ہمیں بھی پروٹوکول چاہیے تنقید کیوں؟

تحریر: اسامہ فاروق
ہم وہ قوم ہیں جو اگر حکمرانوں پہ تنقید کرنے لگ جائیں تو ہم ان پر الزامات اور جرموں کے انبار لگادیں۔ ہم ان کے پروٹوکول کے خلاف ہیں، ہم ان کی وڈیرہ شاہی کے خلاف ہیں، ہم ان کی نوکر شاہی کے خلاف ہیں۔ ہونا بھی چاہیے جو غلط کام کررہا ہے اس کے خلاف آپ جوکچھ کرسکتے ہیں کریں۔ آپ غلط کام کے خلاف آواز اٹھاسکتے ہیں تو لازمی اٹھائیں۔ مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود کیا وہ سب تو نہیں کرتے جس کا ہم دوسروں کو منع کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یقینا یہ اس سے بھی کہیں زیادہ غلط ہے۔ جب ہم غیرقانونی قدم اٹھاتے ہیں تب کیا ہم نیک اور پارسا ہوتے ہیں۔

آئیے! اپنا محاسبہ کریں۔ ہم پولیس تھانے میں جاتے ہیں ہم چاہتے ہوتے کہ پولیس اہلکار ہمیں اپنے دفتر میں بٹھا کر چائے پیش کریں ہمیں مکمل پروٹوکول ملے، ہم سے پہلے جو سائل وہاں موجود ہوتے ہیں کیا ہم ان کی پروا کرتے ہیں۔ ہم اسپتال میں جاتے ہیں وہاں کسی جاننے والے کو ڈھونڈتے ہیں تاکہ ہمارا کام جلد ہو جائے۔ ہمیں وہاں بھی کسی پرواہ نہیں ہوتی۔ کون پہلے آیا ہے کون کب سے انتظار کررہا ہے۔ ہم کوئی فرق نہیں پڑتا اس سب کا۔ جن بے چاروں کا کوئی جاننے والا نہیں ہو تا اور اگر ہمارا کام آسانی سے ہوجائے تو ہم بڑی شان بے نیازی سے واپس پلٹتے ہیں اور اگر کام نہ ہوتو شور مچائیں گے۔ ہنگامہ کریں گے اور ڈاکٹر کو ظالم درندہ اور وحشی کہیں گے۔

ہم ڈسپنسری کا دروازہ کھول کے اندر گھسنے کی کوشش کریں گے اگر ڈسپنسر کہہ دے کہ بھائی آپ کو دوائی ونڈو سے ملے گی تو ہم بڑی نخرے سے بتائیں گے کہ میں چیئرمین کا بھائی ہوں۔ میرے ماموں انسپکٹر ہیں۔ میں یہ کام کرتا ہوں وغیرہ وغیرہ مگر ہم اس اصول سے شاید ناواقف ہیں کہ قانون سب کے لیے ایک جیسا ہوتا ہے۔ہم غیرقانونی نمبر پلیٹ اپنی گاڑیوں پہ چپکائے پھرتے ہیں۔ اگر کوئی پکڑ لے تو سفارشیں لگا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ گلی کے خاکروب سے لے کر ڈی ایس پی تک کے فون کرواتے ہیں بس چلے تو وزیراعظم یا کسی اور بڑی ہستی کی مدد بھی لے لیں۔ ہم صحافت کے نام پہ ایک دھبہ ہیں۔ جعلی نمبرپلیٹ، جعلی پریس، جعلی صحافی مگر ہم ہر ایک کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم صحافی تلاشی دیتے وقت سیکورٹی اہلکار کو بڑی شان سے بتاتے ہیں کہ میں صحافی ہوں تاکہ ہم سیکورٹی والے پہ رعب بھی ڈال سکیں اور تلاشی کے عمل سے بھی بچ سکیں۔

یہ سب ہم ہیں یا نہیں یہ سوال میں آپ پر چھوڑے جارہا ہوں۔ اگر ایسا ہے تو پھر بتائیں کہ کیا ہم کسی کے پروٹوکول پر تنقید کرنے کے اہل ہیں۔ ہرگز نہیں، کیوں کہ ہم خود ہی عیب دار ہیں۔ اس لیے لازمی ہے کہ ابھی سے خود کی اصلاح کریں۔ اپنے آ پ سے شروع کریں اور اپنا پروٹوکول ختم کریں۔ خود کو آسمان سے نیچے لے آکر زمین پر رکھیں اور پھر دوسروں کی تنقید برائے اصلاح کریں۔ اس میں ہی پاکستان کی بھلائی ہے اور یہیں حقیقت میں ترقی کا راز ہے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141699 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.