تاریخی شہر بہاول پور

تحریر : محمد اویس سکندر
بہاول پور شہر نواب بہاول خان نے آباد کیا جو نواب صاحب کے نام پر ہی بہاول پور کہلایا ۔ مدت تک یہ شہر ریاست بہاول پور کا دارالحکومت رہا ۔ عباسی خاندان یہاں حکمران رہا اور تاریخی حوالے سے بہاول پور کو اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ پاکستان کے بننے کے بعد پاکستان سے الحاق کرنے والی پہلی ریاست بہاول پور ہی ہے۔ بہاول پور پاکستان کا بارہواں بڑا شہر ہے۔ بہاول پور شہر کی پانچ تحصیلیں ہیں ۔ بہاول پور کے نور محل ، دربار محل اور گلزار محل اس کی خوبصورتی میں بہت اضافہ کرتے ہیں ۔ بہاول پور میں موجود قلعہ دراوڑ بہاول پور کو مزید خوبصورت اور تاریخی شہر کا درجہ دیتا ہے ۔ یہ شہر میں موجود ایک تاریخی پارک نیشنل پارک کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے اس شہر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہاں ایک بہت بڑا اور خوبصورت نور محل ہے جو اس وقت کے نواب آف بہاول پور نے بنوایا تھا۔ اب یہ تاریخی محل سرکاری دفاتر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ بہاول پور کی جدید عمارات میں لائبریری ، سٹیڈیم ، جامعہ اسلامیہ (اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور) ، صادق پبلک اسکول ، قائداعظم میڈیکل کالج ، کامرس کالج طلباء و طالبات کے لیے دیگر متعدد کالج اور فنی ادارے شامل ہیں ۔

اگر بہاول پور شہر کے کلچر کی بات کی جائے تو اسے نوابوں کا شہر بھی کہا جاسکتا ہے کیوں کہ یہاں بہت سے نواب اور بادشاہ اپنی زندگی بسر کر چکے ہیں ۔ یہ شہر تاریخ دانوں اور سیاحوں کے لیے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یہاں بہت سی تاریخی عمارتیں آج بھی موجود ہیں ۔ اگر بہاول پور کی زبان کے بارے میں بات کی جائے تو یہاں پر نوے فیصد آبادی لوکل لوگوں کی ہے اس لیے یہاں اردو زبان آسانی سے سمجھی جاتی ہے ۔ انگلش زبان صرف انگلش جاننے والے ہی پڑھ سکتے ہیں ۔ اس شہر میں پنجابی زبان زیادہ بولی جاتی ہے جس میں سرائیکی زبان خاصی بولی جاتی ہے۔ بہاول پور میں مختلف تہذیب کے لوگ رہتے ہیں جو بہاول پور خاص ، چولستان اور پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ صحرائی علاقوں میں رہنے لوگ پنجابی اور راجستھانی زبان ملا کر بولتے ہیں جب کہ کچھ علاقوں میں بلوچی زبان بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

یہاں کے لوگ جسامت میں بہت قدآور اور مضبوط ڈیل ڈول کے مالک ہوتے ہیں۔ صحرائی علاقوں میں رہنے والے لوگ زیادہ ترمٹی کے گھروں اور جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔یہ لوگ موسمی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے رہتے ہیں ۔ بہاول پور میں بہت سے شاپنگ مال بھی قائم ہیں جن میں رکھی ہوئی چیزیں سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی ہیں ۔ مچھلی بازار اور فرید گیٹ شہر کی دو پر رونق جگہیں ہیں جہاں ہر وقت لوگوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ بہاول پور کے دو شاپنگ مال تکبیر شاپنگ مال اور بوبی پلازہ لوگوں کی ہر طرح کی ڈیمانڈکو پورا کرتے ہیں ۔

سیاسی حوالے سے پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح بہاول پور کا سیاسی ماحول بھی کافی گرم رہتا ہے۔ یہاں دو ہزار سترہ کی مردم شماری کے بعد قومی اسمبلی کی پانچ جب کہ صوبائی اسمبلی کی دس سیٹیں انتخاب کے لیے مختص ہیں ۔ سیاسی حوالے سے میری خدا تعالیٰ سے دعا ہے کے بہاول پور سے عوام جو بھی نمائندے چنے وہ عوام کے لیے اچھے ترقیاتی کام کریں تاکہ بہاول پور شہر مزید ترقی کرے ۔ بہاول پور ایک ذرخیز اور زرعی علاقہ ہے یہاں ہونے والی فصلوں میں کپاس ، گنا ، گندم اور چاول بہت مشہور ہیں اور بہاول پور کے پھلوں میں آم ، امرود اور کھجوریں ایسے پھل ہیں جو دوسرے ممالک میں بھی درآمد کیے جاتے ہیں جب کہ بہاول پور کی سبزیوں میں پیاز ، ٹماٹر ، گھوبی ، گاجر اور آلو بھی کافی مشہور ہیں ۔
 
اس شہر کی مشہور شخصیات میں عبدالرحمان مکی لشکر طیبہ کے ممبر، سابق کرکٹر اعجاز اختر ، فٹبال کے کھلاڑی محمد عادل ، مرتضیٰ حسن (مستانہ) ٹی وی ایکٹر و کامیڈین ، مرتضیٰ حسین کرکٹر ، محترمہ نوشی گیلانی اردو شاعرہ ، شاہد خان پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین ، طارق بشیر چیمہ سیاست دان ، سابق پی سی بی چیئرمین زکاء اشرف اور ضیاء احمد کرکٹر کا تعلق بھی بہاول پور سے ہے۔

بہاول پور شہر کی تاریخ دیکھتے ہوئے ہم اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کے بہاول پور نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے جب پاکستان آزاد ہوا تو بہاول پور کے نواب کو برصغیر کی ریاستوں کے مختلف نوابوں نے بھارت سے الحاق کی دعوت دی تو اس وقت کے نواب آف بہاول پور کے تاریخی الفاظ یہ تھے کہ’’ ایک گھر کے دو دروازے ہوتے ہیں ایک دروازہ سامنے کی طرف کھلتا ہے جب کہ ایک دروازہ پیچھے کی طرف سے کھلتا ہے اور ایک عقلمند آدمی ہمیشہ سامنے کے دروازے سے ہی داخل ہوتا ہے اور میرے گھر کا سامنے والا دروازہ پاکستان کی طرف کھلتا ہے اور میں اپنے سامنے والے دروازے سے ہی اندر جاؤں گا یعنی میں پاکستان سے الحاق کرنے کا اعلان کرتا ہوں‘‘ ۔ اس لیے میری خدا تعالیٰ کی ذات سے دعا ہے کہ میرے پاکستان کے خوبصورت صوبے پنجاب کا خوبصورت شہر بہاول پور ہمیشہ قائم و دائم رہے۔ آمین۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025250 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.