تحریر: انیلہ افضال، لاہور
اﷲ دتا کالے گندے فرش پر اکڑوں بیٹھا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ پشت پر بندھے
ہوئے تھے اور چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ ملک حشمت نے مڑتے ہی ایک لات
دتے کے پہلو میں رسید کی، دتا بلبلاتا ہوا کالے فرش پر جا گرا اس کی بیوی
جو پاس ہی ہاتھ جوڑے اپنے گھٹنوں پر بیٹھی تھی تڑپ کر دتے کی طرف لپکی اور
اسے سیدھا کرتے ہی پھر سے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گئی۔ سرکار مہربانی کر دو وہ
منمنائی! دوبارہ ایسی خطا نہ ہو گی پھر جو کریں تو جو کالے چور کی سزا وہ
ہماری سزا۔ سرکار اب کی بار معافی دے دو۔ تو چپ کر! سارا کیا دھرا تیرا ہی
ہے، ملک حشمت دھاڑا۔ تو نے ہی اسے پٹی پڑھائی ہو گی کہ دوسرے ڈیرے پر چلے
چلتے ہیں وہاں بہشت کے جھولے ملیں گے۔ ملک حشمت تو خون پیتا ہے نا تم لوگوں
کا۔ لے اب پتا چل گیا نا اپنی اوقات کا۔ اوئے کس میں اتنی ہمت ہے کہ ملکوں
کے کمیوں کو پناہ دے۔ اوئے میں نسل مکا دوں گا، تمہاری اگر آئندہ بھاگنے کی
جرات کی تو۔ جی سرکار جی سرکار! ہماری کھال کی جوتیاں سلوا لینا سرکار۔
ہونہہ ! ملک پھنکارا! او ئے چل اٹھ! اب جاکر اپنے اڈے پر لگ جاکے۔
دتہ اور جیراں اپنی چوٹیں سہلاتے ہوئے جاکر ملک کے بھٹے پر اپنے اپنے کام
میں جت گئے۔ دوا دارو تو دور کی بات کسی نے دو گھڑی آرام کا بھی نہ سوچا
اور سوچتے بھی کیسے، پیٹ میں بھوک نے آگ بھڑکا رکھی تھی اور باہر ملک حشمت
کے غصے کی آگ برس رہی تھی۔ ہاں پر جاتے جاتے ایک جملہ ان کی سماعتوں سے
ٹکرایا تھا، یہ دو کوڑی کے لوگ اسی لائق ہوتے ہیں۔او سرکار! آپ کی خفگی بجا
ہے میرے کارندوں نے مجھے آپ کے سامنے شرمندہ کروا دیا ہے۔ جناب بس دو دن کا
وقت اور دے دیں آپ کا آرڈر آپ کے فارم ہاؤس پر پہنچ جائے گا۔ ملک حشمت کے
منہ سے شہد ٹپک رہا تھا۔ او سرکار! ہم نے بھلا اس ملک میں نہیں رہنا جو آپ
سے بگاڑ ڈالیں گے، ملک حشمت نے آنکھ دبائی۔ اب یہ کیا کم ہے کہ آپ نے اپنے
نئے ٹھیکے کے لیے اینٹیں ہمارے بھٹے سے منظور کروا دی ہیں باقی وادے گھاٹے
تو ہم آپس میں دیکھ لیں گے۔
بس بس ملک حشمت! زیادہ چاپلوسی نا کرو تمہارے پاس آرڈر پورا کرنے کے لیے 24
گھنٹے کا وقت ہے ورنہ، ٹھیکیدار کریم بخش نے جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا تھا۔
جی جی سرکار! بالکل، آئندہ جو کوتاہی کروں تو میری کھال کی جوتیاں سلوا
لیجیے گا۔ ہمم کریم بخش نے ہنگورا بھرا۔ ملک حشمت جلدی سے کمرے سے نکل گیا
مگر ایک جملہ اس کے پیچھے پیچھے چلا آیا تھ، یہ دو کوڑی کے لوگ اسی لائق
ہوتے ہیں۔
ٹھیکیدار کریم بخش سیکرٹری داخلہ کے دفتر میں ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ کیوں
مسٹر کریم! تم تو ہمیں بھول ہی گئے۔ اگلا ٹھیکہ پاس کروانا ہے یا کام
چھوڑنے کا ارادہ کر لیا ہے؟ نہیں نہیں سرکار؟ کام چھوڑ کر بھوکوں مرنا ہے؟
بھوکے تو تم ویسے بھی مر جاؤ گے مسٹر کریم! ہم سے چالاکیاں مہنگی پڑجائیں
گی۔ ارے جناب! میرے تو باپ کی بھی توبہ جو آپ سے چالاکی کرنے کا سوچوں بھی،
میری کھال کی جوتیاں سلوا لیجیے گا ۔ ارے نہیں نہیں مسٹر کریم ! میں سستے
چمڑے کا جوتا نہیں پہنتا۔ ہی ہی ہی ! کریم بخش کھسیانی ہنسی ہنسا۔ سرکار آپ
خفا نہ ہوں میں آج شام ہی بنگلے پر حاضری دیتا ہوں ۔ ہمم ! سرکاری افسر نے
نخوت سے کہا۔ اور کریم بخش سلام کرتا ہوا دفتر سے نکل گیا اور ایک جملہ اس
کی سماعتوں کو چیر گیا ، یہ دو کوڑی کے لوگ اسی لائق ہوتے ہیں ۔
کیوں سیکرٹری صاحب ! کام سے دل بھر گیا لگتا ہے آپ کا ۔ وزیر داخلہ نے
استہزائیہ انداز میں سرکاری افسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔ نہیں سر ایسا تو
کچھ نہیں، سیکرٹری صاحب مؤدبانہ انداز میں گویا ہوئے۔ یہ آپ لوگ چار
جماعتیں پڑھ کر اور مقابلے کے امتحان پاس کر کے خود کو کوئی توپ چیز سمجھنے
لگتے ہیں۔ مت بھولیں کہ یہ ہم سیاسی لوگ ہی ہیں جو آپ کو آگے لاتے ہیں اور
آپ لوگ ان شاہی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں ورنہ سرکاری دفتروں میں جوتیاں
گھسیٹتے عمر کٹ جاتی ہے آپ جیسوں کی۔ جی سر! بجا فرمایا آپ نے۔
ہاہاہاہاہاہا ہا ! اور آپ ہمیں کو آنکھیں دکھانے لگے ہیں ؟ نہیں سر آپ کو
غلط فہمی ہوئی ہے ، ہماری تو کھال کی جوتیاں سلوا لیجئے جناب۔ ارے نہیں
نہیں سیکرٹری صاحب ! ایسا نہ کہیں، میں برانڈڈ جوتے ہی پہنتا ہوں، وزیر
داخلہ نے رعونت سے کہا، ہاہاہاہاہاہا۔ سیکرٹری صاحب کا چہرہ لال ہو گیا اور
وہ اجازت لے کر دفتر سے باہر نکل گئے جاتے جاتے ایک جملے نے ان کی سماعتوں
میں تیزاب انڈیل دیا، یہ دو کوڑی کے لوگ اسی لائق ہوتے ہیں۔ |