تحریر: مریم بتول (لاہور)
استاد معمار قوم وملت، یہ وہ ہستی ہے جو اندھیروں میں شمع روشن کرتی ہے۔ یہ
وہ شخصیت ہے جو تعلیم و تربیت کا منبع و محور ہے۔ والدین اولاد کو آسماں سے
زمین پر لاتے ہیں جبکہ استاد بچوں کو زمیں سے آسمان پر پہنچتا ہے ، بقول
شاعر
ماں باپ اس زمیں پر لائے تھے آسماں سے
پہنچا دیا فلک پر استاد کی عطا نے
کوئی بھی معاشرہ علم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا اور علم کے لیے معلم کا
ہونا لازمی ہے۔ اگر ہم تخلیق انسانی پہ نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ
اﷲ تعالی معلم اول ہیں کہ جب خدا تعالی نے انسان کو پیدا کیا تو ساتھ ہی
اسے اشیاء کا علم سیکھا دیا۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور آدم ؑ کو اﷲ کریم نے سب
چیزوں کے نام کا علم عطا کیا‘‘ (البقرہ31)
اﷲ تعالی نے انسان کی تعلیم کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث
فرمائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’بلاشبہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘ (الرسول
المعلم)۔ آپ نے پہلے خود اپنے صحابہ کو تعلیم دی اور پھر ان میں سے کامل
افراد کا انتخاب کیا جو اس کام کو آگے لے کر چلے۔
والدین کے بعد سب سے زیادہ قابل تکریم ہستی استاد ہوتا ہے۔ آپ کے ارشاد کے
مطابق’’استاد کی حثییت روحانی باپ کی ہے‘‘۔ دنیا میں اگر کوئی ہماری
کامیابی پر خوش ہوتا ہے آگے بڑھنے کی دعائیں دیتا ہے تو وہ والدین کے بعد
ہمارا استاد ہی ہوتا ہے۔ جو اپنے شاگرد کو اپنے سے بھی بلند مقام پر دیکھنے
کا خواہش مند ہوتا ہے۔
طالب علم پر استاد کا اتنا پی حق ہے جتنا والدین کا اولاد پر، ہر عظیم شخص
کے دل میں اپنے استاد کے احترام کے بے شمار جذبات پائے جاتے ہیں۔ سکندر
اعظم اپنے استاد کی بے حد عزت کیا کرتے تھے وجہ پوچھنے پر بتایا کہ ’’میرا
باپ میرے لیے باعث حیات فانی ہے جبکہ میرا استاد میرے لیے باعث حیات جاوداں
ہے۔ میرا باپ میرے جسم کی پرورش کرتا ہے جبکہ میرا استاد میری روح کی‘‘۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے شاعر مشرق
علامہ اقبال کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو وقت کے گورنر نے اقبال کو
اپنے دفتر آنے کی دعوت دی۔ اقبال نے یہ خطاب لینے سے انکار کردیا۔ جس پر
گورنر بے حد حیران ہوا۔ وجہ دریافت کی تو اقبال نے فرمایا ’’میں صرف ایک
صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میر حسن کو شمس
العلما کا خطاب دیا جائے‘‘۔ یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب! آپ
کو تو ’’سر‘‘ کا خطاب اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔ آپ نے
کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالے لکھے ہیں لیکن آپ کے استاد نے کیا
تخلیق کیا ہے؟‘‘ یہ سن کر اقبال نے جواب دیا ’’مولوی میر حسن نے اقبال
تخلیق کیا ہے‘‘۔
اگر ہم تاریخ کے اورق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں انہی لوگوں نے
ترقی کی ہے جنہوں نے اپنے معلمین کی قدر کی ہے۔ استاد بادشاہ نہیں ہوتا
لیکن وہ اپنے شاگرد کو بادشاہ بنا دیتا ہے۔ جو شاگرد اپنے اساتذہ کا ادب
کرتے ہیں کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ مشہور مقولہ ہے’’با ادب با نصیب، بے
ادب بے نصیب ہوتا ہے‘‘۔ قانون ارتقاء کی رو سے باعلم قوموں کو حق حاصل ہے
کہ کم علم قوموں پہ حکمرانی کریں۔ اس بات کا زمانہ گواہ ہے کہ ترقی یافتہ
قوموں نے ہی اس زمین پر حکمرانی کی ہے اور ان پڑھ قومیں ان کے ماتحت رہی
ہیں۔
اشفاق احمد اپنا اک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں اٹلی کے شہر روم میں
مقیم تھا تو ایک بار اپنا جرمانہ بروقت ادا نہ کرنے پر مجھے مجسٹریٹ کی
عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ جب جج نے مجھ سے پوچھا کہ جرمانے کی ادائیگی میں
تاخیر کیوں ہوئی تو میں نے کہا کہ میں ایک ٹیچر ہوں اور کچھ دنوں سے مصروف
تھا اس لئے جرمانہ ادا نہیں کر پایا۔ اس سے پہلے کہ میں اپنا جملہ مکمل
کرتا، جج اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اور بآواز بلند کہنے لگا عدالت میں ایک
استاد تشریف لائے ہیں۔ یہ سنتے ہی عدالت میں موجود سب لوگ کھڑے ہوگئے۔ اس
دن مجھے معلوم ہوا کہ اس قوم کی ترقی کا راز کیا ہے۔
ہماری بد قسمتی ہے کہ ترقی کہ اس راز کو ہم نے سمجھا نہیں جبکہ معرب نے اس
راز کو نا صرف سمجھا ہے بلکہ دل سے مانا بھی ہے کیونکہ استاد کے بغیر
معاشرے کچھ بھی نہیں ہوا کرتے۔
کوئی بھی کچھ جانتا ہے تو معلم کے طفیل
کوئی بھی کچھ مانتا ہے تو معلم کے طفیل
گر معلم ہی نہ ہوتا دہر میں تو خاک تھی
صرف ادراک جنوں تھا اور قبا ناچاک تھی
|