یہ دنیا، اس دنیا کیلے بڑی اہمیت رکھتی ہے.یہاں سب کچھ کا
سب کچھ ایک دوسرے کیلئے ہے اور ایک دوسرے کیوجہ سے باعث وجود ہے. اس کائنات
میں موجود ہر چیز ایک کردار ہے، ایک پرفارمر ہے، ایک امر کہانی ہے. ہمیں
لگتا ہے کے ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں ہم اسکے جواب دہ ہیں کے یہ کیسا تھا
یا ایسا کیوں نہیں ہے کے جیسے دوسرے معاشرے ہیں، یہ خیال غ ط ہے، کیونکہ ہم
صرف اس بات کے جواب دہ ہیں جس سے ہم گزر رہے ہیں، ہم آسمان کے ستاروں کی
چالوں کے بارے میں کبھی جواب دہ نہیں ہونگے. ہم سے صرف ہمارے اعمال کے بارے
میں سوال ہوگا. ہمارے معاملات کے بارے میں سوال ہوگا. ان امانتوں کے بارے
میں جن کے ہم امین تھے. ان برائیوں کے بارے میں سوال ہوگا کے جو سامنے ہوتی
رہیں اور ہم اپنے آپکو صرف محسوس کرتے رہے. ہم سے لازمی سوال ہوگاان حقوق
کے بارے میں جو ہم نے ادا نہیں کئیے ہیں، ہم سے ہماری حد میں سوال
ہونگے.ہماری استطاعت کیمطابق خدا پوچھے گا کیونکہ وہ حدوں کو اور ناکامیوں
کو جانتا ہے. ایک اپاہج انسان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اس کے دوڑنے کی
رفتار کیا تھی. جس آدمی کو قلم کی طاقت دی گئی ہے اس سے پوچھا جائیگا کے اس
نے تحریر کس سمت میں استعمال کی. اسی طرح ہر ایک سے سوال ہوگا جس جگہ سے
تعلق ہوگا اس جگہ کے لوگوں کے بارے میں سوال ہونگے. بولنے اور لکھنے والوں
کو پوچھا جائیگا کے کیا لکھا، کیوں لکھا. کیوں بولا، کیسے بولا. الفاظوں کا
کثرت سے استعمال اہم نہیں، اہم تواس میں چھپے معنی ہوتےہیں. کیونکہ یہ ایک
گویائی کیطرح بہترین عطیہ ہے.یہ نہیں خدا کا ہر ہر "کنُ"بے مثال اور لازوال
ہے. ہم سب کے سب کو آخرت میں جواب دینا ہے. کیونکہ آخرت نام ہی چھپے ہوئے
سےظاہر ہوجانے کانام ہے.آخرت خصوصی طور پر انسانوں کیلئے سجائی گئی ہے، اور
دنیا ہی دنیا کیلئے بنائی گئی ہے، تا کے دنیا دنمم، دنیا سے قریب آئے اور
اپنے رب کو پہچان لے. حق بات تو یہ ہے کےاگر انسان نہ ہوتےشاید کائنات کا
وجود ہی نہ ہوتا. دوسری مخلوق اور دنیا نےخوشیاں، غم اور محبت بھی سب نے
اسی انسان سے سیکھا.
یہاں غور طلب بات یہ ہے کےہر انسان کو الگ الگ زندگیاں دی گئیں،تاکے دنیا
کی دنیا اچھسے سے سمجھ سکے، جان سکے اور جی سکےاور شاید اسلئیے بھی کے سب
کے سب تلاش معاش میں الگ الگ پیشوں سے منسلک رہیں. امیر ہونا اور غریب ہونا
یہ سب قانون خدا ہے. دولت کو اہمیت دینا فرعون کا شیوہ اور پیغمبروں سے دور
رہنے کا نام ہے. کیونکہ تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جو فقیر تھے اور
سر پر تاج تھا. ایسے لوگ بھی آئے کے جن کے دل میں یاد خدا تھی اور فاقہ تھا.
اسی فرق نے کربلا بھی برپا کی اور بظاہر جنگ ہارنے کے باوجود مقصد کو جیت
نصیب ہوئی. اس دنیا میں حق کا سفر کتنا آسان ہے، صرف حق کو باطل کا لباس نہ
پہننے دینا شرط ہے. جہاں حق بات کا وقت آجائے وہاں حق بات کوچھپانا نہیں.
جو چیز اپنے لیئی پسند کرتے ہو، وہی تمھارے بھائی کی ضرورت ہو اگرتو، اسے
دو، اور بھائی کو تکلیف میں چھوڑ کر انسان نہ ہونے کا ثبوت نہ دو. لوگوں کو
تکلیف دینا چھوڑ دو، بخش دو لوگوں کو، اپنی بخشش طلب کرو، محبت بانٹو، پڑھو،
آگے بڑھو. تشدد پسندی سے نفرت کرو. انصاف کی بات کرو، امن پھیلاؤ.
انسانوں کیلئے صرف ادب شرط ہے، توبہ کرلی جائے توآج سے اچھے وقت کا آغاز
ہوسکتا ہے. جتنی عمر سو کر اور غفلت میں گزاری ہے اب بقیہ عمر بیدار کی
حالت میں گزاری جائے.
خدا کی تلاش میں پہلا قدم ہی آخری قدم ہے. کعبے کا ایک نام انسان کی پیشانی
بھی ہےاور خدا کا ایک نام عاجز مسکین کا آنسو بھی ہے. بے بس اور غریب انسان
کی آنکھوں سے ٹپکنے والا آنسوکتنی عبادتوں پر فوقیت لیجاتا ہے. جو چاہتا ہے
کے خدا کو حاصل کرے اسکو چاہئیے کے وہ اپنا خدا اپنی ایمانداری سے خود حاصل
کرے. پھر دیکھنا اللہ کو دل میں پاؤگے، کیونکہ اسنے مقدس کتاب میں برملا
کہا کے تم جہاں رہوگے میں وہیں ہونگا،
خدا کی یاد میں اپنے آپکو بھول جانا ہی عشق حقیقی ہے، اسکی تلاش میں آس پاس
سے بے نیاز ہونا پڑیگا، وہ دور ہے لیکن بہت پاس ہے. ایسے ہی جیسے سورج، ہے
تو بہت دور لیکن اسی روشنی اور گرمی ہمارے پاس ہے. ہم جتنا جس کے قریب
بھاگتے ہیں وہ اتنے ہی تیزی سے دور بھاگتی ہے. شاید ہمارہ دیکھنا، سننا،
پرکھنا اور سمجھنے میں تضاد ہے. دنیا صرف اپنے لوگوں سے وفا کرتی ہے. یہ
دنیا، دنیا دیتی ہی صرف اپنوں کو ہے، جو اسکی تلاش کرتا ہے. ڈھونڈتا ہے،
ٹٹولتا ہے.
|