میڈیا کی اہمیت سے انکار کرنا ایسا ہے جیساکہ یہ کہنا
کہ"میں سیاہی کو سفیدی کہتا ہوں"۔میڈیا جدید ٹیکنالوجی کا ایک کرشمہ
ہے۔جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا ایک "گلوبل ویلج"کی شکل اختیار کرگئی
ہے۔میڈیا کو اپنی حیثیت منوانے کے چنداں ضرورت نہیں.اس کی قوت تسلیم کی
جاچکی ہے.انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو ذرائع ابلاغ کے کردار سے
خالی ہو.شاید میڈیا کے اسی وسیع وعریض دائرہ عمل نے اسے بہت ساری فروعی
تقسیمات میں بانٹ دیا ہے.اور اس طرح اس نے ہر میدان میں اپنی عملی حصہ داری
درج کر سماج کی بہبود کے لئے اپنی ضرورت کو یقینی بنایا ہے۔
اگرچہ میڈیا کی موجودہ شکل اسلامی قوانین کے مطابق نہیں ہے۔اس کو ایجاد ہی
غیر مسلم نے کیا ہے۔پہر کیسے وہ غیر مسلم اس کو اسلامی قوانین کے سانچے میں
ڈھالے گا۔اگرچہ میڈیا اپنی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دینے سے نالاں
نظر آتاہے،شہرت کی لالچ نے اسے بھوکا بنادیا ہے،دولت کو دامن گیر کرنے
کیلئے غیر معیاری طریقے اختیار کرچکا ہے،قلم کو لکھنا کچھ ہوتا ہے اور رقم
کچھ ہوتا ہے یہ شعبہ صحافت کے شایان شان نہیں۔
مگر!پہر بہی میڈیا کے کردار اور قربانیوں سے انکار کرنا بے جا اور غلط
ہے۔آئے روز صحافی،میڈیا رپورٹر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔کچھ کو سچ بولنے
کی وجہ سے لقمہ اجل بنادیا جاتا ہے اور کچھ کو کذب کا صلہ ملتا ہے۔
میڈیا کی اس حد تک کامیابی کے باوجود علماء کا اس میں اہم کردار ادا نہ
کرنا اور طلبہ کو اس کیلئے تیار نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔جہاں غیر مسلم
اس میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام دنیا کے کونے کونے،چپے چپے تک پہنچانے کی راہ
پر گامزن ہے۔وہاں ہمارے علماء کا کردار ادا نہ کرنا مخدوش ہے۔
علماء اور مدارس کے طلبہ کا میڈیا میں کردار ادا نہ کرنے کا نقصان:
علماء اور طلبہ مدارس کی اس میدان سے بے توجہی اور عدم دلچسپی کے نتیجہ میں
ملحدانہ اور دین بیزار افکار و نظریات کو سماج میں پنپنے کا موقع ملا.روشن
خیالی کی خوب سے خوب تر تشہیر ہوئی.صحافت کےعقلی شہسواروں نے جانے اور
انجانے میں اسلام کی بنیادوں میں سیندھ ڈالا.اور نظر آنے والا نقصان یہ ہوا
کہ "سیکولر جنرلزم"نے معاشرہ میں فروغ پایا.خال-خال ہی ایسے مضامین سے نظر
گزرتی ہے جن میں اسلامیات کا رنگ پایاجاتاہو.اور جو تھوڑے بہت ملتے ہیں وہ
مناہج وعقاعد کے بگاڑ سے خالی نہیں ہوتے.یہ ارباب مدارس اور ان سے نمو پانے
والے پودوں کی کوتاہیاں ہیں جس نے سماج کو مغرب زدہ ہونےکی راہ ہموار
کی.ورنہ کتاب وسنت کے حاملین علماء کرام نے ذرائع ابلاغ کی جانب تھوڑی بھی
پیش رفت کی ہوتی تو شاید اسلامی نظریات و افکار کی جگہ لادینی،اشتراکی ،سرمایہ
داری اور اسلام مخالف کج فکری کے جملہ نظریات اپنی موت مرچکے ہوتے۔۔
جدید ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کرتے ہوئے ہمیں اس میڈیا میں عملی کردار
ادا کرنے کی ضرورت ہے۔غیر مسلم کا اس فیلڈ میں مقابلہ کرنے کیلئے علماء کو
مستقل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔میڈیا میں فحاشی،عریانی،سیکولرزم کی
تبلیغ،غیر معیاری مواد کی فراہمی اور گناہ کی روک تھام کیلئے اس فیلڈ میں
اکر ہی بطریقہ احسن خاتمہ ہوسکتا ہے۔علماء اکرام باہمی اختلافات کو بالائے
طاق رکھ کر متفقہ طور پر اپنا ٹی وی چینل اور اخبار کی اسلامی اصولوں کے
عین مطابق بنیاد رکھیں۔اور اسکے لیئے اپنے طلبہ اکرام کو تیار کریں۔نصاب
میں اسلامی جرنلیزم کو شامل کیا جائے۔
ایک زمانہ تہا ہمارے بعض علماء نے انگلش زبان سیکھنے کو ناجائز قرار
دیا۔جسکا نقصان اب بھگتنا پڑ رہا ہے اور اب انگلش سیکھنے سیکھانے کیلئے
ارباب مدارس سوچ وبچار کررہے ہیں۔ اور بعض مدارس میں انگلش کو شامل نصاب
بہی کیا جاچکا ہے۔مگر! اس مقولہ"اب پچھتائے کیا ہوٹ چڑیا چک گئی جب کھیت"
کے مصداق بہی ٹہرے۔ اسکا نقصان جو ہوا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر میڈیا ٹیکنالوجی کو دین کا
علم رکھنے والے افراد پیشہ ورانہ اصولوں کے ساتھ استعمال کریں تویہ پیشہ
ہونے کے ساتھ تبلیغ دین کا بھی مؤثر اور آسان وسیلہ ہو سکتا ہے۔.
ہمیں اس جدید ٹیکنالوجی سے کنارہ کشی اخیتار کرنے کے بجائے اسکا مثبت
استعمال کرنا چاہیئے۔اور اس کی اہمیت کے پیش نظر اسکو استعمال کرنے کے
وسائل کو بہی بروئے کار لانا چاہیئے۔
|