ساس اور بہو کے مابین روایتی جنگ کی بنیادی وجوہات

ایک ماں اپنے بچوں کو لے کر بہت حساس ہوتی ہے جہاں تک میرا مشاہدہ رہا ہے ایک عورت جب تک فقط ایک بیوی ہوتی ہے اُس کے لئے سب کچھ اُس کا خاوند ہی ہوتا ہے جبکہ ماں بنتے ہی وہ ایسی کیفیت اختیار کر جاتی ہے کہ غیر ارادی طور پر اپنی ازدواجی زندگی کو بھی ثانوی حثیت میں لینے لگ جاتی ہے اُس کا سارا دیہان اپنے بچوں کی بہتر نشوونما اور افزائش کو یقینی بنانے میں ہی لگا رہتا ہے شب و روز کا فرق اُس کی اسی مشق میں مانند پڑنے لگتا ہے جو معملات کبھی ماں بننے سے پہلے انتہائی اہمیت کے حامل ہوا کرتے تھے اب ثانوی حثیت اختیار کر چکے ہوتے ہیں پھر بچوں کو جوان ہوتا دیکھ ایک ماں بہت سے ارمان سجا لیتی ہے جن میں سب سے زیادہ نمایاں اپنے بیٹے کے لئے دلہن لانا ہے جہاں بھی کسی شادی بیاہ یا کوئی اور موقع جب سب خاندان والے جمع ہوں ہر دل کو لگنے والی لڑکی کے وجود میں اپنے بیٹے کے لئے دلہن کا تصور موجود رہتا ہے دلہن کے انتحاب کے بعد بڑے ارمانوں سے اپنے بیٹے کی شادی کا اہتمام کرتی ہے یہاں تک سب ٹھیک رہتا ہے مسئلے مسائل شادی ہوتے ساتھ ہی شروع ہو جاتے ہیں ماں اپنے بیٹے کی توجہ بٹی ہوئی محسوس کرنا شروع کر دیتی ہے جو ایک فطری عمل ہے تب کچھ مائیں تو اس حقیقت کو تسلیم کر لیتی ہیں کہ اب میرے بیٹے کی ذات پر فقط میرا ہی حق نہیں اُس کی بہو کا بھی ہے کچھ مائیں اس کے بر عکس تناوَ کا شکار ہو جاتی ہیں اور اپنی بہو سے نفرت کر بیٹھتی ہیں جس کے نتیجے میں اپنے بیٹے کی نظر میں خود کو معتبر اور بہو کو بُرا ثابت کرنے کے لئے انواع و اقسام کے حربے استعمال کرتی ہیں اب تزکرہ کرتے ہیں بہو کا جس نے شادی سے پہلے بہت سے خواب سجائے ہوتے ہیں کہ میں شادی کے بعد ایک ملکہ جیسے راج کروں گی اور میرے خاوند پر مجھ سے بڑھ کر کسی کا حق نہیں ہو گا پھر شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد بہت سی خواہشات اور خواب سجائے اپنے سسرال روانہ ہوتی ہے اپنی خواہشات کے حصول لئے وہ حدود و قیود سے بغاوت میں بھی کچھ مذائقہ محسوس نہیں کرتی خاوند کی نظروں میں نمایاں حثیت کے حصول لئے اپنی جان لگا دیتی ہے یہاں ایک بات شامل کرنا چاہوں گا زیادہ تر مائیں رخصتی سے پہلے ہی اپنی بیٹی کو پٹی پڑھانے لگتی ہیں کہ تم نے سسرال جاتے ساتھ ہی بغیر کسی تاخیر کے خاوند کو اپنی مُٹھی میں کر لینا ہے اور اُس کے گھر والوں کو خود پر حاوی نہیں ہونے دینا اپنے خاوند کے سامنے اُن کی آوَ بھگت جب کہ اُس کی غیر موجودگی میں کوئی ضرورت نہیں ایسا کرنے کا مقصد درحقیقت خاوند کو باور کرانا کہ تمہارے گھر والوں کا بہت خیال ہے تاکہ اُس کی نظر میں ہمیشہ سرخرو اور اچھائی کا لبادہ اوڑھے رہو یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ بیٹی کو ماں یہ پیغام دے رہی ہے کہ صرف خاوند تمہارا جب کے اُس کے گھر والے تمہارے نہیں اب آپ خود سوچیں جب ماں بیٹی کو ایسی پٹی پڑھا کر بھیجتی ہے تو مشکلات کا ہونا تو لازم و ملزوم ہو گا اگرچہ ساس اچھی بھی ہو مجھے بہت حیرت ہوتی ہے ایک ماں اپنی بیٹی لئے ایسے سوچتی ہے جبکہ اُس کے معیار اپنی دلہن ک لئے یکسر تبدیل ہوتے ہیں ایک بات کو تو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ماں کو اپنی اولاد بہت پیاری ہوتی ہے اور زیادہ تر بیویاں بھی اپنے خاوند سے محبت کرتی ہیں اور کچھ جو محبت نہیں بھی کرتیں انہیں اس بات کی سمجھ ہوتی ہے اُن کے لئے اُن کے خاوند کا وجود کس قدر اہمیت کا حامل ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ساس اور بہو دونوں کے لئے ہی اہمیت کا حامل فرد واحد ہی ہوتا ہے جو ماں کے لئے اس کا بیٹا اور بیوی کے لئے اس کا خاوند ہے پھر یہ بات ان کو کیونکر نہیں جھنجھوڑ پاتی کہ ہر وقت گھر میں ناچاکی دیکھ کر اُسے کتنی ذہنی کوفت اور اذیت کا سامنا ہوتا ہو گا جو آہستہ آہستہ اس کے سکون کو دیمک کی طرح کھا جائے گی اور ایسی صورت میں ناقابل تلافی نقصان ساس بہو دونوں کا ہی ہو گا اس بات پر اختتام کرنا چاہوں گا کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں جس کی نظر میں خود کو معتبر اور دوسرے کو حقیر ثابت کرنے کے لئے ساس اور بہو نت نیا حربہ اور نئی سے نئی چال کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں وہ کبھی بھی ایسے حالات و واقعات کے پیش نظر لقمہ اجل بن سکتا ہے

Syed Zulfiqar Haider
About the Author: Syed Zulfiqar Haider Read More Articles by Syed Zulfiqar Haider: 23 Articles with 28420 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.