آٹھ اکتوبر کو زلزلے کے دن میں نے جو دیکھا

بعض گزرے واقعات کو انسان فراموش کرنا چاہیے بھی تو وہ حافظے کی سکرین سے محونہیں ہوتے۔ آٹھ اکتوبر 2005کا قیامت خیز زلزلہ بھی ایک ایسا ہی واقعے ہے۔ زلزلے والے دن یہ طالب علم اسلام آباد کی جانب محوسفر تھا۔خبر ملی کہ شمالی پاکستان ، مظفرآباد ، باغ اور راولاکوٹ پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔یہ شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں ۔یکایک راستے بند ہوگئے اور ٹیلی فون لائن کٹ گئی۔ مظفرآباد کے دوستوں سیّد عارف بہار اور طارق نقاش کو فون کرتا لیکن جواب ندارد۔قریبی عزیز نعیم احمد شیراز جو کہ ان دنوں سیکرٹری تعلیم تھے کو فون کیا توگھبرائے ہوئے ملازم نے اطلاع دی : باجی چھت تلے دب گئی اور فون پھینک کر بھاگ گیا۔

اگلے دن دی نیوز کی شہ سرخی تھی۔ راولاکوٹ گوسٹ سٹی بن چکاہے یعنی بھوتوں کا شہر۔سردار سکندر حیات جو اس وقت وزیراعظم آزادکشمیر تھے ‘نے فرمایا: اب قبرستان کا وزیراعظم میں ہوں۔راولاکوٹ کی طرف رخت سفر باندھا۔ راستے میں لوگوں کو سڑکوں کے کنارے ہجوم درہجوم کیے دیکھا تو سکتہ طاری ہوگیا۔شرفائ، عورتیں اوربچے پانی کی بو ندبوند کو ترس رہے تھے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد سے شہریوں اور حکومت نے ٹرکوں میں ٹینٹ، دریاں، کھانے پینے کا سامان بھرا اورعازم کشمیر ہوگئے۔جہاں کوئی ضرورت مند نظر آیا۔اسے پانی،کھجور، ٹینٹ اور اشیا خوردنوش فراہم کیں۔پاکستان بھر میں سبز ہلالی پرچم سرنگوں کردیا گیا ۔خیبر سے کراچی تک ماتم کی سی کیفیت تھی۔ہر آنکھ اشکبار اور ہر ذی روح ٹرپ اٹھا کہ قیامت سے پہلے قیامت ٹوٹ پڑی ۔

راولاکوٹ پہنچا توحسین شہید ڈگری کالج میں فوجی جوانوں اور معالجین کو زخمیوں کی داد رسی کے لیے موجود پایا۔سول انتظامیہ کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ راولاکوٹ اللہ پاک کے فضل سے بہت کم متاثر ہوا ہے ۔آپ باغ اور مظفرآباد جائیں اور وہاں کے حالات سے دنیا کو آگاہ کریں۔باغ کی جانب عازم سفر ہوا۔راستے میں ہزاروں لوگوں کو سڑکوں کے کنارے کھڑے دیکھا۔ان میں وہ بھی تھے جن کی عورتیں کا چہرہ کبھی محلے والوں نے بھی نہ دیکھا۔ گھر ٹوٹ چکے اور ان کے پیارے بھاری بھرکم چھتوں تلے دب کر اس جہاں فانی سے رخصت ہوچکے۔ بچے دودھ اورپانی کے لیے ترستے نظر آئے۔شہر کے معتبر لوگ پانی ، روٹی اورٹینٹ کے لیے ٹرکوں کے پیچھے دوڑتے نظر آئے تو کانوں کو ہاتھ لگایا۔

باغ شہر کی حالت قابل رحم تھی۔ایسالگا کہ شاید جنگ عظیم دوم کی ساری بمباری اس شہر پر ہوئی ہو۔ کھنڈرات کا ایک ڈھیر تھا جسے لوگ آج باغ شہر کہتے تھے۔ مرکزی بازار میںسارے پلازے ایک دوسرے پر جاگرے۔چہار جانب ریت، سریااور اینٹیں بکھری ہوئیں تھیں۔نعشوں سے اٹھتے ہوئے تعفن نے سانس لینا محال کردیا۔بوجھل دل کے ساتھ مظفرآباد کی طرف چل پڑا۔راستے میں ٹرکوں کی ایک لمبی قطار سے پالاپڑا۔ ایسا لگا سارا پنجاب امنڈ آیا ہو۔ ضرورت کی ہر شہ دستیاب ہوگئی۔ کشمیر کے پہاڑوں کی سڑکیں بہت تنگ اور پیچیدہ ہوتی ہیں۔ان پر ڈرائیوکرنے کے لیے مخصوص مہارت درکار ہوتی ہے۔ پنجاب کے میدانی علاقوں سے آئے ہوئے ڈرائیوروں نے جگہ جگہ ٹرک پھنسا دیئے۔بھیڑ سی لگ گئی۔ راستے بلاک ہوگئے لیکن اس کے باوجود لوگ تھے کہ جوق درجوق کشمیر کی طرف رواں دواں تھے۔ تین گھنٹے کا سفر پندرہ گھنٹے میں طے پایا۔

ہر طرف ہو کاعالم تھا اورمظفرآبا شہرد قبرستان کا منظر پیش کررہاتھا۔ دوستوں کے گھروں کی طرف گیا ۔اکثر گھر ٹوٹ چکے تھے اور گلیاں ملبے سے اٹی پڑی تھیں۔ راستہ بلاک ہوچکے تھے۔ لوگ کی ایک بہت بڑی تعداد مرچکی تھی۔مدینہ مارکیٹ جانا ہوا۔ ممتاز صحافی سیّد عارف بہار کا پتہ کیا ۔معلوم ہوا ان کے والد گرامی دنیا سے پردہ فرماچکے۔وہ زلزلے کے جھٹکے برداشت نہ کرسکے۔ اہل خانہ مشکل سے پشاور منتقل ہوئے۔اطلاع ملی کہ پروفیسر شفیق کی اہلیہ جاں بحق ہوگئیں اور وہ خود بری طرح زخمی ہیں۔

آفٹر شاکسزنے لوگوں کو خوفزدہ کردیاتھا۔ وہ شہر چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔ مدینہ مارکیت کے متصل سابق صدر کے ایچ خورشید اور میرواعظیوسف شاہ کا مزاربری طرح ٹوٹ پھوٹ چکاتھا ۔ اس کے پچھواڑے میں ایک بہت بڑا قبرستان ہے۔مردان سے آئے ہوئے نوجوان مارکیٹ سے نعشیں نکالتے اور اجتماعی نماز جنازہ اداکرتے ۔ پہلی بار ایک ہی قبر میں درجنوں افراد کو ایک ساتھ دفن ہوتے دیکھا تو دل پھٹ سا گیا۔

راولپنڈی اسلام آباد کے ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے۔ نوجوان رضاکاروں کی ٹیمیں ہسپتالوں کے گر د ہجوم کی شکل میں جمع ہوگئی۔ خون دینے والوں کی قطار یں لگ چکی تھیں۔شہری گھروں سے کھانا پکا کر ہسپتال آتے۔مریضوں اور ان کے عزیزوں کی تواضع کرتے۔اکثر ہسپتالوں میں معالجوں نے فیس لینے سے انکار کردیا۔دوائیاں اور آپریشن فری کیے ۔ جان نہ پہچان اس کے باوجود ہر کوئی ایثار اور قربانی کا پیکر بنا ہوا تھا۔

وزیراعظم ہاؤس کی طرف جانا ہوا۔ سردار سکندر حیات خان کو صحن میں بیٹھا سرکاری اہلکاروں کے ساتھ مصروف گفتگو پایا۔وہ رنجیدہ اور پریشان تھے۔دکھ اور کرب کے عالم میں اس بزرگ سیاستدان نے کہا کہ سب کچھ اجڑ گیا ۔ساٹھ برس کی محنت سے تنکا تنکا جمع کرکے جو کچھ بنایاتھا وہ بکھر گیا ۔ ایک سو سال ہم پیچھے چلے گئے۔الفاظ میرے حلق میں پھنس گئے۔ مشکل سے کہا: اللہ غفور اور رحیم ہے اس کی رحمت سے ناامید نہ ہوں۔

سکندر حیات جیسا مضبوط اعصاب کا مالک شخص ٹوٹ چکا تھا لیکن تعمیر نو کی بھاری ذمہ داری بھی ان کے کندھوں پرآن پڑی تھی۔ یہ وقت تھا کہ صدرپرویز مشرف بروکار آئے۔انہوں نے کہا :ہم بربادی کے اس ڈھیر سے کامیابیوں اور کامرانیوں کے مینار تعمیر کریں گے۔متاثرین کی دادرسی اور شہریوں کو حوصلہ دینے وہ قریہ قریہ گئے۔ لوگوں سے ملے اور قوم کو کھڑا کیا۔

ترکی کے رجب طیب اردوان سب سے پہلے کشمیریوں کا دکھ بانٹنے اور انہیں حوصلہ دینے مظفرآباد تشریف لائے۔اخوت اور محبت کے جذبات سے لبریز اردوان نے درجنوں تازہ قبرستان دیکھے تو فرط جذبات سے ان کے آنسو ٹپکے پڑے۔مظفرآباد کے اسٹیڈیم میں انہوں نے بچوں کے ساتھ میچ کھیلا اور متاثرین زلزلہ کو زندگی کی نئی امنگ دی۔اردوان نے اعلان کیا کہ ہم کشمیر کے ہر خاندان کو واپس اپنے گھر بسانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ مظفرآباد میں سرخ رنگ کی درجنوں عمارتیں چند ماہ میں کھڑی کردی گئی۔ یہ ترک فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہیں اور ترکوں کی کشمیریوں سے محبت کا استعارہ بھی ۔

عالمی بھائی چارے کی بے نظیر مثالیں دیکھنے کو ملیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ، برطانیہ، جرمنی، ایران اور چین سمیت درجنوں ممالک کے امدادی کارکن مظفرآباد، باغ اور راولاکوٹ قافلوں کی صورت میں نمودار ہوئے۔ امریکیوںنے افغانستان سے چینوٹ ہیلی کاپٹروں کا ایک دستہ روانہ گیا۔نعشیں اٹھانے اور سرحدی علاقوں سے ملبے تلے دبے عساکر کو نکالنے اور خاص کر دوردارز کے علاقوں میں کھانے پینے کی اشیاکی سپلائی میں ان ہیلی کاپٹرز نے بہت مدد کی۔

ریلیف، بحالی اور تعمیر نو کی سرگرمیوں کا ایک مقابلہ شروع ہوا۔صدر پرویز مشرف نے عالمی ڈونر کانفرنس کا اعلان کیا تو کئی ممالک میں مسابقت کا رجحان دیکھنے کو ملا کہ کون پاکستان کی زیادہ مدد کرے گا۔پرویز مشرف اب راندہ درگاہ ہیں لیکن حقیقتیہ ہے کہ انہوں نے دنیا کو کشمیر کی جانب بھرپور طریقے سے متوجہ کیا۔کنٹرول لائن پر پانچ پوئنٹس کھول دیئے ۔مقبوضہ کشمیر کے سرحدی علاقے بھی زلزلے سے متاثر ہوئے ۔کشمیرکے دونوں حصوں میں کھنچی لکیر کو مٹادیاگیا۔

پاکستانی قوم کی صلاحیتیں اکثر بحران میں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ چیلنجز کا ڈٹ کرمقابلہ کرتی ہے ۔ قدرتی آفات کے سامنے سرتسلیم خم کرنے یا سرکاری امداد کے انتظار کے بجائے اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرتی ہے۔ شہری ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹ لیتے ہیں۔

ہزاروں یتیم بچوں کی کفالت کا مسئلہ درپیش ہوا تو سینکڑوں مخیر حضرات نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیئے۔ میرپور شہر کے نواح میںکشمیر آرفن ریلیف ٹرسٹ(کورٹ) کے نام سے چودھری محمد اختر نے برطانیہ سے آکر سینکڑوںیتیم بچوں کی کفالت کا بھیڑا اٹھایا۔ ایک عالی شان عمارت تعمیر کی جہاں رہائش اور تعلیم کی جدید سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ کورٹ میں پلنے والے بچے یونیورسٹیوں میں پہنچ چکے ہیں۔ بتدریجیہ ادارہ ایشیا کا سب سے بڑا یتیم خانہ بن چکاہے لیکن اس کے بچے ناخو ش ہوتے اگران کے گھر کو یتیم خانہ کہاجائے تو۔اس موضوع پر جلد ایک الگ سے کالم لکھاجائے گا۔

خیرات، سخاوت اور اخوت کے ایسے ایسے حیران کن مناظر دیکھنے کو ملے کہ دل سے دعا نکلتی کہ اے اللہ اس قوم کو نظر بد محفوظ رکھنا۔اس کا جذبہ خدمت سلامت رکھنا۔

پلٹ کر دیکھتاہوں تو یہ سب کچھ ایک خوا ب و خیال لگتاہے۔ لوگوں نے ہمت اور عزم کے ساتھ مٹی کے ڈھیر اور نعشوں کے انبار سے حیات نوع کا آغاز کیااور آج مظفرآباد اور باغ ایک بار پھر ہنستے بستے شہر بن چکے ہیں۔
 

Ershad Mahmud
About the Author: Ershad Mahmud Read More Articles by Ershad Mahmud: 8 Articles with 5216 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.