ماہرین علم بشریات کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں نئی نسل
میں احساس ِ ذمہ اری کے فقدان نے اب ایک گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔اس
کے باوجود سبز باغ دکھانے والوں نے نئی نسل کو خوابوں کی خیاباں سازیوں کا
اسیر بنا رکھا ہے ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ بعض عادی دروغ گو
عناصر نے نہایت بے دردی سے زندگی کے مسلمہ حقائق کی تمسیخ اورارفع ترین
صداقتوں کی تکذیب کی کوشش کی ہے ۔ اس بات کے متعدد شواہد موجو د ہیں کہ بعض
جعلی تعلیمی اداروں مثلاًExact کے خول سے نکلنے والے چربہ ساز ،سارق اور
کفن دُزد عناصر نے یہ بے پر کی اُڑائی ہے کہ آج کانوجوان احساسِ ذمہ داری
سے آ شنا ہے ۔کسی فرد کے کردار کی ایسی خصوصیات جو وہ اپنے فرائض ِ منصبی
سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے رو بہ عمل لاتا ہے وہ اس کے احساس ذمہ داری کی
مظہر ہوتی ہیں ۔ نئی نسل میں عمومی مسائل کے بارے میں کہیں بھی احساسِ ذمہ
داری دکھائی نہیں دیتا ۔ اس کے باوجود تخیل کی شادابی کا یہ حال ہے کہ بعض
لوگوں نے سب اچھا ہے کی رٹ لگا رکھی ہے ۔اس قسم کے مہمل اور بے ہنگم
مفروضوں کی حمایت کرنے والوں کی گمراہ کن اور منفی سوچ کے اس سوانگ پر
ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اسے کیا کہیے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ قحط الرجال کے
موجودہ دور میں بے روزگاری اورمعاشرتی مسائل کی زد میں آنے کے بعد نئی نسل
اس قدر بے حس ہے کہ اسے اپنی ذمہ داریوں کا قطعی کو ئی احساس ہی نہیں۔ آج
نئی نسل کے دِل سے احساس زیاں رخصت ہو گیا ہے اور متاع کارواں کا کہیں سراغ
نہیں ملتا ۔سرابوں کے عذابوں میں خوار و زبوں ،حنظل کو منزل کا ثمر سمجھنے
والے ،اپنے تحفظ اور درپیش خطرات سے بے خبر وہ فریب خوردہ شاہین جو کرگسوں
کے جھرمٹ میں پروان چڑھے ہیں وہ رہ و رسم شہبازی اور احساسِ ذمہ داری کی
پارس صفت حقیقت کیا جانیں۔ سراب کے غیر مختتم عذاب میں اُلجھے پریشاں حال
اور درماندہ نوجوانوں میں ذمہ داری کا احساس مانند حباب بھی نہیں۔ کوہِ ندا
سے یہی صدا سنائی دیتی ہے کہ آج کے نوجوان کے دل و دماغ سے احساس ِ ذمہ دار
ی ساتواں در کھول کے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار چکا ہے ۔خودی کی
نگہبانی ،مسرت و شادمانی ،آلام ِ روزگار کی حشر سامانی،اقدار و روایات کی
زبوں حالی،معاشرتی برائیوں کے مسموم اثرات ،حب الوطنی کی پہچان،قومی وقار
کے تقاضے ،ملت کے ساتھ معتبر ربط ،اپنے حقوق کا تحفظ ،انسانیت کو درپیش
خطرات کے بارے میں حقیقی شعور کا ذمہ دارانہ تجزیہ آج کے نوجوان کے بس سے
باہر ہے ۔نوجوانوں کی فکری تہی دامنی کو نہایت شدت سے محسوس کرتے ہوئے
علامہ اقبال نے خلوص ِدِل سے خالق کائنات کے حضور یہ دعا کی تھی :
احسا س عنایت کر آثار ِ مصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دے
جوانوں کو میری آ ہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میر ی یہی ہے
میرا نور ِ بصیرت عام کر دے
ہر دور میں نام نہاد مصلح اور خدائی فوجداراصلا ح کی آ ڑ میں تخریب میں
مصروف رہتے ہیں ۔ نوجوان نسل کی بے راہ روی کو دیکھتے ہوئے بھی چُپ سادھ
لینا ایک المیہ سے کم نہیں ۔یہ ایک کرب ناک حقیقت ہے کہ حق گوئی اور بے
باکی کی روایت دم توڑ رہی ہے۔ زیر ِتیغ کلمۂ حق کہنے اورحریت فکر و عمل کے
جذبات اب قصۂ پارینہ بن چکے ہیں ۔ چڑھتے سورج کے پجاری اور مرغانِ باد
نماجس دیدہ دلیری سے حبا ب کو سحاب ،سراب کو سیماب ،چٹان کو مکان ،کرگس کو
نرگس،بُوم کو دُھوم ،رکاوٹ کو سجاوٹ ، بوسیدہ وشکستہ دیوار کوکوہسار،سم کو
دم کہہ کر سادہ لوح انسانوں کی آ نکھوں دُھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں وہ
ہر اعتبار سے قابل گرفت ہے ۔نئی نسل کی خامیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کی
خوبیوں کے گرویدہ لوگ نئی نسل کی تعریف میں زمین آ سمان کے قلابے ملاکر
اپنی مجنونانہ کور مغزی، لرزہ خیز بے حسی اور اعصا ب شکن بے بصری کا مظاہرہ
کر تے رہے ہیں ۔ان کی مثال بصار ت سے محروم ایسے شخص کی ہے جو شبِ تاریک کے
مہیب سناٹے اورگھٹا ٹوپ اندھیرے میں کسی عقوبت خانے میں ایک ایسی کالی بلی
کی تلاش میں خجل ہو رہاہو جو کمرے میں موجود ہی نہ ہو ۔احساسِ ذمہ داری
عنقا ہو جانے کے باعث آج گردش ِ ایام کی زد میں آنے والا نوجوان کبھی اخفش
کی بکری بن کر فہم و فراست کا تمسخر اُڑاتا ہے تو کبھی جگجیون پریہار، میری
بل ، بہرام ،ایرک سمتھ اور غفا رذکری کے رُوپ میں زمین کو بوجھ بن کر تشدد
کی راہ پر گامزن ہو کر تاریک راہوں عبرت کا نشان بن جاتا ہے ۔ کسی بھی
معاشرے سے احساسِ ذمہ داری کا نا پید ہو جانا اس معاشرے کی بقا اور استحکام
کے لیے انتہائی بُر ا شگون ہے ۔اس طرح سمے کے سم کا ثمر یہ ملتا ہے کہ
معاشرے خطرناک جرائم میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ احساسِ ذمہ دار ی کے فقدان کے
باعث آ ج ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے دنیا بھر میں خون کی ہولی کھیلنے
والے کا ل کو ٹھڑی میں مقید مجرم جنونی قاتلوں میں سے سزائے موت کے منتظر
مجرم درندوں میں سے ہر چوتھا سزا یافتہ مجرم پاکستانی قیدی ہے ۔
آج کوئی مصلح نوجوان نسل کی بے چینی ،اضطراب اور حالات سے نا خوش و بیزار
رہنے کی وجوہات پر غورکرنے کے لیے کوئی تیار ہی نہیں ۔اصلاح احوال کے لیے
کوئی ٹھوس حکمت عملی اور قابل فہم دلیل پیش نہیں کی جاتی ۔ حالات میں جمود
اور بے عملی کے راہ پاجانے پر اپنی دھن میں مگن رہنے والے چر ب زبان مقررین
کی خود فریبی کا یہ حال ہے کہ انھیں دُور کے ڈھول بہت سہانے لگتے ہیں اور
قریب کے تلخ حقائق سے آ نکھیں چرانا ان کا آ زمودہ حربہ ہے۔ یہ بات بلا خوف
تردید کہی جا سکتی ہے عصر حاضر کے نوجوان دنیا بھر میں ستیز اور عصری آ گہی
کے تقاضوں سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے آموزش کے مواقع سے فائدہ اُٹھانے میں
سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔تعلیمی عمل میں مایوس کن بے قاعدگی، بیزار کن
غفلت ، تباہ کن تن آسانی اورشرم ناک عیش پرستی آ ج کے نوجوان کا وتیرہ بن
گیا ہے ۔ احساسِ ذمہ داری سے محروم آج کا نوجوان سمارٹ فون ہاتھ میں تھام
کر ہمہ وقت اپنی تخریب میں زرِ کثیر اور جی کا زیاں کرتا ہے ۔ مختصر
پیغامات کی خدمات ( SMS)، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے تو لُٹیا ہی ڈبو دی ہے
جہاں وڈیو کال کے ذریعے گھنٹوں بے فائدہ اور مہمل بات چیت کے ذریعے شرم و
حیا کا سفینہ غرقاب کر کے اخلاقی اقدار کو بارہ پتھر کر دیا جاتاہے ۔ دنیا
بھر میں ایسی متعدد ویب سائٹس موجود ہیں جہاں شرم و حیا اور اخلاقیات کو
وقت بُرد کر کے نوجوان نسل کا مستقبل تاریک کرنے کی مکروہ سازش کی جاتی ہے
۔ آ ج کے نوجوان کی غیر ذمہ داری کے باعث بوٹی مافیا بھی جونک کی صورت میں
ان کے سادہ لوح والدین کے خون جگرپر پل رہا ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ احساسِ
ذمہ داری ایسے کرداری طرز عمل سے عبارت ہے جسے افراد معاشرتی زندگی میں
اپنے فرائض کی بر وقت تکمیل کے سلسلے میں سنجیدگی سے زادِ راہ بناتے ہیں
۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ آ ج کا طفیلی نوجوان نہ تو
اپنے فرائض سے آ گاہ ہے اور نہ ہی اسے ان فرائض کی تکمیل کی کوئی فکر ہے
۔وہ ایک شترِ بے مہار کے مانندنا معلوم اورا جنبی سی منزلوں کی جانب بگٹٹ
روا ں دواں ہے۔ فرائض سے لا علمی کے سلسلے میں اس کا یہ حال ہے کہ وہ یہ
بھی نہیں جانتا کہ اب یہ بے مہار اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔ اپنے انجام سے بے
خبر نوجوان نسل کو تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا احساس وقت ہوتا ہے جب اونٹ
پہاڑ کے نیچے آ جاتا ہے ۔ اس وقت پُلوں کے نیچے سے اس قدر پانی گزر چکا
ہوتا ہے کہ پھر کچھ بن نہیں پڑتا اور کوئی امید بر نہیں آ تی اور نہ ہی
اصلاح احوال کی کوئی صورت دکھائی دیتی ہے ۔ماہرین نفسیات کا خیا ل ہے کہ
اپنے فرائض سے بہ طریق احسن عہدہ بر آ ہونے سے احساس ِ ذمہ داری نمو پاتا
ہے ۔عمرانی میکانیات میں دلچسپی رکھنے والوں نے ہمیشہ حقوق و فرائض میں ایک
صحت مند توازن پر اصرار کیاہے ۔ مفاد پرست استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں
سے سارا منظر نامہ ہی دھندلا گیا ہے ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آ ج کا سہل
طلب نوجوان اپنے فرائض سے اس قدر بیگانہ ہو چکا ہے کہ اسے خانۂ فرہاد میں
روشنی کی جھلک دکھانے کے لیے تیشۂ فرہاد کی اہمیت و افادیت کا سِرے سے کوئی
احساس ہی نہیں ۔شقاوت آمیز نا انصافیوں اورروزگار کے مواقع کی کمی سے
نوجوان نسل دل برداشتہ ہے ۔دنیا کے کئی ممالک میں نوجوان اس قدر ذہنی دباؤ
کا شکار ہیں کہ وہ حق رائے دہی کے استعمال میں بھی تامل اور تذبذب کا اظہار
کرتے ہیں ۔دنیا بھر میں نوجوانوں کو عملی زندگی کے میں موثر اور فعال کردار
ادا کرنے کے قابل بنانے کی مساعی میں شدت آ رہی ہے ۔اگر نوجوان نسل کو
آزادی،خود مختاری اور ذمہ داری کا احساس پروان چڑھانے کی مساعی ثمر بار ہو
جائیں تو حالات کی کایا پلٹ سکتی ہے۔علامہ اقبال نے سچ کہا تھا :
نہیں ہے نا امید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلانو جوانوں کی موہوم اور مصنوعی
حمایت میں بولنے والوں نے عمرانیات اور علم بشریات کا بالعموم کبھی کوئی
حوالہ ہی نہیں دیا ۔ماہرین علم بشریات کا خیال ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ نئی نسل میں سماجی سرمایہ کاری کا شعورکم ہوتا چلا جا رہا ہے ۔آج کا
نوجوان زندگی کے تلخ و تُند و درشت حقائق سے شِپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنا
کر نیرو کی طر ح نہ صرف اپنا گھر بل کہ پُورا روم پھونک کر تماشا دیکھتا ہے
اور جب اس کی دہکائی ہوئی آ گ کے شعلے بلند ہوتے ہیں تو سرودِ عیش گاتا ہے
۔ان پریشان کن حالات میں احساس ذمہ داری کو صیقل کرنے اور ستیز کو مہمیز
کرنے کے لیے معاشرتی نظم و ضبط کا نا گزیر احساس اب خیال و خواب بن چکا ہے
۔آ ج کا نوجوان اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرکے اپنے عمل کا
احتساب کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔ اپنے آ با و اجداد ، بزرگوں کا احترام
،زندگی کی اقدار عالیہ کا تحفظ اور درخشاں روایات کی پاس داری آ ج کے
نوجوان کے نزدیک محض ناسٹلجیاہے۔ احساس ِ ذمہ داری سے ناآشنا آ ج کے فریب
خوردہ نوجوان کی ایسی باتیں اور مکار استحصالی طبقے کی گھاتیں سوچ سوالی کر
جاتی ہیں ۔احساسِ ذمہ دری سے بیگانہ آ ج کا درماندہ اور پریشاں حال نوجوان
تعلّی ،من مانی ،ذاتی خواہشات کی تکمیل اور معاشرتی ضابطوں سے انحراف کی جس
راہ پہ چل نکلا ہے اسے دیکھتے ہوئے مجھے ممتاز ادیب پروفیسر احمد شاہ بخاری
پطرس یاد آ گئے جنھوں نے احساس ذمہ داری سے قطعی نا آ شنا آ ج کے طالب علم
کی ہئیت کذائی کی لفظی مرقع نگاری کرتے ہوئے ان کی چار قسمیں بیا ن کی تھیں
:
خیالی پلاؤ پکانے والے یعنی خیالی طالب علم ، ہمہ وقت اپنے حسن کے نکھارپر
توجہ دینے والے یعنی جمالی طالب علم،پدرم سلطان بُود کے نشے میں رہنے والے
اور کھینچ تا ن کر مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے ساتھ اپنا شجرہ نسب ملانے
والے جلالی طالب علم اور فہم و فراست سے تہی یعنی خالی طالب علم ۔ احساس
ذمہ داری سے نا آشنا آ ج کے نوجوان طالب علم کے بارے میں اسلم کولسری کے یہ
اشعار حقائق کی ترجمانی کرتے ہیں :
شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کِس کی ماں نے کِتنا زیور بیچا تھا
شام ہوئی اور سورج نے اِک ہچکی لی
بس پِھرکیا تھاکوسوں تک سناٹا تھا |