میر پور خاص کے معذور افراد ملازمت کے حقدار ہیں

کراچی پریس کلب کے دروازہ پر اندرون سندھ کے شہر میر پور خاص سے تعلق رکھنے والے چند اسپیشل (معذور) افراد گزشتہ کئی دنوں سے سندھ کی حکومت سے داد رسی چاہتے ہیں۔ روزنامہ ’آزاد ریاست‘ کے چیف ایڈیٹر اور پاکستان ہیلپ لائن کے روح رواں قیصر محمود اور معروف صحافی و کالم نگار محمد مزمل احمد فیروزی نے فیس بک ٹائم لائن پر آگاہ کیا ہے کہ ’’میر پور خاص آئے ہوئے میرے اسپیشل بچے جو پچھلے 14دن سے کراچی پریس کلب کے باہر گیٹ پر بے یار و مدد گارپڑے ہیں ۔ حکومت لولی پاپ کے طور پر ایک نوٹیفیکیشن تھما دیتی ہے۔ پچھلی بار پولیس کے ہاتھوں لاٹھی چارج کر کے بھگا دیا تھا لیکن اس بار پاکستان ہیلپ لائن آرگنائزیشن ، روزنامہ آزاد ریاست، نیوز ویک، بزنسمونیٹر، فرض اخبار، فرض ٹی وی، ہم ہیں شاہین این جی او، میڈیا کے افراد اور مختلف سماجی تنظیمیں بھی اپنے اسپیشل دوستوں کے شانہ با شانہ کھڑی ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اگست میں ان بچوں کو نوکری دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ اس بار ان بچوں کے ساتھ نا انصافی برداشت نہیں کی جائے گی‘‘۔ کراچی پریس کلب کے باہر کھلے آسمان تلے پڑے معذور افراد اپنا جائز حق چاہتے ہیں۔

گزشتہ برس بھی یہ اسپیشل لوگ کراچی پریس کلب آئے تھے اور یہی مطالبہ کر رہے تھے اس وقت یہی وزیر اعلیٰ اور اسی سیاسی جماعت کی حکومت تھی اس وقت پولیس نے ان اسپیشل افراد پر لاٹھی چارج کر کے بھگا دیا تھا۔ قیصر محمود صاحب شکر ہے کہ سندھ پولیس نے صرف لاٹھی چارج کر کے انہیں بھگا دیا تھا ۔ پنجاب پولیس نے 2014 میں جب دنیا 3دسمبر کو معذوروں کا عالمی دن منارہی تھی، پنجاب پولیس معاشرے کے مظلوم طبقے پر جو بینائی سے محروم تھے ان پر تشدد کر رہی تھی۔ اس وقت بھی مَیں نے ایک کالم ’’ معذوروں کا عالمی دن ۔ نابیناافراد پر تشدد‘‘ لکھا تھا ۔ لاہور سے تعلق رکھنے ولے نابینا افراد نے جو تعداد میں صرف دو سو کے قریب تھے بدھ 3سمبرکو اپنے جائز مطالبات کے حق میں پہلے پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا ۔ اس کے بعد انہوں نے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ جا نے کی کوشش کی تاکہ اپنی آواز متعلقہ حکام تک پہنچاسکیں۔ مظاہرین مال روڈ پہنچے توکلب چوک پر اس وقت کے صدر مملکت جناب ممنون حسین کی سواری وہاں سے گزرنا تھی جس کے لیے وہاں پروٹوکول لگا ہوا تھا ۔اب بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ سربراہ مملکت نے جس راستے سے گزرنا ہو وہاں پر لوگ احتجاج کریں خواہ وہ بینا ہوں یا نابینا۔ پولیس یہ کیسے برداشت کرسکتی تھی۔ چنانچہ پنجاب پولس کے فرض شناس جوانوں کو احتجاج کرنے والوں کے ہاتھوں میں سفید چھڑی بھی نظر نہ آئی ۔ کیونکہ اس وقت وہ خود عقل کے اندھے ہوچکے تھے۔ انہوں نے نہتے نابیناافراد پر خوب چھترول کیا کہ انہیں لگ پتا چل گیا کہ پنجاب پولس اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول میں کس قدر چوکس ہے۔ جب وہ اپنا ڈنڈا گماتی ہے تو اسے کچھ نظر نہیں آتا کہ اس کے سامنے کوئی بچہ ہے، خاتون ہے، سفید داڑھی والا کوئی بزرگ ہے یا جوان اس کے سامنے سارے احتجاجی محمود و ایاز ہوجاتے ہیں ۔کہیں ان سفید چھڑی والوں کی آہ تو دونوں میاں صاحبان کو نہیں لگ گئیں ، کہ بڑے اور اب چھوٹے میاں صاحب بھی اسی پولیس کے ہاتھوں پابند سلاسل ہیں۔ سفید چھڑی والوں کے مطالبات یہ تھے کہ شوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں 950 اسامیاں خالی ہیں انہیں پر کیا جائے۔ ان اسامیوں پر معذورافراد کو میرٹ پر بھرتی کیا جائے۔نابینا افراد یہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں ملازمتوں میں ان کا جائز حق یعنی دو فیصد کے حساب سے ملازمت کو یقینی بنایا جائے جو قانونی طور پر طے شدہ ہے۔ یہ حق معذوروں کو1981ء میں جاری ہونے والا ایک آرڈیننس دیتا ہے یہ آرڈیننس Disabled Persons (Employment and Rehabilitation) Ordinance 1981 ہے۔ پاکستان میں معذور افراد کل آبدی کا 2.49فیصد ہیں۔ اب جب کہ نادرا نے 85 ہزار سے زیادہ معذور افراد کو کارڈ بھی جاری کردیے ہیں ۔ حکومت پر لازم ہے کہ مختلف محکموں میں جو4049 اسامیاں خالی ہیں معذور افراد سے فل کرے۔ تاکہ معاشرے کے اس اہم طبقے کو اس کا جائز حق مل سکے۔2002ء میں حکومت کی جانب سے National Policy for Persons with Disabilitiesبھی جاری کی جاچکی ہے۔ سندھ میں بھی معذور افراد کا کوٹا5فیصد ہے۔ اس اعتبار سے بے شمار اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں ۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ 1981کے آرڈیننس کے مطابق سندھ کے مختلف محکموں میں خالی اسامیوں پر پانچ فیصد کے حساب سے معذوروں کو ملازمتیں دے دی جائیں۔ یہ ان کا جائز حق ہے۔ اس میں آنا کانی، ٹال مٹول سے کام لینے کا کیا فائدہ، معذورین کو نوکریاں دینا زیادہ مفید ، اس طرح وہ مالی پریشانی سے نجات پا سکیں گے، آرام و سکون کے ساتھ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں گے۔ معذوروں کے لیے کیے جانے والے ان اقدامات پر اگر ایمانداری سے عمل درآمد کیاجائے تو معاشرے کا یہ محروم طبقہ دیگر کی مانند خوش حال زندگی گزانے کے قابل ہوجائے گا۔ ایسا کرنا ہمارا اخلاقی اور قانونی فرض ہے۔امید ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ یا متعلقہ وزیر میر خاص کے ان اسپیشل افراد کے مطالبات پر ہمدردی اور فوری توجہ دیتے ہوئے ان افراد کو سندھ کے مختلف محکموں میں ملازمتیں فراہم کریں گے۔ احتجاج کرنے والوں کا 15دن ہوچکے ہیں ، حکومت کی جانب سے 8اکتوبر تک ملازمتیں دینے کی یقین دیہانی کرائی گئی تھی لیکن تاحال مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی ۔ ان معذور افراد کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، وہ اپنا جائز حق طلب کر رہے ہیں۔ انہیں ان کا جائز حق دینے میں حکومت سندھ کو پیش رفت کرنی چاہیے۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437492 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More