کارٹونز کا اثر

ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ہم ایک الگ ثقافت، تہذیب، روایات، علم، یقین اور مذہب کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور ایسے ہی مختلف ممالک کے لوگ اپنی اپنی ثقافت و روایات رکھتے ہیں. لیکن ہمارے معاشرے کا تہذیبی معیار ہمیں دوسروں سے مختلف بناتا ہے. ہم اپنی تاریخ کے حوالے سے کافی امیر تصور کیے جاتے ہیں چاہے وہ تاریخ ثقافت ہو، تاریخ اسلام یا ہماری زبان. یہ بات سچ ہے کہ مشترکہ زبان، ثقافت اور مشترکہ عقائد کسی بھی قوم کو یکجا کر سکتے ہیں اور ترقی یافتہ قومیں اپنے مشترکہ عقائد پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتیں. آج ہمارے عقائد اور نظریات پر جس طرح کا خطرہ لاحق ہے اسکے مقابلے میں ہماری لاپرواہی بھی کمال کی ہے. غیر ملکی فلموں اور ڈراموں نے جس طرح ہمارے گھروں تک رسائی حاصل کی اسکا خمیازہ ہم بھگت ہی رہے تھے کہ ہمارے بچوں پر حملے ہونا شروع ہوگئے. غیر ملکی کارٹونز بالخصوص ہندی زبان میں ترجمہ کیے گئے کارٹونز نے ہمارے بچوں پر بڑا اثر ڈالا ہے.

کارٹونز نا صرف مزاح کا ذریعہ ہیں بلکہ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے ایک ملک کی ثقافت، تہذیب یا مذہبی اقدار کو بآسانی دوسروں تک منتقل کیا جاسکتا ہے.

بچیں جب اس طرح کے کارٹونز دیکھتے ہیں تو وہ جذباتی اور نظریاتی طور پر انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں. وہ یہ سمجھ نہیں پاتے کہ کہ اصل زندگی کی کہانی نہیں بلکہ ایک فرضی اور تصوراتی کرداروں پر مشتمل ہیں. اس ہی وجہ سے بچے اس طرح کی حرکات گھر، اسکول اور دوستوں کے ساتھ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں.

2006 میں لاہور میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جو بچے روزانہ کی بنیاد پر کارٹونز دیکھتے ہیں ان میں باقی بچوں کے مقابلے میں زیادہ جارہیت کے جذبات پائے جاتے ہیں. اس کے ساتھ ساتھ کارٹونز میں دکھنے والے کھلونے یا اس جیسے کپڑے لینے خواہش بھی ان میں پنپ رہی ہوتی ہے. ان بچوں کی عمریں 5 سے 10 سال کے درمیان ہیں.

دوسری تحقیق کے مطابق ہندی زبان میں ترجمہ کیے گئے کارٹونز بچوں کی زبان خراب کر رہے ہیں. بچوں نے پسندیدہ کرداروں کے ڈائلاگ اور انکا انداز اپنانا شروع کردیا ہے. تحقیق سے مذید پتہ چلا کہ بات زبان تک محدود نہیں ہے بلکہ اب بچے بھائیوں بہنوں کے ساتھ بھی اس ہی انداز میں کھیلنا پسند کرتے ہیں. کمزور ذہنوں پر اسکا اثر کافی تیزی سے بڑھتا چلا جا رہا ہے.

بات زبان تک رہتی تو بھی کافی تھا لیکن یہ بات اب اس سے آگے جاچکی ہے حالیہ تحقیق کے مطابق ہندی کارٹونز کے ذریعے ہندو کلچر اور مذہبی اقدار نے بھی بچوں میں جگہ بنا لی ہے. بچوں کی آپس میں گفتگو میں پرنام، نمستے جیسے الفاظ بھی عام ہوچکے ہیں اور جس طرف یہ حالات جا رہے ہیں ہمارے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے. معصوم بچوں میں تفریح کے نام پر اس کھیل کو نا روکا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب اردو زبان اپنی وقعت کھو دیگی اور اس سے سنگین نتائج اسلامی اقدار کے ہونگے جو زیادہ اہم ہیں...

Muhammad Mudassir Raza
About the Author: Muhammad Mudassir Raza Read More Articles by Muhammad Mudassir Raza: 5 Articles with 3166 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.