تحریر: صدف نایاب
آج سے چند ماہ قبل 14 جنوری 2018 کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کہ ایک نواحی
علاقہ قصور میں دلخراش واقع پیش آیا۔ ایک ایسا واقعہ جس کو سن کر ہی روح
کانپ جائے۔ ایک معصوم کلی کو استعمال کر کے بیکار ٹشو پیپر کی مانند کوڑے
کے ڈھیر میں پھینک دیا گیا۔ بھولی بھالی 7 سالہ زینب اپنے بچپنے میں
گم،دنیا کی بے رحمی سے انجان اپنی زندگی کی بہاروں میں جھولا جھول رہی تھی
کہ اچانک انسان کے نام پر دھبہ ایک بھوکا بھیڑیا آیا اور اس کے نازک گوشت
پوست کو نوچ کر کھا گیا۔ یا اﷲ! کیا گھڑی ہو گی وہ عرش بھی رویا ہو گا اور
زمین بھی لرزی ہوگی۔ ’’مگر خدایا ہم تیری ان حکمتوں سے انجان ہیں۔ اگرچہ دل
غم سے دو ٹکڑے ہو گیا، آنسو ہیں کہ رکتے نہیں اور ذہن ابھی تک زینب کی کوڑے
میں پڑی لاش، اس تصویر کو تسلیم نہیں کر پایا۔ مگر مولا پھر بھی ہم تیری
رضا میں راضی ہیں‘‘۔
زینب کا یہ دلدوز واقعہ یقینا انسانی دل دماغ قبول کرنے سے عاری ہے۔ مگر اس
ایک واقع کی وجہ سے اﷲ نے ان بے شمار لاتعداد زینبوں کے قاتلوں کا پردہ فاش
کیا ہے۔ اور ایسے ہی مزید ان گنت بچیوں کو اس ظلم سے مکمل طور پر نہ سہی
مگر کافی حد تک ضرور بچا لیا ہے۔ سیاست، مذہب، معیشت یا عمرانیات زندگی کا
کوئی ایسا پہلو نہیں جس پر کسی ملک وقوم کا جھگڑا یا اختلاف سامنے نہ آیا
ہو۔ مگر مسلمان اور پھر پاکستانی ہونے کے ناطے ایک اتفاق ہر بار اﷲ نے ہمیں
دکھایا کہ جب جب اس ملک کے لوگ یک جان ہوئے اور اپنی تمام بولیوں اور
زبانوں کو ایک آواز بنایا، اﷲ نے کامیابی دی۔ قیام پاکستان کے وقت بھی یہ
ہی صورتحال تھی۔جہاں دیگر مسائل تھے معاشی، لسانی، مذہبی، تعلیمی اور سیاسی
وہیں عورتوں بچوں کی عصمتیں بھی انتہائی غیر محفوط تھیں۔ ان تمام وجوہات کی
بنا پر قائد اعظم جیسے مؤثر افراد نے ایک الگ خطہ اراضی کی جدوجہد کی۔گویا
پاکستان حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا مقصد لوگوں کی عزتوں جان اور مال کا تحفظ
تھا۔
اب اگر موجودہ حالات کو دیکھا جائے۔ہم آزاد تو ہیں اور کافی حد تک مسائل پر
بھی قابو پا چکے ہیں۔ مگر جنسی حوس جیسی خطرناک ذہنیت سے آج تک چھٹکارا نہ
پا سکے۔ آج فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت غیروں نے یہ کام کیا اور آج اپنوں
نے۔اب اگر اپنے ہی ملک میں ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی آبروئیں محفوظ نہ ہوں تو
ایسے بھیڑیوں کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
اب آتے ہیں اس بچارے قاتل کی طرف: ہمیں غصہ تو بہت ہے۔مگر اس واقعہ سے ہٹ
کر اگر دیکھا جاے تو وہ قاتل بھی کسی کا بیٹا اور بھائی تو تھا ہی۔ کیا اس
ماں کا دل کٹ کے نہ رہ گیا ہو گا۔کہ کیا کیا خواب بنے تھے اس نے اپنے بیٹے
کے بڑا آدمی بننے کہ مگر اس کی اس حرکت نے وہ ساری آرزوئیں چکناچور کر
دیں۔دل اور درد تو ان والدین کے سینے میں بھی ہے۔موت کا تو ہو گا ہی مگر اس
بات کا سب سے زیادہ کہ جس بیٹے نے بازو بننا تھا، کسی کا سہاگ بن کر زندگی
کی شمع جلانی تھی اس نے اپنی زندگی ہی برباد کردی۔
ذمہ دار کون؟سچ پوچھیے، ذمہ دار یہ میڈیا جو گاڑی سے لے کر شیو نگ کریم تک
کا اشتہار لڑکی کے بغیر نہیں بنا سکتا۔ وہ سب ڈرامے جو والدین کی نافرمانی
سکھاتے ہیں۔بری صحبت، معاشرے میں پھیلی برائیوں کو دکھانا اصل میں برائی کو
مذید پھیلانا ہی ہے۔ یہاں قصور ان تمام لوگوں اور چیزوں کا جنھوں نے دین
واسلام سے دوری اختیار کی، قصور ان تمام لوگوں کا جنھوں نے اسلامی حد اور
تعزیر نافذ نہ کی، قصور ان سب باتون کا جو بے حیائی کو فروغ دیتی رہیں اور
وہ ان کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ یہ جانتے ہوے بھی کہ قران ہمیں سکھاتا ہے
’’زنا کہ قریب بھی نا پھٹکو‘‘۔
بروز 17اکتوبر، 2018 اس مجرم کو سزاے موت دے دی گئی۔ اس واقعہ سے یہ ثابت
ہواکہ اگر ہم اکٹھے ہو جائیں تو جس طرح زینب کے قاتل کو پھانسی دینے کا شور
ہر طرف مچایا گیااور بالآخر لوگوں کی اس محنت کے نتیجے میں قاتل کو عبرت
ناک سزا سنا دی گئی۔ اسی طرح ٹوئٹر کا ٹرینڈ، فیس بک اور تمام سوشل میڈیا
کو اپنے اتحاد سے اسلامی دائرہ کار کے مطابق چلایا جاسکتا ہے اور ایک حد
میں رہ کر سوشل میڈیا کی ان باتوں کو بھی اپنایا جا سکتا ہے جو دین سے نہ
ٹکراتی ہوں۔
اس ناگزیر واقعہ نے لوگوں کو کم ازکم اس بات پر سوچنے پر مجبور کیا کہ اب
بچوں کو دینی تعلیم بھی دینی ہے۔شادیاں بھی جلدی کرنی ہیں اور جہاں تک ہو
سکے حفاظتی اقدامات بھی کرنے ہیں۔یہاں سب سے بڑی نمایاں کارکردگی حکومت کے
عدل وانصاف کی ہے۔ جس کی بدولت مجرم اپنے انجام کو پہنچا۔ جس ملک و قوم میں
انصاف کا قانون عام ہو جائے وہ ملک پھر ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن
ہوجاتاہے۔ آج ایک قاتل کی پھانسی نے ہزاروں ان قاتلوں کو یقینا روک دیا
ہوگا جو کل کو شاید پھانسی کے تختے پر لٹکنے کو تیار ہوں۔آج اگر اسلامی
تعلیمات کے پیش نظر حد جاری ہونا شروع ہو جاے تو ان سنگین جرائم کا اس ملک
سے مکمل خاتمہ ہو جائے ہمارے یہاں ایک طبقہ اﷲ کی عائد کر دہ سزاؤں کو سخت
اور انسان کے لیے بہت برا خیال کرتا ہے۔ مگر زینب کے واقعہ نے یہ ثابت کر
دیاکہ یہ اﷲ کی لگائی ہوئی حد ہی ہے جو انسانیت کی محافظ ہیں۔ضرورت صرف
اپنی طاقت کو پہچاننے اور صحیح جگہ استعمال کرنے کی ہے۔ بے راہ روی کو ختم
کرنے کا واحد ذریعہ اﷲ اور اس کے رسول کی تعلیمات کو پروان چڑھانا اور عمل
میں لانا ہے۔ |