ابلاغ عامہ دور حاضر میں میڈیا کے نام سے روشن و تابناک
ہے، میڈیا مین پرنٹ اور الیکٹرونک دونوں شعبے شامل ہیں، اس چمکتی دمکتی
دنیا میں اب سچ و حق کا جنازہ نکالا جارہا ہے، مفاد پرست، خود غرض ،دولت کے
لالچی، شاہی درباری قلم کاروں نے صحافت کو بے انتہا بے عزت کیا ہے، زرد
صحافت کے میدان میں دوڑنے والوں نے اس مقدس پیشے کو بھی نہ بخشا، آج
پاکستان جس تکلیف کے دور سے گزر رہا ہے اس میںسب سے زیادہ کردار صحافیوں
اور میڈیا انڈسٹریز کا ہے، اپنے مفادات کی خاطر سچ کو چھپانے والوں کے سبب
حق دار اپنے حق سے محروم ہوئے،غریب عوام سیسک سیسک کی زندگی گزارنے پر
مجبور ہیں، معاشی حالات کی ابتر ی کے سبب عزتیں محفوظ نہیں رہیں، ایسے بے
ضمیر، خود غرض ،لالچی ،مفادپرست میڈیا پرسن نے جہاں عوام کا جینا دوبر
کردیا ہے وہیں اپنے بھی اداروں میں کام کرنے والوں لوگوں کو ادھ مرا کردیا
کیونکہ یہ بے حس لوگ اپنی تنخواہ اور مراعاتیں اس قدر بڑھائی کہ مالکان کا
بجٹ ہی آؤٹ ہوگیا ، اسی سبب دیگر ملازمین کی تنخواہ میںاب اضافہ ممکن
نہیں رہا، کیمرے کے سامنے آکر بڑے بڑے بھاشن دینا تو ان کا مشغلہ بن گیا
ہے لیکن عملی طور پر عوامی مسائل اور اپنے اداروں کے دیگر ملازمین کے مسائل
کو حل کرنے کیلئے اپنی خواہشات کو مارنا ان کیلئے نا ممکن ہے،گرم مشروب پی
کر اسمجھتے ہیں کہ یہ بڑے ہوگئے ہیں ،افسر شاہی سے لیکر نوکر شاہی اور وزرا
سے لیکر عسکری ایوانوں تک یہ اپنی وفاداریوں کا احساس دلاتے تھکتے نہیں، یہ
چند لوگ ہیں لیکن انہی چند لوگوں نے پوری صحافی برادری کو بدنام کیا ہوا ہے
ان میں بیشتر تو صحافی ہی نہیں ہیں بلکہ صرف اینکر ہیں یا شوقین قلم کار!!۔
معزز قائرین!! صحافت سے تعلق ہوئے گیارہواں سال چل رہا ہے اس اثنا میں ،میں
نے بیشتر ایسے سینئر صحافیوں کو دیکھا جو اپنے پروفیشلزم پرکسی طورسمجھوتہ
نہیں کرتے ہیں کیونکہ سمجھوتہ کرنے سے حق و سچ پر جھوٹ غالب آجائے گا،
اللہ اور اس کے حبیب ﷺ نے دین اسلام میں ہر کم میں حق و سچ کی تلقین کی ہے
یہی اسلام کا روشن راہ اور روشن مستقبل بھی ہے، میاں منشا، جہانگیر صدیقی،
ملک ریاض ، بلاول زرداری،آصف علی زرداری، میاں نواز اور شہباز شریف، اسفند
یار ولی، مولانا فضل الرحمٰن ، عمران خان ، مصطفیٰ کمال، فاروق ستار اور
دیگر جو با اختیار ،با اثر و رسوخ، دولت مندہیں ان کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں
اس بات سے خالی کہ ان کے ظاہری و پوشیدہ اعمال کس قدر منفی اورتلیکف دہ ہیں،
ایسے صحافی جو اپنی ذات کے سوا کچھ نہیں سوچتے ان میں ایسے بھی ہیں جو
تنظیم کی چھتری کے نیچے رہ کر سب کچھ فائدے اٹھانے کیلئے کسی حد تک چلے
جاتے ہیں، بظاہر خود کو لیڈر کہنے والے لیڈرنہیں گیڈر کی ذہنیت کے مالک
ہوتے ہیں جو حقیقت میں با صلاحیت اور منصب کے حقدار ہوتے ہیں ان کے خلاف
سازشوں کے انبار کھڑے کردیئے جاتے ہیں تاکہ حق و سچ کا بول بالا نہ ہوسکے
کیونکہ حق و سچ کیلئے بڑی بڑی کڑوی گولیاں کھانی پڑتی ہیں، بڑے بڑے مصائب
سے گزرنا پڑتا ہے یہ تو چاہتے ہیں کہ سب کچھ بآسانی آٹومیٹک ہوجائے اسی
لیئے ان کا طریقہ کار بھی درست نہیں ہوتا، میڈیا مالکان کو خراب کرنے والے
بھی یہی پرسن ہیں جو مالکان کو گمراہ کرتے ہیں اور حقیقت سے نا آشنا رکھتے
ہیں، پاکستانی میڈیا بھی فتن کے دور سے گزر رہی ہے اگر چیف جسٹس ثاقب نثار
نے ان بے ضمیر، بے حس ،منافق صحافی حضرات کا محاسبہ نہ کیا تو یہ اپنے منفی
غلیظ جراثیم دیگر کچے ذہنوں میں پیوست کردیں گے ،ان کا احتساب ہی پاکستانی
میڈیا کی بقا اور عزت کی ضمانت سمجھا جائے گا، کئی ایسے چینلز بھی آن ایئر
ہوئے تھے ممکن ہے کچھ ابھی بھی ہوں جن کا مقصد اپنے کالے دھن کو گورا کرنا
مقصود تھا ان چینلز کا بھی احاطہ کیا جائے ،میں یہ بات بڑے وثوق سے لکھ
سکتا ہوں کہ پاکستانی چینلز میں واحد اے آر وائی چینلز یسا ہے جس نے وطن
عزیز پاکستان اور اسلام کی خدمات میں لازوال کردار ادا کیا ہے، محب الوطن
اور دین کی رغبت رکھنے والے اے آر وائی کے مالکان کی ذاتی دلچسپی کی بنا
کر ہمیشہ سے ان کے ایجنڈے میں پاکستان اور اسلام کی بہتری کیلئے اصول و
قوائد قائم رہے ہیں اسی بابت اے آر وائی نیٹ ورک ہر پاکستانی کا پسندیدہ
چینلز رہا ہے، اس چینلز کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں کے اینکرز ہوں یا
صحافی تمام حدود اخلاق، حدود کردار اور حدود پروفیشنلز میں رہتے ہیں بحرکیف
سچائی اور حق گوئی کی زبان صرف اے آر وائی چینلز میں ہر دور میں ملی ہے ،
اسی لیئے یہاں پر اینکروں کا انتخاب، پروگراموں کا فارمیٹ حب الوطنی اور
دین کی محبت پر محیط رکھا جاتا ہے۔الحمد للہ ! میں نے اپنے اٹھارہ سالہ دور
میں ہمیشہ سے اس چینل کو ثابت قدم پایا ہے، یہی وجہ ہے کہ اے آروائی نیٹ
ورک کے مالکان نہ دولت کی ہوس رکھتے ہیں اور نہ ہی نام و شہرت کی بھوک لیکن
اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے صدقے انہیں ان دونوں نعمتوں سے سرفراز بھی کیا
گیا ہے، اے آر وائی نیوز سچ و حق کی ترجمان ہے تو اے آر وائی کیو ٹی وی
اسلامی خدمات کی ترجمان ، اے آر وائی ڈیجیٹل معاشرے کی سدھار مین اپنا
مثبت کردار کرتا چلا آرہا ہے، پاکستانی عوام اچھی طرح جانتی ہے کہ آصف
علی زرداری کا دور اقتدار ہو یا میاں نواز شریف کا دور اقتدار ان سب میں اے
آر ائی نے پروفیشنلزم کو کبھی بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔وقت اس بات کی
جانب اشارہ کررہا ہے کہ صحافتی اداروں، تنظیموں، گروہوں، گروپوں میں جو
آستین میں منافق ، مکار، سازشی عناصر چھپے بیٹھے ہیں انہیں بے نقاب کیا
جائے اور صحافتی اقدار کو بچانے کیلئے بے ضمیر، بے حس ،منافق صحافی حضرات
کو بے دخل کیا جائے اگر سینئرز صحافیوں نے اس بابت خاموشی، بذدلی کا مظاہرہ
کیا تو یہ منفی عناصر صحافت کو یرغمال بناکر رکھ دیں گے ، ہماری صحافتی
تنظیمیں ،عہدیداران و کارکنان بھی ایسےبے ضمیر، بے حس ،منافق نام نہاد
صحافیوں سے تنگ ہیں، امید ہے کہ اس بابت حکومت وقت ،سپریم کورٹ اور خود
صحافتی اتنظیمیں عملی مظاہرہ پیش کرکے صحافت کو صاف و شفاف بنانے کیلئے
اپنا مثبت کرداد ادا کریں گے تاریخ میں ان کانام سنہری حروف میں لکھا
جائیگا۔اللہ پاکستان کا حامی ناظر رہے اور صحافت کے ایوان کو بےضمیر، بے حس
،منافق صحافی سے جان چھڑائے آمین ثما آمین۔۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان
پائندہ باد۔۔۔۔!! |