تعلیم نسواں میں مشکلات اور سماجی رویے

تحریر: راصب خان، کراچی
عورت ہر معاشرے کا اتنا ہی اہم حصہ ہوتی ہے جتنا کہ مرد۔ تب ہی ترقی یافتہ سے لے کر ترقی پذیر معاشروں تک عورتوں کو اپنے جائز مقام اور مردوں کے مساوی حقوق کے لیے آج تک جدو جہد کرنا پڑ رہی ہے۔ مشرق کی مثال دی جائے یا مغرب کی خواتین کا مقام وہاں کی معاشرتی اقدار اور روایات کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ دور میں دونوں ہی طرح کے معاشروں میں خواتین کے روایتی کردار میں تبدیلیاں آئی ہے۔ خواتین اب اپنی روایتی ذمہ داریاں پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کرتی آئی ہیں، جس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ عورتوں کی تعلیم کی اہمیت کا شعور اب دنیا کے ان قدامت پسند معاشروں میں بھی اجاگر ہوتا جارہا ہے جہاں والدین لڑکی کی پیدائش سے ہی زر اور زیور جمع کرنے کی فکر میں شروعہو جاتے تھے کیونکہ انہیں اپنی بیٹی کو بیاہنے کا بندوبست کرنا اپنا اولین فریضہ لگتا تھا۔ عورت معاشرے کا اہم جز ہے جسے ہر روپ میں اسلام نے اعلیٰ مقام و مرتبہ دیا ہے۔ اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے عورتوں کو حقوق دیے اور ان حقوق میں ایک حق تعلیم کا بھی ہے۔ تعلیم یافتہ خواتین قومی ترقی کے فروغ میں اہم کردار کی حامل ہیں تعلیم کے حصول کے لیے خواتین کو یکساں مواقع کی فراہم ہونے چاہئیں۔ یہاں اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ خواتین تعلیم حاصل کریں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ قومی ترقی کی رفتار تیز ہو کیونکہ تیز رفتار ترقی کے لیے خواتین موثر کردار اداکر سکتی ہیں۔ صنفی امتیاز کے خاتمے اور یکساں حقوق کی فراہمی سے ہی پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔

ہمیں عورت کی تعلیم کی راہ میں روکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے سوچنے کے انداز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے،جو لڑکیوں کو اپنے بہتر مستقبل کے لیے پڑھائی جاری رکھنے کا اچھا موقع فراہم کرے کیونکہ پاکستان میں خواتین کو صنفی تفریق اور صنفی عدم مساوات جیسے شدید مسائل اور عصبیت کا سامنا ہے۔ خاص طور پر خواتین جسمانی، ذہنی، نفسیاتی ،مالی ،ثقافتی ،جنسی ، جذباتی تشدد ،کا شکار ہیں۔ ایسے تمام معاشرے جہاں دیگر حقوق میں لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے وہاں لڑکیوں کو تعلیم کے حق میں بھی شدید صنفی تفریق کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور نتیجاً وہاں معاشرتی ترقی کی رفتار مایوس کن ہے۔تعلیم ہی وہ بنیادی اور موثر ترین ہتھیار ہے جس کی مدد سے نہ صرف ہمہ قسم صنفی تفریق، صنفی تشدد اور عدم مساوات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ مستقبل میں ان مسائل سے مستقل چھٹکارا بھی پایا جا سکتا ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا: ’’دنیا میں دو طاقتیں ہیں، ایک تلوار ہے اور دوسرا قلم ہے۔ ان دونوں کے درمیان شدید مسابقت اور رقابت ہے۔ ان دونوں سے زیادہ طاقتور ایک اور قوت بھی ہے اور وہ خواتین ہیں۔‘‘ لڑکیوں کو تعلیم کی فراہمی بلامقابلہ ڈھالنے والی طاقت ہے۔ لڑکیوں کو علم کی فراہمی کے علاوہ یہ لڑکیوں میں اپنی مکمل مہارت کا احساس دلاتی ہے اور اعتماد کے ساتھ بااختیار بناتی ہے تاکہ انھیں اپنے خوابوں کی تعبیر پانے میں مدد ملے۔ خواتین کو تعلیم کی فراہمی سے غربت میں کمی، صحت مند رہنے کے لیے بنیادی سہولیات سے آگاہی، ملازمتوں کے بڑھتے ہوئے مواقع اور معاشی خوشحالی میں زیادہ مدد ملتی ہے۔ حقیقت میں خواتین کا بااختیار ہونا معاشی طور پر مضبوط ممالک کی بنیاد ہے۔ خواتین اپنی شرکت سے نہ صرف ملک کی افرادی قوت کو دوگنا کرسکتی ہیں بلکہ پرعزم اساتذہ، بیورو کریٹس، سائنسدانوں، انجینئرز اور مختلف شعبوں کے ماہرین کی بڑی تعداد میں دستیابی بھی یقینی ہوگی۔

حضور پاک کا فرمان ہے: ’’علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر لازم ہے‘‘۔ پاکستان کا آئین بھی کسی صنفی امتیاز کے بغیر تعلیم کے یکساں مواقع کی ضمانت دیتا ہے تاہم ملک میں بعض مقامی روایات کی بنا پر کچھ لوگ خواتین کو تعلیم کی فراہمی سے ہچکچاتے ہیں مگر پاکستان میں اب بھی ایسے علاقے موجود ہیں جہان نصف کلومیٹر سے زائد کے فاصلے پر اسکول موجود ہونے کے باوجود بھی لڑکیوں کے داخلے میں کمی واقع ہورہی ہے۔

آج معاشرے میں ضرورتت کی امر کی ہے کہ خواتین کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جائے اور تعلیم بالغاں کے مختلف نصاب ترتیب دئے جائیں جس میں الف ب سے بے بہرہ خواتین کو بنیادی تعلیم سے روشناس کروانے کا سلسلہ شروع کیا جائے جبکہ ان خواتین کو جن کا مڈل پاس کرنے کے بعد تعلیمی سلسلہ منقطع ہوچکا تھا انھیں میٹرک کی تیاری کروائی جائے۔اس دور میں اگر حکمران خواتین کو حقیقی حقوق دینا چاہتے ہیں تو ان کے لیے تعلیمی مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ تعلیم یافتہ اور ہنر مند خواتین ہی پاکستان کا مستقبل ہیں۔مذہب ،غیرت،رسم و راج کے نام پر عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور قتل عام ختم ہونا چاہیے۔ ملک کی نصف سے زائد آبادی کو تعلیم سے محروم کرنا سماجی لحاظ سے کسی بھی طور پر قابل جواز نہیں ہے اور یہ آئین کی روح کے بھی منافی ہے۔

عورت کس طرح کی تعلیم حاصل کرے اور وہ تعلیم حاصل کر لے تو اس تعلیم کا کیا کرے؟ہمارے بہت سے پڑھے لکھے مرد حضرات بھی عورتوں کی تعلیم کے متعلق نہایت دقیانوسی خیالات رکھتے ہیں۔عورت کو تعلیم کا حق دینے میں بھی ہمارے معاشرے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ایک طبقہ کا موقف ہے کہ ( جس میں عورتیں اور مرد دونوں شامل ہیں) کہ عورتوں کو تعلیم کی خاص ضرورت نہیں چونکہ وہ معاشرے کا فعال کردار ادا نہیں کر سکتیں لہٰذا انھیں تعلیم کی سختیاں برداشت کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ طبقہ اپنے سخت گیر تصورات سے بچنے کے لیے عورتوں کی معمولی یا ابتدائی تعلیم کے حق میں رہتا ہے جیسے میٹرک یا ایف اے تک کی تعلیم۔ ایسی خواتین بھی اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں ہوتیں۔ نظریہ یہ ہوتا ہے کہ پڑھ لکھ کے کیا کرنا ہے آخرکار گھر ہی سنبھالنا ہے جبکہ دوسرا طبقہ ذرا فراخ دل ہے۔یہ طبقہ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے مکمل حق میں ہے۔ میں نے اکثر ایسے افراد اور خاندان دیکھے ہیں جو لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا کے لڑکیوں کے رشتے ہوتے ہی انھیں گھر بیٹھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ خاندان لڑکیوں کے اچھے رشتوں کے لیے لڑکیوں کی ا علیٰ تعلیم کے حق میں ہوتے ہیں۔یہ سب باتیں تو ہمارے معاشرے میں ابھی بہت دور ہیں کہ عورت اپنا حق اور آزادی فطری طور پر لینے لگے مگر جس طرح کی پابندیوں کا ذکر سب سے پہلے ہوا کہ عورت کو پڑھانے کی کیا ضرورت اس نے گھر ہی تو بسانا ہے اس قسم کے رویوں کی شدید مذمت کی جانی چاہیے۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1156138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.