24اکتوبرآزادکشمیر اور اقوام متحدہ کایوم تاسیس ہے۔ 1947ء
میں اسی د ن کشمیریوں نے ڈوگرہ شاہی سے بغاوت کے بعدآزاد کرائے
گئے13ہزار297مربع کلو میٹر علاقے پرپہلی انقلابی حکومت قائم کی ۔ عبوری
حکومت نے اپنے پہلے اعلانیہ میں کہا کہ یہ حکومت اس امر کا انتظام کرے گی
کہ یہاں غیر جانبدار مبصرین آئیں جن کی نگرانی میں پورے جموں و کشمیر میں
رائے شماری کرائی جائے۔آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کو مقبوضہ کشمیر کو
آزاد کرانے کے ایک بیس کیمپ کا کام کرنا تھا۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
یہاں کے حکمرانوں کی ترجیحات بدل گئیں۔وہ پورے مکان کے بجائے ایک کمرے کی
ملکیت پر لڑنے لگے۔آج200سے زیادہ یونین کونسلو ں اور تقریباً 1700دیہات پر
مشتمل آزاد ریاست میں اقتدار اور مراعات کی جنگ جاری ہے۔ بجٹ کا خسارہ پانچ
ارب روپے سے بڑھ گیا ہے ۔5کروڑ سے زیادہ کی رقم اوور ڈرافٹ ہونے کے
باوجودکشمیر کونسل اور واپڈا آزاد کشمیر حکومت کو ادائیگی کرنے سے مسلسل
گریزاں ہیں۔آزاد کشمیر کو کشمیر کونسل کی جانب سے ٹیکسوں کی وصول کردہ رقم
کا80فی صد ملتا ہے۔ماہانہ تقریباً 40کروڑ روپے اسی مد میں آمدن ہوتی ہے۔
آئینی ترمیم کے باوجود ابہام پایا جاتا ہے۔ کشمیر کونسل ابھی ختم نہیں
ہوئی۔نہ ہی اسے قانون ساز کونسل بنایا جا سکا۔ جب کہ یہ آزاد کشمیر قانون
ساز اسمبلی کا ایوان بالا ہونا چاہیئے۔ حکومت پاکستان کے ذمہ اب بھی اربوں
روپے واجب الادا ہیں۔یہ وہ رقم ہے جو فیڈرل ٹیکسوں کی مد میں آبادی کی
بنیاد پر آزاد کشمیر کو 3.5فی صد کے حساب سے دی جاتی ہے۔واٹر چارجزکی مد
میں واپڈا کے ذمہ کروڑوں روپے واجب الادا ہیں۔آزاد کشمیر میں موبائل ٹاورز
لگانے کے سلسلے میں کشمیر کونسل نے موبائل کمپنیوں سے کروڑوں روپے سیکورٹی
فیس وصول کی ہے ۔یہ رقم کونسل کے اکاؤنٹ میں جمع ہے۔اس میں سے بھی آزاد
کشمیر کو ادائیگی نہیں کی گئی جو کہ 40ملین ڈالرسے تجاوز کر گئی ہے۔اس کے
علاوہ ایک سال کا مارک اپ6فی صد کے حساب سے 6.1ملین ہے۔کشمیر کونسل ایک
آئینی ادارہ تھا جو آزاد کشمیر کے عبوری آئین کی دفعہ 21کے تحت قائم کیا
گیا ۔چونکہ وزیر اعظم پاکستان کشمیر کونسل کے چیئر مین اور صدر آزاد کشمیر
وائس چیئر مین ہوتے ہیں اس لئے کونسل کو آزاد کشمیر اور حکومت پاکستان کے
درمیان روابط اور تعلق کو مضبوط بنانے کے لئے ایک پل کی حیثیت حاصل ہے۔
پاکستان کے وزراء خارجہ،داخلہ ،امور کشمیر،تعلیم اور اطلاعات و نشریات کو
14رکنی کشمیرکونسل میں رکنیت دی گئی ۔ کشمیر کے معاملات اور مسلہ کشمیر کے
سلسلے میں بھی یہ ادارہ غیر معمولی کردار ادا کر سکتا تھا مگر ایسا نہ ہو
سکا۔ اس لئے اس کے خاتمے کی مہم شروع ہوئی۔ تیرہویں ترمیم کو اسلام آباد نے
تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے آٹھ رکنی خصوصی
کمیٹی تشکیل دی ہے۔ جس نے ابھی تک اپنی رپورٹ تیار نہیں کی۔ یہ کہا جا رہا
ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی سے کسی قانون کی منظوری کے لئے وفاقی کابینہ کی
منظوری ہونا چاہیئے۔21ارب روپے کشمیر کونسل کی آمدن،منگلا ڈیم رائلٹی اور
فیڈرل ٹیکسوں سے حاصل ہوتے ہیں۔پاکستان حکومت 10ارب روپے ترقیاتی منصوبوں
کے لئے دیتی ہے۔1947ء سے1950ء تک آزاد کشمیر کا بجٹ جنگلات کی آمدن کا
مرہون منت تھا ۔1947ء میں وادی نیلم کے جنگلات کی آمدن 49لاکھ روپے جبکہ کل
بجٹ 48لاکھ روپے تھا ۔ایک لاکھ روپے سر پلس تھے۔آزاد کشمیرکی زراعت ،جنگلات،سیاحت
،فلوری کلچر کے حوالے سے اہمیت ہے ۔بل کھاتی ندیاں،جہلم ،نیلم اور پونچھ
جیسے دریا نہ صرف خطے کی حسن کو مالا مال کرتے ہیں، بلکہ یہ انمول آبی
وسیلہ ہیں ۔ان پر20ہزار میگا واٹ تک پن بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ مگر
حکمت عملی کے فقدان کی وجہ سے نیلم اور جہلم کا رخ موڑ دیا گیا ۔ ماحولیات
اور لاکھوں کی آبادی کا مفاد نظر انداز کیا گیا۔لائم سٹون کے بڑے سلسلے بھی
موجود ہیں۔وادی نیلم میں روبی کے پہاڑ ہیں ان قدرتی وسائل کا استعمال کیا
جائے تو یہ سرزمین سونا اگل سکتی ہے۔عوام سست اور کام چورنہ ہوں تو وہ اپنی
دھرتی کی ترقی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کھیت لہلہا سکتے ہیں۔پالتو
جانوروں کی افزائش ،ڈیری فارمنگ،فش فارمنگ سے معیشت میں انقلاب آسکتا
ہے۔لیکن قیمتی روبی اور دیگر خزانہ کی چوری کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو
رہا ہے۔
آزاد کشمیر آبادی کے لحاظ سے ضلع راوالپنڈی سے بھی چھوٹا ہے۔راولپنڈی کی
آبادی 44لاکھ جبکہ آزاد کشمیر کی آبادی 34لاکھ ہے۔اس میں سے بھی 10لاکھ سے
زیادہ لوگ بیرون ملک ہیں۔ضلع راولپنڈی سے آزاد کشمیر کا بجٹ پانچ سو گنا
زیادہ ہے۔راولپنڈی کو ایک ڈی سی او(ڈی سی) چلاتا ہے ۔آزاد کشمیر میں صدر ،وزیر
اعظم،ایک محکمے پر کئی وزیر، مشیربیٹھے ہیں۔سیکریٹریوں،کمشنروں اور افسران
کی فوج موجود ہے۔جو کشادہ دفتر وں اور بڑی گاڑیوں کے چکر میں رہتی ہے۔2005ء
کے زلزلہ میں بستیاں کھنڈرات میں تبدیل ہوئیں تو تعمیر نو کے 55ارب روپے
منتقل کر لئے گئے۔ عام انسان کی حالت نہیں بدل سکی ہے۔زرخیز زمین دستیاب
ہونے کے باوجود اناج،سبزیاں اور پھل باہر سے درآمد ہوتے ہیں۔یہ خطہ آبی
وسائل سے مالا مال ہے لیکن آبپاشی کے زرائع موجود نہیں۔ آزاد کشمیر کا زیر
کاشت رقبہ صرف 13فی صد ہے جو ایک لاکھ 71ہزار ہیکٹر بنتا ہے۔حکوت تسلیم کر
رہی ہے کہ زرعی زمین کا ایک بڑا رقبہ زیر کاشت نہیں لایا گیاہے ۔خطہ میں
سفیدے کے درخت زمین کو بنجر بنا رہے ہیں۔ لیکن متعلقہ محکمہ ہاتھ پہ ہاتھ
دھرے بیٹھا ہے۔یہمتعلقہ محکموں کی نا اہلی اور سستی ہے کہ ایک زرخیز ترین
علاقہ بنجر بن چکا ہے ۔یہاں ہر گھر سے سیاستدان نمودار ہوتاہے۔ہر علاقہ
سیاسی اکھاڑہ ہے۔ سیاست ایک مشن اور عبادت ہے کیوں کہ اس میں خدمت خلق کا
جذبہ پنہاں ہوتا ہے۔آج کی سیاست تجارت بن چکی ہے جو اپنی زات اور مفاد تک
محدود ہو کر رہ گئی ہے۔قوم کے وسیع تر مفاد کے نام پرمفاد پرست ٹولے کو
مفادات اور مراعات پہنچائی جاتی ہیں۔ المناک بات یہ ہے کہ پارٹی فنڈز کے
نام پر ٹکٹ خریدے فروخت کئے جاتے ہیں ۔اقتدار پر قابض ہو کر وزیر مشیر بن
جائیں تو سرمایہ کاری کا ہزار گنا منافع کماتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے لاکھوں
لوگ سمندر پر رہائش پذیر ہیں۔لیکن یہاں کی برادری ازم،علاقہ اور فرقہ پرستی
کی سیاست بیرون ممالک بھی متعارف کرائی گئی ہے۔سمند رپار کشمیری اپنے مادر
وطن کے لئے کوئی مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے مختلف جماعتوں میں تقسیم ہو
کر ایک دوسرے کے خلاف سرگرم ہو جاتے ہیں ۔دنیا میں تعارف ایک منتشر قوم کے
طور پر ہو رہا ہے۔جس سے سفارتی خدمت کے بجائے بدنامی اورکشمیر کاز کو نقصان
پہنچتا ہے۔یہ بھی افسوسناک بات ہے کہ بعض سیاستدان کشمیر کاز کی آڑ میں
پاؤنڈ اور ڈالر وصول کرنے ،سیر و تفریح ،شاپنگ کے لئے دنیا کے چکر لگاتے
ہیں۔عوام کی خون پسینے کی کمائی کو اپنی عیاشی پر اڑادیتے ہیں۔آزاد کشمیر
میں آج بھی اقتدار کی جنگ جاری ہے۔اقدار کو اہمیت نہیں دی جاتی۔آزادی کے
بیس کیمپ کو بلا شبہ اقتدار کا ریس کیمپ بنا دیا گیا ہے۔کراچی معاہدے کے
تحت گلگت بلتستان کا سودا کیا گیا جو کشمیر کا حصہ ہے۔ نظام کو بدل ڈالنے
کے مسلسل نعرے لگائے گئے لیکن نظام کو درست کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی
کیوں کہ اقتدار کی جنگ سے کسی کو فرصت نہیں۔کبھی یہاں ہی ایک سال میں ایک
ہی اسمبلی نے چار وزرائے اعظم تبدیل کر کے ریکارڈ قائم کیا۔آزاد کشمیرحکومت
کی حثییت مسلہکشمیر کے حل تک عبوری ہے۔اس کا آئین بھی عبوری ہے۔ اس کا اصلی
کام پورے کشمیر کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔توقع ہے کہ حکمران عوام کے
خلوص کا جواب خلوص سے دیں گے، اقتدار اور اختیار کی جنگ کے ببجائے آزادی کی
جنگ کی جانب توجہ دیں گے۔مقبوضہ کشمیر میں قتل عام تیز کیا گیا ہے۔ آزاد
کشمیر میں صرف بیانات ہیں۔ تحریک آزادی کے لئے کوئی عملی کام نہیں ہو رہا۔
صرف بیرونی دورے ہو رہے ہیں۔ آزاد حکومت نے عبوری حکومت کا پہلا ہی اعلانیہ
فراموش کر دیا کہ حکومت اس امر کا انتظام کرے گی کہ یہاں غیر جانبدار
مبصرین آئیں جن کی نگرانی میں پورے جموں و کشمیر میں رائے شماری کرائی
جائے۔مگر یہ انتظام 70سال سے نہ کیا جا سکا۔کیا عمران خان حکومت اس جانب
توجہ دے سکے گی؟۔
|