گذشتہ چند روز سے جاری می ٹو مہم نے تیزی پکڑلی ہے اور ہر
گزرتے دن کے ساتھ شدت آتی جارہی ہے۔
دراصل، اس کی شروعات ۲۰۰۶ میں ایک سیاہ فام خاتون’ترانہ برکے‘کے ایک ٹوئٹر
پیغام سے ہوئی جو خود بھی چھ برس کی عمر میں جنسی تشدد کا شکار ہوچکی تھی۔
اس کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا شاید سیاہ فام ہونے کے سبب۔ جب اسی بات کو
ایک سفید فام خاتون امریکی اداکارہ الیشا میلانو نے ٹوئٹ کیا تو یہ عنوان
شہرت پاگیا اور یوں اس مہم میں شدت آتی گئی ۔ اس متاثرہ خاتون کا تعلق
ہالی ووڈ فلم انڈسٹری سے تھا. اس نے ایک مشہور ڈائریکٹر’ہاروے وینسٹین‘ پر
یہ جنسی تشددکا الزام لگایا اور پھر یہ بات سچ ثابت ہوئی. ان کے اس کارنامہ
کی پذیرائی کرتے ہوئے ٹائم میگزین نے ۲۰۱۷ء میں انہیں ’پرسن آف دی ایئر‘کا
خطاب دے کر میگزین کے کور پیج پر ان کی تصویر لگا کر "دی سائلنس بریکر" کی
سرخی لگادی۔
امریکہ سے کوچ کرکے آئی یہ مہم آج ہندوستان میں کافی شور بپا کئے ہوئے ہے۔
ہندوستان میں اس کی شروعات ایک فلمی اداکارہ تنوشری دتہ نے مشہور فلم
اداکار نانا پاٹیکر سے کی تھی. اس نے اس پر یہ الزام لگایا ہے کہ دس سال
پہلے ایک فلم کے سیٹ پر موصوف نے اس کے ساتھ بدسلوکی کی تھی اور اب عالم یہ
ہے کہ آئے دن نت نئی با قدر شخصیتوں کے چہرے سامنے آتے جارہے ہیں۔
ہندوستان کے مشہور صحافی اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ ایم جے اکبر پر
بھی سنگین الزام لگائے گئے جس کے نتیجے میں انہیں اپنے منصب سے ہاتھ دھونا
پڑا۔ صرف اکبر جی ہی نہیں بلکہ ایک سے ایک نئے چہر اس زد میں آئے ہیں اور
انہوں نے استعفی دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ یہ حقیقت ہے کہ عورتیں جنسی
استحصال کا شکار رہی ہیں اور دوشیزاوں کے اوپر کوئی نہ کوئی ہاتھ صاف کرنے
کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں صرف مردوں کی ہی
ہوس شامل ہے ۔ نہیں ، ایسا بالکل نہیں ہے ۔ اس میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض مواقع پر عورتیں مجبور ہوجاتی ہیں ۔ خاص طور
سے فلم دنیا میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ دوشیزاؤں کو شہرت پانے کے واسطے
اپنے پروڈیوسر، ڈائریکٹر، فائنانسر اور پروموٹرکو خوش کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس
کا اعتراف مشہور اداکارہ ریکھا نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران بھی کیا تھا
کہ جن عورتوں کو اپنے پاکیزگی کردار کی حفاظت کرنی ہوانہیں فلم صنعت کا رخ
نہیں کرنا چاہیے اوراس بات کا اعتراف مشہور خاتون انگلش جرنلسٹ شوبھاڈے نے
بھی ایک مضمون میں کیا ہے۔
مسئلہ یہ ہےکہ اگرعلم ہوجانے کے بعد وہاں جائیں تو پھر واویلا کیوں؟!پھر تو
انہیں اپنے ہی دامن میں جھانکنے کی ضرورت ہے، دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کی
نہیں۔ اگر لاعلمی کی بنیاد پر جاتی ہیں تو علم ہوجانے کے بعد واپس کیوں
نہیں ہوجاتیں؟۔ کیا انہیں عفت سے بڑھ کر دولت و شہرت کی پرواہ ہے؟!
قابل تامل بات ہے کہ کئی خواتین نے الزام لگایاہے کہ وہ مسلسل جنسی زیادتی
کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب انکا کوئی استحصال کرتا رہا
تو وہ کیوں کر ان کے ساتھ مسلسل تعلقات بنائی ہوئیں تھیں؟
کیا ان کے لئے زمین تنگ تھی یا عزت کی پرواہ نہ تھی؟!
’ملک خداتنگ نیست پائے گدا لنگ نیست۔‘
یہ کڑوی حقیقت ہے کہ بعض خواتین ترقی پانے کے لیے غلط راہوں کا استعمال
کرتی ہیں جس کی وجہ سے دیگر خواتین بھی خود شرمسار ہیں۔ آج آزادی نسواں
کا سہارا لے کر جو عورتیں اتنی بے باک ہوئی جارہی ہیں اور جنسی ہراسانی کے
دوران ہونے والی تمام حرکتوں میڈیا پر تشہیر کررہی ہیں، یہ قابل مذمت حرکت
ہے۔ بہتر تو یہ تھا کہ صرف قانون کا سہارا لیتیں تاکہ’سانپ بھی مرجائے اور
لاٹھی بھی نہ ٹوٹے!‘
غور طلب بات یہ کہ ان واقعات کا ماضی دس سے بیس سال پرانا ہے۔ سوال یہ کہ
می ٹو مہم کا سہارا لیتے ہوئے جن خواتین نے اپنے ظلم کا جو سلسلہ قائم کیا
ہوا ہے وہ اب تک کہاں تھیں ؟ جبکہ ان میں سے بیشتر قانون کو بہت اچھی طرح
سے جانتی ہیں۔ صحافی ہیں اور وہ بھی بے باک صحافی۔ ظلم کے خلاف ہمیشہ سے
آواز بلند ہوتی رہی ہے۔اگر مجبوری تھی تو کون سی مجبوری تھی جو کردار پر
غالب آگئی اور اس وقت مغلوب ہوگئی ہے۔۔۔؟! ’تالی ایک ہاتھ سے نہیں
بجتی،دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔‘
می ٹو تحریک کے پس پشت سیاسی کارفرمائیاں بھی ہیں جو دیگر مسائل سے عوام کا
ذہن بھٹکانے کے لیے تشہیر کی جارہی ہے۔ رافیل معاہدہ، پٹرولیم کی قیمتوں
میں اضافہ، بینکوں کی لوٹ اور ماب لنچنگ جیسے معاملات اور پھر بابری مسجد۔
لیکن می ٹو مہم نے حکومت کے گذشتہ سارے کئے دھرے کو طاق نسیاں کے حوالے
کردیا اور یوں حکومت نے شطرنجی چال سے کامیاب پراپت کرلی۔
آج ملک کو می ٹو کی متاثرین سے بڑھ کر اور بھی کئی مدعے کی ضرورت ہے جسے
جان بوجھ کر چھپا یاجا رہا ہے۔ نجیب کی گمشدگی، لکھنو اور علی گڈھ انکاونٹر
کے معاملات کودبا یا جارہا ہے۔ یہی میڈیا ہے اور یہی حکومت کی پالیسی ہے کہ
وہ اپنے بچائو میں کسی کی بھی عزت کو پامال کردے۔ می ٹو تحریک بجا ہے لیکن
اس وقت اس کا استحصال کیا جارہا ہے۔
ھر سخن جایی و ھر نکتہ مقامی دارد۔ |