راولپنڈی کی ضلع کچہری میں ایک شخص نے عدلیہ کے کردار کا
ماتم کرتے ہوے کہا تھا ْ اس ملک میں انصاف مر چکاہے بس اس کی دو بہنیں رشوت
اور سفارش زندہ ہیں ْ اس سفید ریش کے ساتھ ہوا یہ تھا کہ اس نے اپنے نوجوان
کالجیٹ بیٹے کو موٹر سائیکل دے کر مہمانوں کے لیے سموسے لانے کے لیے بھیجا
۔ مہمان چائے پی کر چلے بھی گئے مگر نوجوان واپس نہ آیا ۔ موبائل فون پر ْ
آپ کامطلوبہ نمبر بند ہے ْ کی گردان نے اسے پہلے غصہ دلایا پھر تشویش میں
مبتلا کر دیا۔ جب اندھیرا گہرا ہونا شروع ہوا تشویش بھی گہری ہو گی ۔ کسی
ممکنہ حادثے کے خوف نے سر اٹھایا ۔ شہر کے سارے ہسپتال چھان کر بیٹھے تو
والد کا فون بج اٹھا۔ کال کرنے والے نے بتایا کہ میں تھانے کی حوالات میں
بند اپنے عزیز سے ملنے گیا تھا۔ آپ کے بیٹے نے یہ نمبر دیا اور اطلاع دینے
کی درخواست کی تھی ْ
باپ بیٹے کی کہانی یہ تھی کہ بیٹے کو پولیس والے نے روکا ، لائسنس اور موٹر
سائیکل کے کاغذات موجود تھے ۔ پولیس والے نے ایک سول کپڑوں میں ملبوس شخص
کو پیر ودہائی کے بس اسٹینڈ پر چھوڑ کر آنے کا کہا، بیٹے نے گھر جلدی پہنچے
اور مہمانوں تک سموسے پہچانے کا عذر پیش کیا۔ اس بات پر تلخ کلامی ہوئی ۔
سموسوں سمیت موٹر سائیکل تھانے میں اور بیٹا حوالات میں بند ہو گئے ۔ باپ
نے تھانے پہنچ کر اس رویے پر احتجاج کیا تو والد کو بھی بیٹے کے ساتھ
حوالات میں بند کر دیا گیا۔محکمے کے بڑوں تک بات پہنچی تو باپ پر منشیات
فروشی کا مقدمہ درج ہو چکا تھا۔ عدالت میں پیشی پر ڈیوٹی مجسٹریٹ نے باپ
بیٹے کی بات سنے بغیر انھیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بجھوا دیا ۔ اس بے انصافی
پر باپ نے ہتھکڑیوں میں جکڑے دونوں ہاتھوں سے مکہ بنا کر مجسٹریٹ کو مارنے
کی کوشش کی جو عدالت کے سٹینو گرافر نے ناکام بنا دی اور پولیس کو ایک اور
مقدمہ درج کرنے کا حکم صادر ہو گیا۔
تفتیشی افسر کے مطابق ٹریفک پولیس کے اہلکار نے موٹر سائیکل کے کاغذات نہ
ہونے پر لڑکے کا چالان کیا تو نوجوان نے اس سے ہاتھا پائی کی اور چالان بک
ٹریفک اہلکار سے چھین کر پھاڑ دی۔ نوجوان کے باپ کے خلاف تفتیشی افسر کے
پاس ایک شہری کی درخواست موجود تھی جس میں منشیات فروشی کا الزام لگایا گیا
تھا ۔ پولیس نے چھاپہ مارا اور ملزم کو منشیات سمیت گرفتار کر لیا۔عدالت سے
باپ بیٹے کی ضمانت منظور ہونے کے بعد وکیل کے چمبر میں بیٹھے تفتیشی افسر
کے مطابق جذباتی بڈھے نے خود ہی اپنے کیس کو الجھا لیا تھا۔اس کا جذباتی
بڈھے کے پاس جواب نہیں تھا مگر جب بڈھے نے کہا ْ اس ملک میں انصاف مر چکاہے
بس اس کی دو بہنیں رشوت اور سفارش زندہ ہیں ْ تو اس کا جواب تفیشی افسر دے
سکا نہ وکیل صاحب۔میں سوچتا ہوں اس کا جواب مجسٹریٹ کے پاس بھی نہیں ہو گا
جس نے ذاتی انتقام میں ایک جذباتی بڈھے پر ایک نیا مقدمہ درج کرنے کا حکم
دیا تھا۔ |