ’’ٹھیک ہے چلیں گے۔ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟‘‘ ’’وہ آج طاہر کچھ سن کر آیا ہے۔‘‘ ’’کیا؟‘‘ ’’ڈاکٹروں کے مطابق۔۔۔ عائشہ کو ایڈز ہے۔۔۔‘‘ ’’ کیا؟۔۔۔۔ ایڈز۔۔۔؟ لاحول ولا قوۃ!‘‘ انھوں نے منہ بنایا۔ ’’اب جانے کو دل تو نہیں چاہ رہا، لیکن ٹھیک ہے۔ جانے کی رسم تو نبھائیں گے۔‘‘

صحن میں چارپائیاں بچھائی جا رہی تھیں۔ ایک کونے والی چارپائی پر جاں بہ لب عائشہ نڈھال سی پڑی تھی۔ اسکی امی ہاتھ میں پیالہ لیے اسے چمچ سے دلیہ کھلا رہی تھیں اور ساتھ ہی نوید صاحب ٹھہرے ہوئے تھے۔’’بیٹی اور لو نا۔ دیکھو ابھی تک تم نے کچھ بھی نہیں کھایا، سارا دلیہ ویسا ہی پڑا ہے۔‘‘’’نہیں امی نہیں کھایا جاتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اور کھایا تو پیٹ پھٹ جائے گا۔‘‘ نوید صاحب تیزی سے مڑے اور کمرے میں چلے گئے۔ امی نے انھیں جاتے ہوئے دیکھا اور پیالہ ایک طرف رکھ کر ان کے پیچھے چل پڑیں۔ آہٹ پا کر نوید صاحب نے آنکھیں صاف کیں اور بولے۔

’’میں کیا کروں؟ کیسے کہوں کہ اس میں عائشہ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ لوگ کیوں باتیں کر رہے ہیں۔‘‘ نوید صاحب پھر رو پڑے۔ ’’اگر یہی ایڈز کسی لڑکے کو ہوتا تو لوگ کچھ نہ کہتے۔ میری بیٹی کو ہو گیا ہے تو وہ بدکردار ہو گئی ہے۔ آخر کیوں؟ صرف اس لیے کہ وہ لڑکی ہے؟‘‘

’’ابو میں نے کچھ نہیں کیا۔‘‘ عائشہ کی آواز سن کر وہ دونوں مڑے۔ عائشہ دروازے سے ٹیک لگائے ہانپ رہی تھی۔ نوید صاحب دوڑے اور اسے پکڑ کر چارپائی کی طرف جانے لگے۔’’بیٹا مجھے معلوم ہے مگر یہ دنیا کسی کی نہیں سنتی۔ اس کے لیے تم گنہگار ہو کیونکہ تم ایک لڑکی ہو اور میں اسی لڑکی کا باپ ہوں۔‘‘ ’’تو ابو! لڑکی ہونا گناہ ہے کیا؟‘‘عائشہ نے یہ الفاظ کہے اور چارپائی پر گِر سی پڑی۔ جبکہ نوید صاحب آنسوؤں سے اور عائشہ کی امی سسکیاں لے کر رونے لگیں۔

اسی صحن میں بہت سے لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے۔ خیرات کا کام تمام ہو چکا تھا۔ ایک کونے میں عائشہ الگ تھلگ پڑی ہوئی تھی۔ اس کا چچا زاد بھائی ارسلان، جو کہ ایک میڈیکل سٹور پر کام کرتا تھا،سارے انتظامات میں مصروف تھا۔ ایک چارپائی کے قریب سے گزرتے ہوئے اسکے کانوں میں آواز گونجی۔ ’’میں نے خود ٹی وی پر دیکھا ہے۔ یہ جنسی بیماری ہے۔‘‘

ارسلان مڑا تو دیکھا کہ انکل خالد دیگر بزرگوں کو بتا رہے تھے۔ ’’اور جنسی تعلقات سے ہی پھیلتی ہے۔‘‘ ان کے پیچھے ہی نوید صاحب سر جھکائے بیٹھے تھے۔’’انکل خالد! ذرا مجھے بھی بتائیں، آپ کس بیماری کی بات کر رہے ہیں؟‘‘ ارسلان نے پوچھا تو انکل خالد بولے۔’’بیٹا آپ کی عمر کی بات نہیں ہے۔۔۔‘‘ ’’کیوں انکل؟ کیا یہ مجھے نہیں ہو سکتی یا عائشہ میری عمر کی نہیں ہے؟‘‘ خالد صاحب اسے غصے سے دیکھنے لگے۔

’’معافی چاہتا ہوں انکل لیکن آپ ایک غلط بات کر رہے ہیں۔ میں آپ کی اور سب لوگوں کی غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں کہ ایڈز ہے کیا؟‘‘ ارسلان نے دھیمے لیے میں کہا۔’’انکل انسانی نفسیات ہے کہ بہت ساری باتوں میں سے صرف وہی بات یاد رہتی ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے ذہن کو ہلا کر رکھ دے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میں آپ سے پوچھوں کہ ایڈز پھیلتا کیسے ہے تو آپ صرف جنسی تعلقات کا ہی بتائیں گے۔ ایسا ہی ہے نا؟‘‘ خالد صاحب کا سر بے اختیار اثبات میں ہل گیا۔

’’انکل آپ ٹی وی کے جس اشتہار کی بات کر رہے ہیں اسی میں جنسی تعلقات کے علاوہ بھی کچھ چیزیں بتائی گئی ہیں جن سے ایڈز پھیلتا ہے۔ مثلاً متاثرہ خون کی منتقلی سے، متاثرہ شخص کے استعمال شدہ بلیڈ سے، متاثرہ سرنج سے وغیرہ وغیرہ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ چھوت کی بیماری نہیں ہے کہ عام بول چال یا ساتھ کھانے پینے سے ہو جائے۔ یہاں جو اتنا فاصلہ رکھا ہوا ہے صرف اس وجہ سے ہے کہ لوگ اسے چھوت کی بیماری سمجھتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔‘‘ ارسلان نے ایک نظر سب کو دیکھا اور پھر بولا۔

’’انکل یہ بیماری واقعی اتنی خطرناک ہے کہ جان تک لے سکتی ہے۔ جہاں تک عائشہ کا تعلق ہے تو آپ سب کو یاد ہو گا کہ کچھ سال پہلے یہاں ایک اتائی ڈاکٹر آیا تھا۔ اسی کے ایک غلط انجکشن سے ہی عائشہ کو ایڈز ہوا ہے اور آپ لوگ نہ جانے کیا کیا سوچ رہے ہیں۔ یہ سب چھوڑیں اور یہ سوچیں کہ ایڈز ہے کیا اور اس کیسے بچاؤ کیا جائے۔‘‘ خالد صاحب سر جھکائے کچھ سوچ رہے تھے۔ اٹھے، ایک نظر سب پر ڈالی اور ایک کونے میں موجود عائشہ کی طرف بڑھے۔ نوید صاحب کو بلا کر اس کی چارپائی صحن کے کونے سے اٹھوا کر درمیان میں رکھی اور عائشہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔

’’عائشہ بیٹی! مجھے معاف کر دو۔۔۔ مجھے واقعی صرف اتنا ہی یاد تھا کہ جس کی بنیاد پر ہمیشہ غلط سوچیں ہی دامن گیر ہوتی ہیں۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔‘‘ عائشہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے ایک نظر سب کو دیکھا اور پھر ارسلان کو دیکھنے لگی۔ ’’ارسلان بھیا!‘‘ عائشہ کی کمزور سی پکار پر وہ اس کے قریب پہنچا۔ عائشہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور چوم کر بولی۔ ’’بھیا اب میں سکون سے جا۔۔۔ سکوں گی۔۔۔ آپ کا۔۔۔۔ بہت۔۔۔ بہت شکریہ!‘‘ اور ہاتھ آنکھوں سے لگا لیا۔ ارسلان نے آرام سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور اس کی بینور آنکھوں کو بند کر کے پیچھے ہٹ گیا۔ اسی لمحے گھر میں کہرام مچ گیا کیونکہ عائشہ کے ساتھ ہی عائشہ کا مرض ختم ہوگیا تھا۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025355 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.