اگر آپ سکون چاہتے ہیں.........

اگر آپ اپنی زندگی پرسکون چاہتے ہیں تو اس ملک میں رہتے ہوئے کچھ کاموں کا خود کو عادی بنالیں تو سکھی رہے گے. بصورت دیگر کیا ہوگا آئیے ملاحظہ فرمائیں.

اگر آپ سوشل میڈیا پر ہے. آپ اپنی رائے کا اظہار کرنا جانتے ہیں تو لوگوں کی گالیاں لعن طعن، سننے کی بھی عادت ڈال لیجیے. آپ کی قوت برداشت قوی ہونی چاہیے.

اگر آپ عام شہری ہے تو آپکو ناکوں پر رکنا پڑے گا. آپکو تلاشی بھی دینی پڑے گی. آپکو پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی بدتمیزی بھی برداشت کرنی ہوگی چونکہ آپ عام شہری اور عام شہری ہونا آپ کا قصور ہے. آپ زیادہ بحث سے دور رہیے اور چپ چاپ جو ہو اسے سہتے رہیے ورنہ بصورت دیگر آپ ذلیل و خوار ہونے کے ساتھ بھاری جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا. چونکہ آپ عام شہری ہیں. اگر آپ وزیر ہے، صدر یا سیاسی جماعت کے کسی بڑے عہدیدار ہیں یا اسکے دوست، چاچا، ماما، رشتے دار ہیں تو آپ کو ناکوں پر بھی نہیں روکا جائے گا نہ آپ سے تلاشی ہوگی نہ آپ سے کوئی بدتمیزی کرے گا.

اگر آپ عام شہری ہیں تو آپ کو وزیر مشیر کے پروٹوکول پر سڑکوں پر ذلیل و خوار ہونا ہوگا اسکی بھی عادت ڈال لیں. پروٹوکول کے خلاف اگر آپ نے بولنے کی جرات کی تو تھانے جانے کے ساتھ بھاری جرمانہ بھی دینا پڑے گا. سو چپ چاپ اپنی عافیت جانتے ہوئے اسے بھی برداشت کیجیے.

اگر آپ کا کوئی چھوٹا موٹا نقصان ہوگیا ہے تو اسے اپنے سر کا صدقہ سمجھ کر بھول جائیں. تھانے میں رپورٹ کرنےکی غلطی نہ کریں. اگر آپ یہ غلطی کر بیٹھے تو پھر تھانے کے چکر کاٹتے رہے مگر آپ کے نقصان کا ازالہ تو شاید ہی ہوں. مگر خواری آپکا مقدر بن جائے گی.

معاشرتی بے حسی اور ظلم کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں. میں ایک نجی اسکول میں بطور استاد ملازمت کرتا تھا. اسکول میں بچوں کی تربیت کا کوئی انتظام نہ تھا. طلبہ انتہائی بدتمیز تھے. تنگ آکر میں نے مہینے بھر کے نوٹس پر استعفیٰ دے دیا. میں اپنی تنخواہ لینے گیا تو میری تنخواہ کا نصف حصہ کاٹ دیا گیا. میں نے تنخواہ لینے سے انکار کردیا. میں نے کئی چکر لگائے مگر مجھے میری تنخواہ نہ ملی. مجھے کہا گیا جو مل رہی لے لو ورنہ تو یہ بھی نہیں ملے گی. مجبوراً میں نے تھانے میں درخواست دے دی. میں تھانے کے کئی چکر کاٹتا رہو مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی. الٹا ایک دن میں تھانے گیا دروازے سے اندر گیا جہاں میں نے درخواست جمع کرائی تھی. وہ جگہ تلاش کرنے کے باوجود نہ ملی تو میں واپس دروازے کے پاس آیا اور دروازے پر بیٹھے پولیس اہلکار سے پوچھا کہ ہیڈ محرر کہاں ہوتا ہے. پولیس اہلکار نے فوراً مجھے کہا کہ تم دروازے سے اندر کیسے گئے میں کم عمر تھا سو اس نے مجھے دباؤ میں ڈالنے کی کوشش شروع کردی. آخر کار اس نے چائے پانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ خیال کرنا. میں نے کہا پیسے ہوتے تو تھانے کا چکر کاٹ رہا ہوتا. بلا آخر میری خوش قسمتی کہ بغیر پیسے دیئے بغیر میری جان بخشی ہوگئی. اس دن کے بعد میں پھر کبھی تھانے نہ گیا. یہ حال ہے ہمارے تھانے کچہریوں کا ہے.
یاد رکھیں اگر آپ کا کوئی تنازعہ ہے تو اسے تھانے سے باہر حل کرنے کی عادت ڈال لیجیے اسکے برعکس آپ اگر تھانے سے تنازع حل کرنے کی کوشش کرے گے تو آپ کا تنازعہ سلجھنے کے بجائے کے بجائے مزید الجھے گا. تھک ہار کر آپ دوسرے فریق سے معافی مانگنے پر مجبور ہوجائے گے.

اگر آپ کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی دیکھ رہے تو چپ چاپ وہاں سے گزر جائیں. اگر آپ کے ساتھ کوئی زیادتی ہورہی ہے تو اسے چپ برداشت کرنے کی بھی عادت ڈال لیں. بصورت دیگر آپ کی خواری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا.

اگر آپ کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر بھی خاموشی اختیار کرنے کی عادت ڈال لیں. ورنہ آپکی تعلیمی زندگی ہو سوالیہ نشان لگادیا جائے گا.

اگر آپ کسی پرائیویٹ اسکول میں استاد ہیں تو آپ خود کو عادی ذلالت، ظلم، ناانصافی اور برائی کو دیکھنے سننے کی عادت ڈال لیں. اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے تو آپ کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے گا.

آپ اگر یونیورسٹی کے طالب علم ہیں تو استاد کے نقطہ نظر سے اختلاف نہ کرنے اور ذیادہ سوالات نہ کرنے کا بھی خود کو عادی بنالیں. اگر آپ یہ عادت نہیں ڈالتے تو آپ خود کو فیل ہونے کے لیے تیار رہیں.
آپ غلط بات پر بھی ہاں میں ہاں ملائے اور یس سر کرتے رہیں. آپ اگر چاپلوس ہیں تو نہ صرف آپ کے پیپر میں نمبر اچھے آئے گے بلکہ آپ کی جگہ ہر ادارے میں یے.

اسکے برعکس آپ سیدھی بات کرنے اور سچ بولنے سننے کے عادی ہیں تو آپ خود کو ناپسندیدہ ترین افراد کی فہرست میں اول درجوں پر دیکھیں گے.

آپ اپنا کیس عدالت عدالت میں لے جانے سے بھی گریز جریں. اگر آپ کے خلاف عدالت میں کسی نے جھوٹا کیس بھی دائر کردیا ہے تو معافی مانگ لیجیے. جتنے پیسے دوسرا فریق مانگے دے دیجیے. اس طرح آپکی زندگی کے دس، پندرہ سال ضائع ہونے سے بچ جائے گے.

آپ یہ جان لیجیے کہ ہماری عدالتوں سے انصاف کے علاوہ سب کچھ رعایتی نرخوں با آسانی مل جاتا ہے. عدالت سے انصاف با آسانی فرار ہوجاتا ہے.

اگر آپ معاشرے میں رہتے سچ؛ ور حق بولنے والی کوئی تلخ حقیقت پر مبنی رائے رکھتے ہیں تو اسے ڈائری میں لکھے دل میں رکھے مگر کسی سے شئیر مت کریں. بصورت دیگر آپ لاپتہ ہوسکتے ہیں. آپ کو دھمکیاں مل سکتی ہیں. آپ کی محفوظ زندگی غیر محفوظ ہوسکتی ہے. اپنی عافیت جانتے ہوئے اس بات کی بھی خود کو عادت ڈال لیجیے.

آپ اگر کچھ زیادہ سچ بولنے کے عادی ہے تو یہ عادت بھی خود تک رکھئے.

اگر آپ پاکستان کے موجودہ نظام جمہوریت کو دل سے لگائے بیٹھے ہیں تو آپ تیار رہیں کہ مہنگائی، بھوک، افلاس، بد امنی، گندا پانی، کچرے کا ڈھیر، گندگی، جعلی دودھ و ادویات، جہالت کا ہونا اور ریاست کا آپکی ذاتی زندگی اور آپکے مذہب میں مداخلت کوئی انوکھی بات نہیں کیوں کہ یہ جمہوریت کا تحفہ ہے.
آپ صحافی ہیں تو وہ سچ مت بولئے جو ایک تلخ حقیقت ہے. آپ وہ جھوٹ اور سچ کہیے جو اچھا لگے. ورنہ آپ کا حشر وہی ہوگا جو سلیم صافی اور حامد میر کا ہوا.

آپ تاریخ اور ریاستی اداروں پر بھی سوال اٹھانے سے باز رہیں. چونکہ یہ جرم ہے. سو اپنی بہتری چاہتے ہوئے. جو ہورہا ہے ہوتے رہنے دیجیے. اگر آپ اسکے برعکس بول اٹھے تو آپ مار دئیے جائیں گے.
آپ کا پرسان حال کوئی نہیں ہوگا.

جیسے کچھ دن قبل شیخوپورہ میں قوت سماعت سے محروم شخص کی روزی کمانے کا واحد ذریعہ تھا. وہ قوت سماعت سے تو محروم تھا ہی مگر اب اسے اسکا چولہا جلنے کا ذریعہ اسکے گنے کی مشین تھی. جو تجاوزات کی نظر ہوگئی.

گنے کے جوس کی ریڑھی لگانے والا .بیچارہ غریب گونگا ترلےڈالتا رہ گیا۔۔۔ ٹی ایم اے کا عملہ اُسےغلیظ گالیاں دیتا رہا،اور اُسکی مشین بھی اُٹھا کر لے گیا. اگر آپ اس ملک میں بولے گے کچھ کریں گے تو آپ کا حشر وہی ہوگا جو ایک گونگے غریب کا ہوا.

Syed Saqib Shah
About the Author: Syed Saqib Shah Read More Articles by Syed Saqib Shah: 9 Articles with 6276 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.