اپنے نفسیاتی مسائل کے حل کے لئے سائیکاٹرسٹ کے پاس جائیں
اور یہ نہ سوچیں کہ لوگ کیا کہیں گے بصورت دیگر لوگ یہ کہیں گے کہ یہ تو
پاگل ہو گیا ہے؟
محبت ایک بار ہو جائے تو پھر اُسی سے ہوتی ہے جس پر دل آجائے، محبتوں کو دل
لگی بنانے والے کبھی دل کا سکون حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔
جب آپ سننے سے زیادہ سنانے لگ جائیں تو سمجھ لیں کہ آپ ذہنی و نفسیاتی طور
پر کمزور پڑ گئے ہیں، اس کے لئے کسی اچھے معالج سے رابطہ کرنا آپ کی صحت
بہترین کر سکتا ہے۔
ذہنی و نفسیاتی امراض زیادہ تر فضول سوچنے اور فراغت کی بدولت ہوتے ہیں۔
حالات بہتر کرنےکےلئے پہلے خود کو پہلے سے بہترین بنا نا پڑتا ہے۔
اپنے مقاصد کے لئے دوسروں کو استعمال کرنا بدترین عمل ہے جس کی سزا انسان
کو کسی نہ کسی طرح سے ضرور مل جاتی ہے۔
اندھیرے کے بعد اجالا ضرور آتا ہے، لہذا آج اگر آپ پریشان ہیں تو امید رکھ
رکھ لیں کہ کل کو ضرور آپ کی زندگی میں خوشیاں اور بہتری آئے گی۔یہ عمل آپ
کو ذیادہ پرسکون کر دے گا۔
جو حالات کا مقابلہ کر کے آگے بڑھنا جانتا ہے وہی درحقیقت کامیاب ہوتا ہے۔
اپنے ماضی کو مستقبل میں وہی لے کر جاتے ہیں جو اپنے آج میں بھی اس کے
اثرات کو قائم رکھنا چاہتےہیں۔
دنیا میں سفارش کے بل بوتے پر من مرضی کے کام کروانے والے آخرت میں کس کو
سفارشی بنا کر اپنی نجات حاصل کریں گے؟؟؟
پاکستان میں بدقسمتی سے تعلیمی ڈگریوں والے سے زیادہ تعویز لکھ کر دینے
والے اور بھیک مانگنے والے کما لیتےہیں۔
حسین علیہ السلام کے پیروکار کبھی یزیدیت کے سامنے نہیں جھکتےہیں۔
واقعہ کربلا دین کےلئے سب قربان کر دینا سکھاتا ہے۔
دل کی بھڑاس نکالنے سے ذہنی طور پر انسان پر سکون ہو جاتا ہے۔
تعلیم اور ڈگری کسی شخص کو قابل بنا سکتی ہیں مگر خداداد صلاحیتوں کی بدولت
بھی انسان قابل فخر کہلایا جا سکتا ہے۔
جب تک حق اور سچ کے لئے مفادات کو بالاطاق رکھ کر وقت کے یزیدؤں کے خلاف
جنگ نہیں لڑی جائے گی، کربلا کا واقعہ روز ہمیں یہ یاد دلوائے گاکہ اس پیام
کی حقیقی روح پر عمل کیا جائے تاکہ باطل کو شکست فاش ہوتی رہے۔
محض اپنی ضد پر قائم رکھ کر مطالبات منوانابسااوقات انسان کو بے شمار مشائل
کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔
اگر آپ کی سوچ مثبت نہیں ہے اور منفی قول و فعل کے حامل ہیں تو پھرآپ معذور
کہلانے کے قابل ہیں کیونکہ جسم معذور ہو سکتے ہیں،صلاحیتیں کبھی معذور نہیں
ہوتیں
ذہنی پریشانیاں جب تک کہی نہیں جاتی ہیں،تب تک انسان اپنے آپ سے ہی لڑتا
رہتا ہے، لڑلڑکر جب ہار جاتا ہے تو پھر وہ ذہنی دبائو کا شکار ہو کر
نفسیاتی مریض بن جاتا ہے، لہذا اپنے دل و دماغ کے غبار کو نکالنے کی ہی
عافیت محسوس کریں تاکہ بعدازں سکون مل سکے۔
ہم بنا مشکلات کے سب حاصل کرنا چاہتے ہیں،یہ بھول جاتے ہیں کہ سونا تپ کر
ہی کندن بنا کرتا ہے۔
بچوں کو سمجھانے والے ہی گمراہی پر ہوں تو بچے کیسے صراط المستقیم پر چل
سکتےہیں؟
زندگی کے سب ہی رنگ کم ہی کسی انسان کو دیکھنے کو ملتے ہیں، جن کو یہ موقع
ملتا ہے وہ فلاح پاہی جاتا ہے۔
کچھ رشتے بنا کر توڑنا آسان نہیں بوتا ہے ، آپ ساری عمر انہی کے حوالے سے
پہچاننے جاتے ہیں۔
کامیابی کے حصول کے لئے بہترین طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ آپ راہ میں قیام
پذیر کی خاطر چھوٹے چھوٹے مقام ایسے ضرور رکھیں تاکہ تھوڑاسستا لیں،پھر
تازہ دم ہو کر منزل کی جانب رخ کریں، اکثر ہم تیزی سے مقام تک پہنچے کی
جستجو میں تھکاوٹ کا جلدی شکار ہو کر حوصلہ ہار دیتے ہیں اور عین کامیابی
کے پاس پہنچ کر واپسی کی راہ لے لیتے ہیں۔لہذا جب تک منزل تک نہ پہنچ جائیں
اپنی کچھ توانائی ضرور محفوظ رکھیں۔
ہم اپنی ناکامی کا ذمہ دار اکثر کسی دوسرے شخص کو سمجھتے ہیں مگر دیکھنے
میں آیا ہے کہ ہم سے بڑا دشمن کوئی نہیں ہوتا ہے کہ ہم خود ہی اپنی کمزور
دلیل کی بنیاد پر اپنی کامیابی میں رکاؤٹ ڈال دیتے ہیں۔
محض اپنے مفادات اور خوشیوں کے لئے ہی جہدوجہد کرنا زندگی کا مقصد حیات
نہیں ہونا چاہیے، اگر کوئی گمراہی کا شکار ہے تو اس کو راہ راست پر لانے کے
لئے اپنی سعی کرنا بھی ہر فرد کی ذمہ داری ہونی چاہیے، آج ذہنی امراض ذیادہ
اس وجہ سے ہو چکے ہیں کہ ہم دوسروں کو سمجھنا نہیں چاہتے ہیں اور نہ ہی
اپنی بات کہنا چاہتے ہیں کہ دوسرے کیا سوچیں گے،ہمیں اپنی خوشیوں کے ساتھ
دوسروں کی خوشی کا بھی سوچنا چاہیے تاکہ یہ محض اپنے ذات تک محدود رہنے عمل
سے چھٹکارہ پایا جا سکے۔
جہیز نہ ہونے کی وجہ سے کئی گھرانوں میں نوجوان لڑکیوں کی شادی نہیں ہو
پاتی ہے، دوسری طرف سادگی سے شادی کے دعوئے کرنے والے بھی عین وقت پر جہیز
کی بات کرتے ہیں، من پسند اشیا کو اشاروں میں دینے کی بات کی جاتی ہے، جن
گھرانوں میں باپ یا بھائی نہ ہوں ان کے لئے جہیز کی فراہمی کسی بھی لڑکی کے
لئے مسائل کھڑی کرتی ہے، اسلام کی تعلیمات کے برعکس نکاح جیسے معاملے کو
مشکل تر بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ میں اخلاقیات کا جنازہ نکل
رہا ہے، اس حوالے سے والدین کے ساتھ ساتھ سب نوجوانوں کو کوشش کرنی چاہیے
کہ کسی کے لئے آسانی پیدا کرنے ہوئے نکاح کو سادگی سے کرنے کی روایت ڈالیں
اور جہیز سے انکار کی مہم شروع کریں تاکہ جن گھرانوں میں لڑکیوں کی شادی
نہیں ہو پا رہی ہے وہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔
نوکری سے بہتر کاروبار کرنا ہے مگر اکثر انسانوں کو کاروبار سے ڈر لگتا ہے
مگر غلامی شوق سے قبول کر لیتے ہیں۔ |