بلال ایک سلجھا ہوا اور شریف خاندان کا بیٹا تھا صوم و
صلوٰۃ کا پابند اور اپنے کام سے کام رکھتا ، بچپن میں ہی مالی حالات کی
خرابی کی وجہ سے ایک چھوٹی سی دوکان پر بطور سیلز مین کام شروع کیا اور کچھ
عرصہ بعد ہی اپنے چال چلن اور شرافت کی وجہ سے معقول تنخواہ پر دوکان کے
مالک نے اس کو ایک دوکان کھول دی یہاں سے اس کی آمدنی میں اضافہ ہو گیا اور
اس نے کرایے پر ایک کمرہ لے لیا لیکن اس کے معمول میں کوئی فرق نہیں پڑا
نئے محلے میں جہاں سنگل بندے کے رہنے پر پابندی تھی اس کو اپنی شرافت کی
وجہ سے بغیر کسی تگ و دو کے کمرہ مل گیا، ماہ و سال یونہی گزرتے رہے اور اس
کے حلقہ احباب میں بھی اضافہ ہوتا گیا ان ہی دنوں میں اس کی دوستی ناصر سے
ہوگئی ناصر بھی دکھنے میں شریف اور معقول انسان تھا لیکن اس میں ایک برائی
تھی کہ وہ کبھی کبھار چرس کا نشہ کرتا تھا ، بلال کو چرس تو دور کی بات
سیگریٹ کے بارے میں بھی زیادہ معلومات نہیں تھی اس کو اس وقت بتا چلا جب وہ
ایک تندور پر روٹی لینے گئے اور ناصر نے روٹی کے پیسوں کے ساتھ سو روپیہ
تندور والے کے ہاتھ میں پکڑایا اور اس سے کہا کہ سو روپے کی ’’دوائی‘ ‘ دے
دو۔۔۔۔۔
قصہ مختصر کہ ناصر نے بلال کو اس ’’دوائی‘‘ کے بہت سے فوائد بھی بتائے جن
میں سر فہرست یہ تھے کہ ’’دوائی‘‘ یعنی چرس پینے سے نظام ہضم ٹھیک ہوتا ہے
اور خوب بھوک لگتی ہے، چرس پینے والے بندے کا رنگ سرخ و سفید ہوتا ہے جس کی
وجہ سے وہ صنف مخالف کے لیے پرکشش ہوتا ہے، ایسا بندہ غیرت مند ہوتا ہے اور
دوستوں کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہوتا ہے، سخت تھکاوٹ کے بعد اگر ’’دوائی‘‘
لی جائے تو جسم پرسکون ہو جاتا ہے اور دماغی سکون بھی حاصل ہوتا ہے وغیرہ
وغیرہ۔۔۔۔ بلال نے فوراََ تو کوئی جواب نہ دیا لیکن ایک دن وہ بھی سو روپیہ
لے کر اس تندور پر کھڑا تھا اس کے بعد بلال کے ساتھ وہی ہوا جو نشے کے عادی
افراد کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔
کچھ عرصہ پہلے تک یہ معاشرتی برائی بہت کم تھی اس کی دو اہم وجوہات تھیں
پہلی یہ کہ منشیات کی قیمتیں زیادہ تھیں اور ہر جگہ دستیاب نہیں ہوتی تھی
لوگ اس کو قابل نفرت سمجھتے تھے جس کی وجہ سے منشیات فروش بھی لوگوں کے رد
عمل سے بچنے کے لیے سامنے نہیں آتے تھے لیکن اب منشیات بیچنا اور خریدنا
اتنا آسان ہو گیا ہے جتنا دوکان سے نمک یا چینی خریدنا اور اس کی مانگ اور
پیداوارزیادہ ہونے کی وجہ سے اس کی قیمتیں بھی ہر کسی کی پہنچ میں
ہیں۔دوسری اہم وجہ معاشرے کے اندر والدین ، اساتذہ اور بزرگ حضرات کا
احترام تھا یہاں تک کہ ان کے سامنے سیگریٹ پینا تو دور کی بات بیٹھنا بھی
مشکل تھا ، پھر وہ دور آیا کہ والدین اور بزرگوں سے چھپ کر سیگریٹ پیے جانے
لگے لیکن اب والدین اور بچے ایک ہی محفل میں بیٹھ کر سگریٹ پیتے ہیں بلکہ
منشیات تک ایک دوسرے سے شئیر کر کے استعمال کرتے ہیں ، نوجوان نسل تو اس کو
فیشن کے طور پر بھی استعمال کرتی ہے اور ہیرو بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
قارئین محترم! اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 27 کروڑ
کے لگ بھگ اور پاکستان میں تقریباََ 76 لاکھ افراد منشیات کا استعمال کرتے
ہیں جن میں 78 فیصد مرد اور باقی 22 فیصد خواتین شامل ہیں ۔ اس میں بھی سب
سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ان 76 لاکھ منشیات کے عادی افراد میں
زیادہ تعداد 24 سال سے کم عمر جوانوں کی ہے ، ان لوگوں تک منشیات کیسے
پہنچی اور یہ لوگ اس کے عادی کب بنے یہ زیادہ حیرت انگیز بات نہیں اس کے
لیے بلال کی مثال ہی کافی ہے ، یوں تو یہ پورے پاکستان سے جمع کی گئی وہ
رپورٹ ہے جن لوگوں کے کیسز کسی نہ کسی طریقے سے مختلف این جی اوز ،
ہسپتالوں اور سروے سے سامنے آئے لیکن بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو ابھی تک
کسی کی نظر میں آئے بغیر یہ کاروبار کر رہے ہیں میں پورے پاکستان کے بارے
میں لکھنا چاہتا ہوں لیکن اس وقت میرے لیے سر فہرست میرے اپنے شہر بہارہ
کہو اسلام آباد ، مری اور قرب و جوار کے علاقے ہیں کیونکہ باقی علاقوں کی
خبریں اور تفصیلات اخبارات میں ہی پڑھنے کو ملتی ہیں جب مکمل معلومات ملیں
تو باقی علاقوں کے بارے میں بھی لکھوں گا۔
قارئین کرام! بہارہ کہو کے علاقے میں اس وقت منشیات فروشی کا دھندہ اپنے
عروج پر ہے سیگریٹ،چرس اور شراب کا کاروبار مختلف ٹھکانوں کے علاوہ گھروں
میں بھی جاری ہے اور اس مکروہ دھندے میں مرد تو شامل ہیں ہی عورتیں بھی کسی
سے پیچھے نہیں ہیں اور خاص طور پرچرس اتنی عام ہو گئی ہے کہ جس گلی محلے سے
گزریں آپ کو چرس کی بو محسوس ہو گی اور اس کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ
پہلے جو لوگ اس سے نفرت کرتے تھے اب وہ بھی اس کی بو کے عادی ہو گئے ہیں
اور بچے بھی اس کو عام سگریٹ کی طرح ہی سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اس نشے
کی طرف جلدی راغب ہو جاتے ہیں ، بہارہ کہو کے محلوں نئی آبادی، نین سکھ ،
ڈھوک جیلانی اور ڈھوک موہری اس مکروہ دھندے کا خاص مرکز ہیں جبکہ آپ کو کسی
بھی قسم کی شراب چاہیے ہو تو شاہ پور ، گرین ویلی ، ملپور سے با آسانی مل
سکتی ہے اور مقامی پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے سکولوں ،
کالجوں میں بھی ایسے بہت سے موت کے سوداگر موجود ہیں جنہوں نے سکول کے
معصوم بچوں کو نشے کی لت میں مبتلا کر دیا ہے اور ان کا مستقبل تباہ کر دیا
ہے پچھلے کچھ عرصہ میں یہاں پر چرسیوں اور پوڈریوں کی تعداد میں خطرناک
اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے دو تین اموات بھی ہو چکی ہیں اور کئی
نوجوان اپنا ذہنی توازن بھی کھو چکے ہیں۔
محترم قارئین! منشیات فروشی کی لعنت نے اس وقت تحصیل مری کو بی اپنی لپیٹ
میں لیا ہوا ہے پہلے پہل مری میں چرس کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا اور
چرسی بندے سے لوگ دور دور رہتے تھے لیکن اب اس وبا نے مری کے ہوٹلوں ،بس
سٹاپوں ،سکولوں کالجوں اور حتیٰ کہ کئی گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا
ہے اور دھڑلے کے زور پر یہ مکروہ دھندہ جاری ہے دیول، اوسیاہ کشمیری بازار
اور گھوڑا گلی میں اس کے خاص اور منظم نیٹ ورک موجود ہیں ،جب کے سنی بنک کے
علاقے اور ڈگری کالج کے ارد گرد کچھ کالی بھیڑیں سکول کالج کے بچوں تک یہ
زہر پہنچا رہے ہیں ، جب کہ ڈرائیور حضرات کی اکثریت بھی اس لعنت کو پھیلانے
میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے ،مری کے مشہور پی سی ہوٹل میں شراب کی سرعام
فروخت اب معمول بن چکی ہے اگر ان معاشرتی برائیوں پر جلد قابو نہ پایا گیا
تو کل آپ کے اور ہمارے بھائی ،بیٹے اس کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ اس لیے ان
لوگوں کے خلاف آواز اٹھانا میرا اور آپ کا فرض ہے ۔اس سلسلے میں سوشل میڈیا
پر موجود مری سے ایک پیج ’’کرپشن لیکس‘‘کافی انکشافات کر رہا ہے اور ان
تمام ٹھکانوں اور موت کے سوداگروں کے نام بھی اس پیج پر موجود ہیں اگر
انتظامیہ چاہے تو ان سب لوگوں کو اپنی پکڑ میں لا کر سخت سزا دے سکتی ہے تا
کہ موت کے یہ سودا گر اپنے انجام کو پہنچ سکیں ۔ لیکن حالات و واقعات کو
دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انتظامیہ اندرون خانہ ان لوگوں کی سہولت کار ہے
ورنہ کبھی اتنی دیدہ دلیری سے یہ کاروبار نہ چل رہا ہوتا۔ اب اس کالم کے
توسط سے میں تحصیل مری کی انتظامیہ، کاروباری افراد اور معززین سے ہاتھ جوڑ
کر اپیل کرتا ہوں کہ خداراہ ان موت کے سوداگروں سے اپنی نوجوان نسل اور
بچوں کو بچانے کے لیے اقدامات اٹھائیں یہ نہ ہو کہ کل آپ ہاتھ ملتے رہ
جائیں، باقی اسلام آباد پولیس کو بھی چاہیے کہ ان عناصر کے خلاف گھیرا تنگ
کرے تا کہ کسی اور کے گھر کا چراغ گل نہ ہو سکے اور بلال جیسے کار آمد
نوجوان بھٹکنے سے بچ سکیں۔ |