کچا پاپڑ پکا پاپڑ کچی روٹی پکی روٹی کی گردان بچپن سے
سنتے اور کرتے آرہے ہیں اور اب کچی آبادی پکی آبادی کچے گھر اور پکے گھر
کاراگ زبان زد عام ہے جس میں پاکستان کا تقریبا ہر شہری اپنے اپنے انداز
میں جہاں تبصرے فرمار ہے ہیں وہیں پر حکومتی سرکاری سیاسی اور دیگر ادارے
بھی اس پر طبع آزمائی کر رہے ہیں۔عمران خان نے 50 لاکھ گھر بنانے کا جو
عندیہ دیا تھااس اس پر عملدرآمد شرو ع کرنے کیلئے ’’نیاپاکستان ہاؤسنگ
سکیم‘‘کا اعلان کردیا ہے جس کے تحت پاکستان کے غریب شہریوں کو محفوط چھت
فراہم کرنے کاعزم ظاہر کیا ہے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار
جنہوں نے اس خالہ جی کاگھر نہیں ہے سے تشبیہ دے کر ان حقائق سے پردہ اٹھانے
کی کوشش کی ہے جو بادی النظر میں بھی موجود ہیں اور حقیقی طور پر بھی
عملدرآمد پر سوالیہ نشان چھوڑ رہے ہیں۔ اگر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب
نثارکی بات کو زمینی حقائق پر پرکھا جائے تو عقدہ کھلتا ہے کہ پہلے ان
لوگوں کو سہولیات فراہم کی جائیں جو کہ کچی آبادی کے مکین ہیں جن کے پاس
بنیادی سہولیات نام کی کوئی چیز نہیں پانی سیوریج گیس بجلی ذرائع آمدوروفت
سکول جیسی بنیادی سہولیات سے مبرا و محروم لوگ بھی اس پاکستان کے شہری ہیں
ان کے بھی حقوق کی ذمہ داری حکومت وقت پر ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کو مالکانہ
حقوق دینے کی بات وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کی ہے تو پہلے انہی لوگوں
کو فوکس کیا جائے کہ جنہوں نے اپنے کچے پکے مکان بنا رکھے ہیں۔اس سے حکومت
کا کام بھی آسان ہوجائے گا کہ جگہ کی تلاش کا کام بھی نہیں کرنا پڑے گا ایک
منظم نظام کے تحت انکی رجسٹریشن کرکے اس عمل کو اگر پایہ تکمیل تک
پہنچادیاجائے تو یہ ایک بہت بڑا اور احسن اقدام ہوگااور حکومت کی مقبولیت
میں بھی اضافہ ہوگا لیکن اس پر ہنگامی بنیادوں پر ککام کرنے کی ضرورت ہوگی
تاکہ کچی آبادی کے مکینوں کو پکی چھت کی سہولت اور گھر کا سکون میسر آسکے۔
اب اگر عمران خان کے وژن کو دیکھتے ہوئے نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے
لوازمات اور ان سے جڑے فوائد اور نقصانات اور نشیب و فراز کا جائزہ لیا
جائے اس کے اعداد وشمار کو جس طرح پیش کیا جارہا ہے کو دیکھا جائے کہ 5
سالوں کے 1825 دنوں میں50 لاکھ کے حساب سے ایک دن میں کم و بیش27 سو کے
قریب گھر بنانے کا ایک دیو ہیکل منصوبہ ہے جو کہ انتہائی مضحکہ خیر حد تک
مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے لیکن اگر وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور
ان کی ٹیم نے جس طرح پر اعتماد انداز اور تیقن کے ساتھ سکیم کا اعلان کیا
ہے اور عزم کا اظہار کیا ہے تو یقیناان کے پاس اس سلسلے میں کوئی ٹھوس مثبت
اور قابل عمل لائحہ عمل اور ورک آوٹ ضرور موجود ہوگاجس کی بنا پر اب وہ آئی
ایم ایف سے قرضہ لینے کیلئے مائل و آمادہ نظر آتے ہیں اور آئی ایم ایف کا
دروازہ کھٹکھٹانے کیلئے دست اٹھانے کی ہمت جٹارہے ہیں اور ملکی بہتری اور
ترقی کی بانسری بھی بجا رہے ہیں۔
قرضے کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کے مثبت و منفی پہلو ہمیشہ کی طرح عیاں
ہیں کہ اگر قرضہ لینے کے باوجوداس کو پراپر استعمال میں نہیں لایا جاتا اس
کی مقصدیت کو ختم کردیا جاتا ہے فضول کاموں میں جھونک دیا جاتا ہے تو
پھرملک اور عوام کی معاشی حالت مزید دگرگوں اور ابتر ہوجائے گی غربت و
مہنگائی کا عفریت مزید طاقتور ہوجائے گا لیکن اگرہاؤسنگ سکیم پر عملدرآمد
شروع ہوجاتا ہے اور اس رقم کو اس پر منصوبہ بندی کے تحت لگادیا جاتا ہے تو
معیشت کی خوشحالی کا پہیے ضرور گھومے گا معاشی ترقی کے ایک نئے دور کاآغاز
ہوگاجس سے ایک مزدور سے لیکر انجینئر تک بٹھہ مالک سے لیکر سٹیل مل کے مالک
تک لکڑ ہارے سے لیکر تعمیراتی سامان کے ڈیلرز تک سب کے سب روزگار کے ایک
باعزت سلسلے سے منسلک ہوجائیں گے ملک میں پیشہ مخصوص ہاتھوں بلکہ سفید
ہاتھیوں سے نکل کر عام لوگوں اور مارکیٹ تک پہنچے گا اقتصادی و معاشی صورت
حال بہتر ہوگی روزگار کے مواقع روز افزوں ہونگے غریبوں کو پیٹ بھر کھانا
ملے گا
وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار دونوں
کے نظریات اپنی اپنی جگہ درست ہیں دونوں ہی عوام و ملک کے بہتر مفاد میں
اقدامات کو کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن عملدرآمدکرکے مثبت اور ثمر آور
نتائج کا حصول پیش نظر ہونا چاہئے۔حکومت نے جس طرح سے نئے نئے کٹے کھول
دیئے ہیں اور چومکھی لڑائی جاری ہے اس میں مہنگائی کی ایک بڑی وجہ تجارتی
خسارہ کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق رواں
مالی سال کی جو پہلی سہ ماہی گزر چکی ہے اس میں پاکستان کا تجارتی خسارہ11
کھرب روپے کے لگ بھگ ہے لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے
میں امسال خسارے میں 1.61 فیصد کمی آئی ہے جبکہ برآمدات و درآمدات میں بھی
اضافہ ہوا ہے موجودہ صورت حال میں برآمدات میں اضافہ کو مزید بہتر کرنے
کیلئے جہاں قلیل مدتی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے وہیں پر ملکی معیشت کو
تنزلی سے نکالنے اور مستقبل میں معیشت کے ڈگمگاتے جہاز کو ڈوبنے سے بچانے
کیلئے طویل المدتی اقدامات کرنے کی ضرورت پر بھی کام کیا جانا چاہئے۔ملک
میں پنپتے مناپلی کے نظام ، بلیک مارکیٹنگ اور مہنگائی کا سبب بننے والوں
کا قلع قمع کرنا ہوگا ملکی مصنوعات کی پیداوار میں اضافہ کرکے سرمایہ کے
رحجان کو پروان چڑھانا ہوگا تاکہ کچی آبادیوں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق دے
کر ان کو بنیادی سہولیات سے مستفید کیا جاسکے اور نیاپاکستان ہاؤسنگ سکیم
کو بھی قابل عمل بنا کر پکے گھر بھی دیئے جاسکیں |