گھر سے نکالے جانے کا دکھ لیئے وہ دربدر پھری، وہ پڑھ لکھ
سکتی تھی مگر نہ پڑھنے دیا گیا، تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئی مگر اس
کیساتھ سلوک جائلانہ ہوا، وحشیانہ ہوا۔ اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا
گیا۔دربدر پھری،عزت بار بار تار تار ہوئی،جی چاہا کہ مر جائے مگر مانگنے سے
بھیک تو ملی موت نہ ملی۔حورم کہتی ہے مجھے پھر ’’گرو ‘‘کے پاس پہنچا دیا
گیا دو برس بیت گئے مگر شناخت سے اب بھی محروم ہوں،شناختی کارڈ کی آس لگی
تو تھی مگر پوری نہ ہو سکی،ووٹ درج نہ ہو سکا شناختی کارڈ ہوتا تو درج
ہوتا۔۔ہم ظلم سہتے ہیں،طعنے سنتے ہیں،ہماری مجبوریوں نے ہمیں’’ہنسی مذاح ‘‘
کی کوئی عجیب شے بنا دیا ہے۔ہمارے دکھ کوئی جاننا نہیں چاہتااور ہم سب کی
خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں، کبھی جان سے مار دئیے جاتے ہیں ،اور کبھی تشدد
کا شکار ہو تے ہیں،یہ خوبصور ت تیکھے نین نقش والی ’’حورم‘‘ کی کہانی ہے جس
کا کوئی اختتام نہیں ہے یہ ہر اس زی روح کی کہانی ہے جسے اس دنیا میں ’’
تیسری مخلوق‘‘ کا نام دے دیا جاتا ۔حورم سے اس کے والدین سے متعلق سوال کیا
تو وہ گویا ہوئی کہ کیوں ان کا بتاوں جو مجھے اپنے لئے کلنک کا ٹیکہ سمجھتے
ہیں۔ 2009 میں پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک تھا جس نے قانونی طور پر
تیسری جنس کو تسلیم کرتے ہوئے خواجہ سراوں کو شناختی کارڈ حاصل کرنے کی
اجازت دی۔ شی میل حقوق کے لئے سرگرم چار تنظیموں کے بانی رہنماوں کے مطابق
پاکستان میں خواجہ سرا افراد کی تعداد 5 لاکھ سے زائد ہے لیکن سیاست اور
زندگی کے دیگر شعبوں میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور انہیں
مخصوص شعبوں تک محدود کردیا گیا ہے، جس کے باعث برادری کے کئی افراد بھیک
مانگ کر اور رقص کرکے گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔2017 کی مردم شماری میں
پہلی بار اس صنف کو جگہ دی گئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں خواجہ
سراؤں کی تعداد 10 ہزار 418 ہے جو کل آبادی کا 0.005 فی صد بنتی ہے۔ لیکن
جینڈر انٹریکٹو الائنس(جیا) کی بندیا رانا یہ تعداد تین لاکھ سے اوپر بتاتی
ہیں۔ان کا اس بارے میں کہنا ہے کہ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کی رپورٹ کے
مطابق ملک میں ڈیڑھ لاکھ خواجہ سرا ایڈز کا شکار بن چکے ہیں، پھر تازہ مردم
شماری میں صرف 10 ہزار 418 کی تعداد سوالیہ نشان ہے۔ پیشہ وکالت سے منسلک
آصف رانا کا کہنا تھا کہ صرف کراچی کی بات کی جائے تو اس شہر میں 974 ٹریفک
سگنل ہیں اگر ہر سگنل پر دس ٹرانس جینڈر کھڑے ہوں تو تعداد کہاں جائے گی جب
کہ مردم شماری والوں نے صرف 1499 بتائے ہیں۔پاکستان کی چھٹی مردم شماری کے
مطابق ملک کی مجموعی آبادی 20کروڑ 77 لاکھ 74ہزار 520 نفوس پر مشتمل ہے۔
پاکستان میں موجود مخنث آبادی کا سب سے زیادہ 64.4 فیصد حصہ پنجاب میں ہے
جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بھی ہے۔پنجاب میں مخنث
برادری کے 6 ہزار 709 افراد موجود ہیں جبکہ کراچی کا زکر کئے بغیر سندھ میں
2 ہزار 527 مخنث افراد کی موجودگی بتائی گئی ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخوا اور
بلوچستان میں بالترتیب 913 اور 109 اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا)
میں صرف 27 جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں یہ تعداد 133 بتائی گئی
ہے جب کہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔راولپنڈی میں مقیم ’’بجلی‘‘ کے مطابق شمس
آباد،فیض آباد،سیٹلائٹ ٹاون ،غوری ٹاون،ڈھوک کالا خان،ضیامسجد،شکریال،کھنہ
پل،بہارہ کہو سمیت متعد یونین کونسلوں میں سیکڑوں کی تعداد میں ٹرانس جینڈر
مقیم ہیں جنہیں گننے کوئی آیا ہی نہیں۔لاہور ہائیکورٹ میں گزشتہ برس 2017
میں وقار علی نامی وکیل نے ٹرانس جینڈر کو مرکزی دھارے میں لانے کے لئے رٹ
دائر کی،مساوی شہری مساوی رتبہ کے لئے عدالتی جنگ اب بھی جاری ہے۔ اصل
اعدادو شمار نہ ملنے پر اطلاعات تک رسائی کے قانون کا سہارا لیتے ہوئے
نادرا،الیکشن کمیشن ،نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام ،شماریات بیورو کو معلومات
کی فراہمی کے لئے باقاعدہ درخواستیں دی گئیں۔ان سے رجسٹریشن کا طریقہ
کار،اندراج کا طریقہ کار اور ٹرانس جینڈر کے شمار کے لئے الگ سے کوئی
پروگرام بابت پوچھا گیا ۔صرف شماریات بیورو نے باقاعدہ تحریری جواب دیا جس
میں یہ بتا یا گیا کہ ٹرانس جینڈر کی رجسٹریشن عدالتی حکم پر کی گئی ان کی
جانب سے تعاون کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا،اس کا بھی جواب دیا گیا کہ
مکمل تفصیل جب مردم شماری کے اعدادو شمار باقاعدہ کتاب کی صورت میں شائع
ہوں گے تو اس میں درج ہے ۔ٹرانس جینڈر کی علیحدہ سے شمار کے لئے کوئی
پروگرام یا تجویز زیر غور نہیں ہے۔خیبر پختون خوا میں قائم تنظیم ’’ٹرانس
ایکشن الائنس‘‘ کی صدر فرزانہ ریاض کے مطابق اس صوبہ میں 50 ہزار کے قریب
خواجہ سرا مقیم ہیں اور صوبائی حکومت نے فلاح و بہبود کے لئے بیس کروڑ کے
فنڈز مختص کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ملازمتوں میں دو فی صد کوٹہ پر بھی
عملدرآمد نہیں ہو رہا۔گزشتہ دو سالوں میں کے پی کے میں 55 ٹرانس جینڈر اور
ملک بھر میں سن دو ہزار پندرہ سے اب تک 500 خواجہ سرا قتل کر دیے گئے،اس
سفاکیت کی تصدیق سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن سپریم کورٹ میں سماعت کے
دوران کرتے ہیں۔قتل کی رپورٹ تو درج ہو جاتی ہے مگر کیس کی پیروی کوئی نہیں
کرتا۔ نادرا حکام بتاتے ہیں کہ اب تک 342 خواجہ سراوں کو کمپیوٹرائزڈ
شناختی کارڈ جاری ہو چکے ہیں۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر راولپنڈی صائمہ یونس کا ایک اجلاس میں بتانا تھا کہ
خواجہ سراوں کی رجسٹریشن میں سب سے بڑی رکاوٹ ’’گرو‘‘ ہیں جو معلومات پر
مبنی بیان حلفی ہی نہیں دیتے ان کے مطابق اس شہر میں اب تک صرف66 ٹرانس
جینڈر کی رجسٹریشن ہوئی ہے۔رجسٹریشن کے لئے ہر ضلع میں سہولت مرکز قائم
ہیں۔سفر نامی تنظیم کے ندیم کشش کا کہنا تھا کہ خواجہ سرا کی تمام معلومات
’’گرو‘‘ کے پاس ہوتی ہیں اگر کسی خواجہ سرا کی موت واقع ہو جائے تو اس کے
گھر والوں کو باقاعدہ اطلاع دی جاتی ہے اگر وہ نعش لینا چاہیں تو دے بھی دی
جاتی ہے اگر نہ لیں تو باقاعدہ جنازہ کر کے رات کے اندھیرے میں تدفین کر دی
جاتی ہے ۔جنازہ عام مرد اٹھا کر قبرستان لے جاتے ہیں۔ قبر کی کوئی شناخت
نہیں رکھی جاتی۔ٹرانس جینڈر تیسری جنس کے طور پر پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور
ڈرائیونگ لائسنس بنوا سکتے ہیں اور گھر، علاج اور نوکری حاصل کر سکتے ہیں،
یعنی اب ہر پاکستانی کی طرح ان کے بنیادی حقوق بھی تسلیم کر لئے گئے ہیں ۔انہیں
الیکشن لڑنے کی اجازت تو ملی مگر فارم میں ان کی صنف کا خانہ ہی نہ
تھا۔انتخابی فہرستوں کی چھان بین سے پتہ چلا کہ صرف 1456 ٹرانس جینڈر کو
ووٹر کی حیثیت ملی ہے ۔سندھ میں ایک ہزار،کے پی کے میں 105 بلوچستان میں 50
فاٹا میں 17اسلام آباد میں صرف 3ووٹوں کا اندراج کیا گیا ہے۔اس حوالے سے شی
میل ایسوسی ایشن فار رائیٹس کے صدر ندیم کشش کا کہنا تھا کہ وفاقی
دارالحکومت میں میرے 300 اراکین ہیں۔اسلام آباد میں کل مرد ووٹرز کی
تعداد407,463خواتین ووٹرز کی تعداد357,885 میں سے صرف تین ٹرانس جینڈر
ووٹرز ہیں۔نیک شگون یہ ہے کہ نادرا ٹرانس جینڈر کو مفت شناختی کارڈ کی
فراہمی کر رہا ہے اور اب شناخت کوئی پیچیدہ مسئلہ بھی نہیں۔یہ اب بھی بے
شناخت پھرتے ہیں۔میں یہ جملہ لکھتے ہوئے لرز گیا کہ وہ ماں باپ جو اپنے
ٹرانس جینڈر بچوں کو گھر سے نکال دیتے ہیں قیامت کے روز جب یہی بچے ماں کے
نام سے پکارے جائیں گے تو کیا ــ’’ مائیں‘‘ منہ چھپا ئیں گی، باپ مکر جائیں
گے۔ |