کسی فلسفے اور فلاسفر نہیں ایک عام انسان کی حیثیت سے
اپنے تجربات سے ابھرنے والے خیالات کی بات ہونے لگی ہے۔ میرے نزدیک ایک
عظیم انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔
لفظ جذبہ میں نے اس لیے استعمال کیا ہے کہ بعض اوقات انسان دوسروں کی مدد
کرنا تو چاہتا ہے مگر اس کے حالات اجازت نہیں دیتے۔بلا تخصیص رنگ نسل مذہب
یا کسی بھی قسم کے سیاسی تعصب و لالچ کے بغیر صرف انسانیت کی بنیاد پر
دوسروں کو سیدھا راستہ دکھانے والاانسان عظیم ہے۔ جس کے شر سے لوگ محفوظ
رہیں وہ بھی عظیم ہے۔ وہ بھی اچھا ہے جو کسی کی مدد نہ کر سکے تو کم ازکم
دوسروں کے راستے میں کانٹے نہ بچھائے لیکن عظیم انسان ہمیشہ ایکسٹرا مائل
یعنی اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر دوسروں کے لیے ایک اضافی قدم اٹھاتا ہے۔ اس
کے نسبت دوسروں کے راستے میں روڑے اٹکا نے والے بے شک آگے بڑھ جائیں لیکن
عزت احترام اور سکون انکے نصیب میں نہیں ہوتا۔نہ جانے آج مجھے وہ چند لوگ
کیوں بہت زیادہ یاد آ رہے ہیں جنکے ساتھ میرا کوئی نسلی لسانی اور مذہبی
تعلق نہ تھا مگر انہوں نے صرف انسانیت کی بنیاد پر میری عملی مدد کی۔
سن بیاسی کی بات ہے مجھے جرمنی اور فرانس کے درمیان اکثر سفر کرنا پڑتا تھا۔
جرمنی میں میرے آبائی شہر کھوئیرٹہ کی ایک بڑی کاروباری شخصیت مستری محمد
عالم کے صاحبزادہ محمد رزاق مغل جرمنی کی ایک خاتون کو دل دے بیٹھے۔رزاق
مغل اچھی جرمن بو ل لیتے تھے مگر پھر بھی انتہائی کوشش کے باوجود وہ جرمنی
میں شادی رجسٹر کروانے میں ناکام رہے جسکی وجہ جرمنی میں غیر ملکیوں کے
ساتھ شادیوں کی حوصلہ شکنی تھی۔ محمد رزاق نے مجھے کہا کہ فرانس میں انکی
شادی رجسٹر کروانے کا کوئی راستہ نکالوں۔ جرمنی اور فرانس میں شادی کا ایک
جیسا ہی قانون تھا۔ بات صرف لکی چانس کی تھی۔ میں پیرس میں شادی رجسٹر کرنے
والے ادارے لامیری میں گیا۔ ہونے والے دولہا اور دولہن میں سے کسی ایک کا
ساتھ ہونا ضروری تھا لیکن صرف شادی کی تاریخ لینے کے لیے محمد رزاق کو
جرمنی سے بلانا بھی ایک مہنگا سودا تھا۔ میں لامیری میں گیا ۔تاریخ دینے
والی خاتون نے وہاں جانے کی وجہ پوچھی تو چونکہ مجھے معلوم تھا کہ میں
دولہا نہیں ہوں میرے چہرے پر پریشانی کے بجائے ہلکی سی مسکراہٹ دیکھ کر
ڈیسک پر بیٹھی خاتون بھی مسکرائی تو میں اور خوش ہو گیا۔ خاتون نے میری
ٹوٹی پھوٹی فرانسیسی سن کر پوچھا فرانس میں کتنا عرصہ ہوا میں نے کہا ابھی
چند ماہ ہی ہوئے ہیں اس نے کہا چند ماہ کی میری پراگرس اچھی ہے۔ فرانسیسی
لوگ اپنی زبان سے بہت محبت کرتے ہیں ۔ میں نے فرانسیسی زبان کے رومانٹک
پہلو کی تعریف کرتے ہوئے شادی کی رجسٹریشن کی درخواست کی۔ اس نے فوری قلم
اٹھایا اور نام پوچھا۔ میں نے جان بوجھ کر اسے اپنا نام نہیں بتایا تھا
کیونکہ شادی تو رزاق نے کرنی تھی اور میں نے سوچا شاید وہ کہئے کہ دولہا
دولہن میں سے خود کوئی حاضر ہو۔ میں نے رزاق اور انکی ہونے والی بیوی کے
نام بتاتے ہوئے پتہ اپنا لکھوا دیا۔ ہفتے بعد چرچ میں شادی ہو گئی۔ اب
مقامی پولیس سٹیشن میں بھی رجسٹریشن کروانی تھی وہاں بھی محمد رزاق کے ساتھ
گیا۔ وہاں کچھ ایشیائی تھے ان سے اپنی گفتگو راز میں رکھنے کے باعث ہم نے
جرمن میں گفتگو کی۔ ایک درمیانی عمر کے فرانسیسی مرد نے ہماری طرف دیکھتے
ہوئے ایک دلچسپ جملہ بولا۔ آپ دونوں لگتے ایشیائی ہیں۔ ہیں فرانس میں اور
بولتے جرمن ہیں۔ تعارف ہوا تو پتہ چلا یہ سوشیالوجی کے پروفیسر ہیں جنہوں
نے ہمیں چائے بھی پلائی۔ تحریک آزادی کشمیر کا عشق ابھی نیا نیا تھا۔ ہم نے
زکر کیا توپروفیسر نے پیرس یونیورسٹی میں ہونے والی ایک علمی کانفرنس میں
ہمیں دعوت دے دی۔ محمد رزاق جرمنی چلے گے اور میں کانفرنس میں گیا۔ پروفیسر
کا نام فرینک بورس تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ میں کشمیر بارے ایک صفہ لکھوں
جسکا وہ فرانسیسی میں ترجمہ کر کے شرکاء کانفرنس کو پیش کریں گے ۔ میں بہت
خوش ہوا۔ ایک صفہ لکھا اور ساتھ میں نے چچبپروفیسر کو صدائے کشمیر کا ایک
پرچہ بھی دکھایا جسکا آغاز میں نے جرمنی سے کیا تھا۔ پروفیسر نے مجھے
باقاعدہ صحافت کے لیے صحافتی کورس کی تجویز دی۔ میں نے کہا میری فرانسیسی
ابھی اتنی اچھی نہیں کہ میں کورس کر سکوں اس نے کہا یہ مسلہ حل ہو جائے گا۔
فرانس کے سب سے بڑے اخبار لوموند کا چیف ایڈیٹر پروفیسر کا دوست تھا وہ
مجھے اس کے پاس لے گیا جس نے یونیورسٹی میں میرے مفت کورس کا انتظام کروا
دیا۔ ایک موقع پر پروفیسر نے میری مالی مدد بھی کی ۔کورس کاابھی آغاز ہوا
ہی تھا کہ کرسمس کی چھٹیوں پر میں یو کے گیا جہاں بھارتی سفارتکار مہاترے
کیس میں مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ دوران ریمانڈ جہاں ہمارے ساتھ زیادتیاں
ہوئیں وہاں دو جیل افسران نے مجھے انتہائی مفید مشورے بھی دئیے۔ سزا کے بعد
مجھے لانگ ٹرم جیل فرینکلینڈ ڈرہم میں منتقل کیا گیا۔ انتہائی مشکل ایام
تھے۔ وہاں سے لانگ لارٹن جیل بھیجا گیا جہاں جیل کی سختیوں کی وجہ سے دل کا
دورہ پڑا۔ ریڈہسپتال داخل کیا گیا جہاں تعینات جیل افسران اتنا تنگ کرتے
تھے کہ لگتا تھا کہ وہ چاہتے ہیں مجھے ایک اور ہارٹ اٹیک ہو اور ہمیشہ کے
لیے فارغ ہو جاؤں۔ پاکستان کا ایٹمی دھما ٹی وی پر دکھایا گیا تو ہسپتال
میں میری چارپائی کو گھیرے ہوئے جیل افسران بڑ بڑانا شروع ہو گے جیسا کہ یہ
دھماکا میں نے کیا تھا۔ وہ مجھے اتنا تنگ کرنے لگے کہ میں نے الارم بجا کر
ڈاکٹر کو بلا کر پوچھا کہ میں قیدی ہوں یا مریض۔ ڈاکٹر نے کہا مریض۔ میں نے
کہا پھر جیل گورنر کو فون کریں کہ اس کے داروغے مجھے تنگ کرتے ہیں۔ گورنر
نے ان افسران کی جگہ ایک مرد اور ایک خاتون کو میری نگرانی پر تعینات کیا۔
یہ دونوں انتہائی رحم دل تھے۔ خاتون افسر مجھ سے میرے بہن بھائیوں اور
والدین کے بارے پوچھا کرتی تھی اور ایک موقع پر اس نے کہا وہ میری والدہ کے
ساتھ ٹیلیفون پر بات کا انتظام بھی کر سکتی ہے۔ گو سزا کے آخری چند سالوں
میں مجھے فون کی اجازت مل گئی تھی لیکن ہارٹ اٹیک والے دنوں تو میں فون کا
سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ ہسپتال سے جیل واپس آیا تو وہ افسر وقتا فوقتا میری
خیریت دریافت کرنے میرے پاس سپیشل جایا کرتی تھی۔ جیل کے کچھ افسران بضد
تھے کہ میں بھی دوسرے قیدیوں کی طرح کام کروں ۔ جیک آپٹن ایک سکاٹش لیکچرر
تھے جو مجھے سپیشل بچوں کی تدریس کے لیے بلا لیتے تھے۔ مجھے سائن لینگویج
نہیں آتی تھی لیکن جیک آپٹن صرف اس بہانے مجھے بیگار سے بچانے کی کوشش کر
تے تھے اور ساتھ میری ضیافت بھی کرتے۔ کہتے ہیں دنیا گول ہے۔جب میں بری ہو
کر آیا شادی کی ۔ میرا بیٹا پانچ سال کا ہوا تو ایک حادثے میں فوت ہو
گیا۔سکاٹ لینڈ میں رہنے والے ایک کشمیری خالد ابرہیم وطن آئے ہوئے تھے۔ وہ
تعزیت کے لیے آئے اور کہنے لگے انکی ٹیکسی میں ایک سکاٹش جوڑا بیٹھا۔ مرد
نے خالد سے پوچھا کہاں کہ ہو۔ خالد نے کہا کشمیر کا۔ جیک نے کہا اگر کشمیر
کے ہو تو بتاؤ تم نے قیوم راجہ کا نام کبھی سنا۔ خالد نے کہا میں انہیں جیل
میں ملنے گیا تھا۔ کہانی لمبی ہے ۔ اس لیے یہ کہہ کر اس کالم کا ختتام ہوتا
ہے کہانسان کو اچھے برے لوگوں کے ساتھ واسطہ تو پڑتا رہتا ہے لیکن قانون
فطرت ہے کہ انسان بروں کو ہمیشہ بھول جانے اور اچھوں کو یاد رکھنے کی کوشش
کرتا ہے۔ آئیے ہم بھی اچھی یادیں چھوڑ جانے کا عہد کریں۔ |